• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ہماری مذہبی تعبیر نے مذہبی تشدد کو کیوں جنم دیا/صاحب زادہ امانت رسول

ہماری مذہبی تعبیر نے مذہبی تشدد کو کیوں جنم دیا/صاحب زادہ امانت رسول

جبراور دباؤ فرد یا قوم کے لیے کبھی بھی سود مند ثابت نہیں ہوتا۔ اس کے نتائج ہمیشہ خطر ناک اور بھیانک نکلتے ہیں۔ جبر کے مقاصد اچھے ہوں یا بُرے لیکن نتائج ایک جیسے ہی نکلتے ہیں۔ اگر کوئی یہ خیال کرے کہ لوگوں پہ اچھے کاموں کے لیے جبر کیا جاسکتا ہے اور کیا جانا چا ہیے یا کوئی یہ گمان رکھے کہ لوگوں کو بُرے کاموں (جو اس کے نزدیک ناجائز ہیں) سے منع کیا جا سکتا ہے اور بالجبر منع کیا جانا چا ہیے تو وہ بھی غلط سوچتا ہے۔ وہ معاشرے جہاں جبر کے ساتھ لوگوں کو روایتی اور اور مروّجہ فکر کا پابند کر نے کی کوشش کی جاتی ہے وہاں لوگ مذہب سے زیادہ دور ہو تے اور نفرت کی حد تک بیزار ہو جاتے ہیں۔ یہ رد عمل ان میں اسی جبرسے ہی پیدا ہو تا ہے۔ وہ معاشرے جہاں جبر نہیں وہاں لوگوں میں مذہب سے محبت اور تعلق بھی ہوتا ہے۔ان میں جتنا مذہب نظر آتا ہے وہ ان کی پسند اور آزادی کا ہوتا ہے۔ وہ ریاست جو بالجبر لوگوں کی زندگیوں میں مداخلت کرتی ہے وہاں منافقت جنم لیتی ہے۔ لوگ مذہب و اخلاقیات سے قلب و شوق سے نہیں جڑتے، بلکہ خوف سے جڑتے ہیں اور خوف کی زندگی بہت کم ہوتی ہے۔

اللہ نے کائنات میں تنوع رکھاہے اور ہر طرف آپ کو تنوُّع ہی دکھائی دیتا ہے۔ تنوع کا خاتمہ کبھی نہیں کیا جا سکتا۔یہ فطری اور جبلّی ہے۔جبر خدا کی منشا کے خلاف ہے۔خدا کی منشا آزادی،اختیار اور مرضی پہ مبنی ہے۔مثال کے طور پہ ایک بچہ خاندان میں جنم لیتا ہے،ممکن ہے وہ آپ کے ماحول،بزنس،پیشہ کو قبول ہی نہ کرے۔وہ ایک نئی دنیا تخلیق کرنا چاہے۔ ایسے میں اب آپ کے سامنے دو راستے ہیں۔ایک راستہ جبر اور کشمکش کا ہے۔آپ اس کوشش میں رہیں کہ وہ آپ کے راستے پہ آجائے۔صرف پیشہ ہی نہیں بلکہ مذہب،صرف مذہب ہی نہیں بلکہ سوچ و فکر بھی آپ والی اختیار کرے۔اگر آپ اس صورتحال میں جبر اور اور زبر دستی کا راستہ اختیار کرتے ہیں تو آپ بہت بڑی غلطی کرتے ہیں۔دوسرا راستہ یہ ہے کہ آپ اسے اختیار دیتے ہیں،ساتھ ہی اس کی نگہداشت کر تے ہیں،اسے اس کے تقاضوں کے مطابق پروان چڑھاتے ہیں۔یہ راستہ حقیقی راستہ ہے۔وہ اپنی دنیا کو تخلیق کرے گا اور آگے بڑھے گا۔آپ کی دنیا سے نفرت نہیں کرے گا۔اختلاف میں تربیت پانے والے لوگ وسیع القلب اور وسعتِ خیال کے مالک ہوتے ہیں۔ان میں احساس اور ٹھہراؤ ہوتا ہے۔پہلا راستہ آپ کی نا کامی کا راستہ ہے اور بچے کی بربادی کا راستہ ہےوہ جو چاہتا ہے وہی کرے گا خواہ جلدکرے یا دیر سے۔دیر سے کرے گا تو بہت کچھ ضائع کرکے کرے گا۔اگر جلد کرےگا تو بہتر ہو گا۔دوسرا راستہ جبر و تنگ نظری کا راستہ ہے جس میں کچھ بھی حاصل نہیں ہوتا۔ یہ مثال ایک بچے کی ہے،یہ بچہ کسی کا بھی ہو سکتا ہے لیکن یہ حقیقت اٹل ہے۔لوگ سوال کرتے ہیں نمازی اور دیندار گھروں میں نافر مان،ملحد یا سر کش کیوں پروان چڑھتے ہیں۔اس کی وجہ بھی یہی ہے۔ایسے ماحول میں منافقت پیدا ہوتی ہے اور یہ منافقت نافرمانوں کو جنم دیتی ہے۔وہ اپنے گھر میں ملمع کاری اور دین کےظاہری لباس میں چھپے کرداروں کا مشاہدہ خود آنکھوں سے کرتے اور اس پست کردار کے ساتھ نسلِ نو کو مجبور کیا جاتا ہےکہ تم انہیں روایات اور بھرم کے نگران و پاسبان بھی بنو۔یہ سب خرابیاں جبر سے پیدا ہوتی ہیں۔

مجھے گزشتہ ماہ دس دن کے لیے ترکی جا نے کا موقع ملا۔اگرچہ دس روز بہت کم ہیں لیکن ان دنوں میں آپ کی ملاقات ا ہل علم ودانش سے ہو جائے تو اس ملک کی تہذیب،تاریخ اور تعبیر سے بہت حد تک واقفیت بھی ہوجاتی ہے اور ان بنیادوں کا بھی علم ہو تا ہے جن پہ اس قوم کا کلچر اور شب و روز کا تحرک قائم ہوتا ہے۔یہاں تعبیر سے میری مراد تعبیرِ مذہب ہے۔یہ وہ فہم اور نتیجہ فہم ہے جس بنیاد پہ معاشرے کے اطوار کا علم ہوتا ہے۔

ایسا نہیں ہے کہ ترکی نے مذہب کو ترک کردیا یا مذہب کو دیس نکالا دے دیا ہے۔یہ کبھی ممکن بھی نہیں ہے۔اہل ترک نے دین اسلام کو نہیں چھوڑا۔ممکن ہے وہ اہل پاکستان سے زیادہ دین کے پیرو کار اور دین سے محبت کرنے والے ہوں۔ان کی مساجد ہماری مساجد سےزیادہ نمازیوں سے آباد ہوتی ہیں۔ہماری مساجد میں صرف مرد ہوتے ہیں۔ان کی مساجد میں مرد،بچے اور خواتین بھی موجود ہوتے ہیں۔وہاں تصوف کے حلقے ہم سے زیادہ قائم ہوتے ہیں۔سلسلہ نقشبند کے مریدین،معتقدین کا طویل سلسلہ ہے۔ مدارس میں طلباءکی کثرت ہے۔سب سے زیادہ حیرانی اس بات پہ ہے کہ باہر کے آزادانہ ماحول کے باوجود نوجوانوں کی کثرت دین کی طرف راغب ہے۔یورپ سے نوجوان دین کی تعلیم کے لیے ترکی آتے ہیں۔وہ کیوں آتے ہیں اس کے دیگر اسباب کے ساتھ یہ سبب ہے کہ وہاں جبر کا ماحول نہیں ہے۔وہ اپنے لیے اس ماحول کو سازگار پاتے اور رہنے کے قابل سمجھتے ہیں۔

اگر ترکی نے دین نہیں چھوڑا تو پھر اس کا سبب کیا ہے؟کہ وہاں اتنی آزادی کیوں ہے؟خواتین جو لباس چاہے پہنتی ہیں، شراب بازاروں میں موجود ہے۔سیاح آزادانہ طور پر آتے اور مغربی انداز میں رہتے ہیں۔اگر وہاں کے اہل علم سے ملاقات ہو تو وہ اس چیز کوانسان کی بنیادی آزادی کے خلاف خیال کرتے ہیں کہ ریاست لوگوں کو ایک خاص طرز زندگی کا پابند کرنے کی کوشش کرے۔ یہاں میں خاص طور پر ڈاکٹرمحمود آئی کا حوالہ دوں گا۔ڈاکٹر محمود آئی انقرہ یونیورسٹی میں الٰہیات اور فلسفہ کے استاذ ہیں۔وہ کہتے ہیں’’یہ خدا اور بندے کا معاملہ ہے ریاست اس میں مداخلت نہیں کر سکتی۔شراب لباس اور مرد عورت کااختلاط و دیگر مسائل ان میں مرد عورت آزاد ہیں۔‘‘

ارتداد کے حوالے سے کہتے ہیں کہ فقہاء عملی اور متکلمین ریاست کے نظریاتی محافظ ہوتے ہیں،وہ عوام کے ماں باپ ہوتے ہیں۔ان کی رائے اور فتویٰ درحقیقت اجتماعیت کو قائم رکھنے کے لیئے حالات و ماحول کے مطابق ہوتا ہے۔اس کا تعلق ہر گز دین سے نہیں ہوتا۔جیسے حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالٰی عنہ کا فیصلہ مانعین زکوٰۃ کے خلاف،وہ صرف سیاسی فیصلہ تھا۔حضرت عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ نے قتل ہونے والوں کا خون بہا دیا اور حضرت ابو بکر نے قیدی بنائے تھے،انہیں رہا بھی کیا۔ان کا یہی نقطہ نظر توہین مذہب کے حوالے سے بھی ہے۔یعنی توہین رسالت کی سزا کا دین سے کوئی تعلق نہیں ہے۔یہ اجتماعیت قائم رکھنے اور معاشرے کو انتشار سے بچانے اور مجتمع کر نے کے لیئے تھی۔جس کا فتویٰ اپنے وقت کے علماءکرام نے دیا۔مثال کے طور پر مصطفےٰ کمال اتاترک کے مزار کے نیچے جلی حروف میں لکھا ہے’’اقتدار غیر مشروط صرف عوام کا ہے‘‘اس سلوگن کو خدا کے اقتدار کے مقابل لانے کے بجائے ان قوتوں کے مقابل لایا جائے جو عوام کی رائے اور ووٹ کا احترام نہیں کرتے۔عوام کے فیصلے کو اپنے بوٹوں کے نیچے کچل کر اقتدار کی کرسی پہ آکر براجمان ہوجاتے ہیں۔پاکستان میں خیال کیا گیا کہ عوامی اقتدار کے مقابل خدا کا اقتدار ہے۔اس فکری تعبیر سے نقصان یہ ہوا کہ عوام کی رائے غیر اہم قرار پائی اور خدا کی بات سمجھنے اور اس کے مدعا و منشا کے فہم کا دعویٰ کر نے والوں نے عوام کو جاہل و بے وقوف قرار دے کر آمریت و بادشاہت کا دروازہ کھول دیا۔اگر عوام کی رائے کو فوقیت دی جاتی اور اس کو خدا کا فیصلہ خیال کیا جاتا تو پھر واقعی عوام کا اقتدار قائم ہوتا۔

عوام کے غیر مشروط اقتدار سے مراد یہ ہے کہ زمین کے جھوٹے خداؤں اورغاصبوں کو حکومت کرنے کا ہرگز حق نہیں ہوتا۔ فرد ہو یا قوم،کبھی جبر کے ماحول میں نہیں رہ سکتی۔یہ انسان کوقید کرنے اور محصور کرنے کی ناکام کوشش ہے۔یہ کوشش خواہ اہل مذہب کریں یااہل سیاست،اہل دانش کریں یا حکمران نتیجہ ایک ہوگا۔اس لیے بہتر یہی ہوتا ہے کہ لوگوں کے لیے راستہ کُھلا رکھا جائے تا کہ وہ رغبت و شوق،جذبہ و بصیرت سے خیر کو اختیار کریں اور بدی کو خیر آباد کہیں۔

ٍمجھے ترکی میں موجود ایک صاحب علم نے بتایا کہ یہاں ایرانی شہری 100میں سے95ملحدہوتے ہیں۔میں نے ان سے وجہ پوچھی تو انہوں نے بتایا ان کے معاشرے کاجبر اس کا سبب ہے۔مذہب کے نام پر تعذیب و سزا وجہ ہے۔جبراً مذہب پہ عمل کرانے کا نتیجہ ہے۔یہی صورت حال افغانستان کے حوالے سے ہے۔افغانستان کی موجودہ حکومت نے اپنی تعبیرِ مذہب کے مطابق خواتین کو پردے کا پابند کیا ہے۔صرف پردے کا ہی نہیں بلکہ اس بات کا پابند کیا ہے کہ ایک خاص کلو میٹر کے بعد کوئی عورت بھی بغیر محرم کے نہیں جا سکتی۔ایسے حالات میں لوگ خوف زدہ اور مضطرب رہتے ہیں جس کا نتیجہ مذہب سے بغاوت کی صورت میں سامنے آتا ہے۔یہی صورت حال پاکستان میں بھی ہے۔پاکستان میں الحاد اور مذہب سے بیزاری کا بنیادی سبب وہ واقعات ہیں جن میں مذہب کا جبر نمایاں ہوتاہے۔Non state actorsکا غلبہ اور ریاست کا ان کے آگے بےبس ہونا ہے۔پاکستان ہو یا ترکی شدت پسند طبقہ5فیصد سے زیادہ نہیں ہے بلکہ اس سے بھی کم ہے۔ترکی کےاہل علم کے بقول ہم 5فیصد کے بجائے 95فیصد کو اپنی توجہ کامرکز بناتے اوراپنے وسائل خرچ کرتے ہیں۔تعلیم،صحت،شعور و آگہی،اصلاح و ترقی پہ خرچ کر تے ہیں۔5فیصد طبقہ خود بخودبے اثر ہو کررہ گیا ہے۔پاکستان میں یہی طبقہ اقلیت میں ہوکر مذہب کو جبراً نافذ کرنے کی تگ دو میں رہتا ہے اور ایسا محسوس ہوتا ہے کہ 95فیصد طبقہ لاوارث ہے جسے 5فیصد طبقے کے رحم و کرم پہ چھوڑ دیا گیا ہے۔پاکستان کا تعارف دنیا میں یہی 5فیصد ہے۔اس کی وجہ سے پاکستان دھماکوں،فرقہ واریت اور قتل و غارت کی سر زمین کا ٹائٹل حاصل کر چکا ہے۔

اگر کوئی کہے کہ امتِ مسلمہ پستی کی انتہاء کو پہنچ چکی ہے،ان سے گزارش ہے آپ انڈونیشیا، ملائیشیا، ترکی، عرب امارات اور سعودی عرب چلے جائیں،وہاں جا کر رہیں۔آپ کو معلوم ہو گا کہ مندرجہ بالا ممالک نہیں صرف ہم یعنی پاکستان پستی کی انتہاء کو چھورہا ہے۔معیشت ہو یا سیاست،ریاست ہو یا مذہب کسی میں استحکام اور ٹھہراؤ نہیں ہے۔غربت،خودکشی،مہنگائی اور جہالت نظر آتے ہیں۔دیگر اسلامی ممالک میں جائیں وہاں معاشی اور سیاسی استحکام ہے۔ریاست اور مذہب میں بھی اپنا اپنا دائرہ کار ہے۔کسی کی بھی مذہبی تعبیر سے اختلاف کیا جا سکتا ہے۔ اب 75 سال بعد ہمیں ضرور غور و فکر کرنا ہے۔ یہ غور و فکر درد مندی سے کرنا ہے کہ جس مذہبی تعبیر کو ہم نے اختیار کیا،اس کے نتائج سیاست،معاشرت اور ریاست پہ کیا مرتب ہوئے؟ وہ ممالک جنہوں نے ہم سے جدا مذہبی تعبیر کو اختیار کیا۔ان کے ہاں کیا نتائج سامنے  آئے؟ اب ہمارے اہل دانش کو اس پہ غور کرنا ہوگا کہ ان کی اختیار کردہ مذہبی تعبیر پہ نظر ثانی کی ضرورت ہے یا نہیں۔نتائج بتاتے ہیں کہ ان کی مذہبی تعبیر وہ نتائج پیدا نہیں کرسکی جو معاشرے کی اصلاح کرتی،جبر کا  خاتمہ کرتی،مذہب کی مداخلت کے بجائے،مذہب کی راہنمائی کو رواج دیتی۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آئیے!ہم علمی اور تحقیقی رویے کے ساتھ اس پہ غور و فکر کریں،اس سے پہلے کہ پاکستان مزید شدت پسندی،مذہبی جبر،فرقہ واریت،تھیاکریسی کی آماجگاہ بنے۔پاکستان ریاستی سطح پہ تھیا کریٹ سٹیٹ تو نہیں ہے لیکن اجتماعی سطح پہ یہ ایسا معاشرہ بن چکا ہے جس میں با شعور اور سوچنے سمجھنے والوں کا دم گھٹتا اور زبان گنگ ہوجاتی ہے کہ کہیں مروجہ مذہبی تصورات کے خلاف ہماری رائے توہین مذہب کے زمرے میں نہ آ جائے۔صرف پاکستان ہی نہیں دیگر اسلامی ملکوں کو بھی اس پہ غور کرنا ہو گا۔جہاں ملائیت و پاپائیت آج بھی قائم ہے۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply