عصری مسائل میں سیرتِ طیبہ کی معنویت/عمار خان ناصر

سیرتِ طیبہ کے پیغام کو عصر حاضر سے مربوط کرنے کی کاوشیں ایک تو مسلمانوں کے اس اعتقاد کا اظہار ہیں کہ اللہ کے آخری پیغمبر کی صورت میں انھیں جو راہ نمائی عطا کی گئی ہے، وہ آج بھی ہمارے لیے بامعنی ہے اور دوسرے اس کا تعلق اس سوال سے بھی ہے جو جدید دور میں خاص طور پر اٹھایا جا رہا ہے کہ مذہب کے پاس آج کی دنیا کے پیچیدہ اور گمبھیر مسائل کے حل کے سلسلے میں، انسانیت کو دینے کے لیے کیا ہے؟

ابراہیمی مذاہب کے صحائف میں انبیاء کی سیرت اور تعلیمات کی جو تاریخ ملتی ہے، اس سے معلوم ہوتا ہے کہ انبیاء کے پیغام کے دو حصے ہوتے ہیں۔ ایک حصہ ان ابدی وآفاقی سوالات سے متعلق ہوتا ہے جن کا نسل انسانی کو ہمیشہ سے سامنا ہے۔ ان سوالات کا تعلق بنی نوع انسان کی تقدیر اور انسانی زندگی کے مقصد سے ہے اور ان کا منتہا اس محسوس ومشاہد دنیا سے ماورا کچھ حقیقتوں کو جاننا ہے جو حیات وکائنات کے مجموعی تناظر میں انسانی زندگی کے مفہوم کو واضح کر سکیں۔ انبیاء کی تعلیم اور پیغام کا اصل ارتکاز انھی سوالات پر ہوتا ہے، کیونکہ یہی تجربہ وعمل کے میدان میں انسان کی سعی وجہد کا رخ متعین کرتے ہیں۔ ایک مقتدر اور بالاتر ہستی کا وجود، انسانی زندگی کا ایک اخلاقی مقصد سے وابستہ ہونا، امتحان وآزمائش اور اپنے کردار وعمل کے لیے جواب دہی کا تصور، اور فکر وعمل کو درست بنیادوں پر استوار کرنے کے لیے اللہ کی طرف سے دی گئی ہدایت کی احتیاج، یہ وہ بنیادی تعلیمات ہیں جو تمام انبیاء اپنے مخاطبین کے سامنے پیش کرتے ہیں۔ انھیں پیش کرنے کا اسلوب مختلف ہو سکتا ہے، لیکن پیغام ہمیشہ ایک رہا ہے اور یہی اصل ’’دین ‘‘ ہے جس کی تبلیغ ودعوت کے لیے تمام انبیاء کو بھیجا گیا۔

انبیاء کی تعلیم کا دوسرا حصہ ان مخصوص حالات اور مسائل سے متعلق ہوتا ہے جن سے انسانی معاشرے کو اس وقت واسطہ ہوتا ہے جب کسی نبی کو کسی معاشرے میں مبعوث کیا جاتا ہے۔ تمام انبیاء اپنے اپنے حالات کے تناظر میں اس حصے پر بھی پوری توجہ دیتے ہیں اور اس سے صرف نظر نہیں کرتے۔ کسی معاشرے میں اخلاقی طرز زندگی کے حوالے سے جو بھی بگاڑ اور فساد پایا جاتا ہو، وہ انبیاء کی تعلیم اور پیغام کا موضوع بنتا ہے اور وہ مذہب کی بنیادی صداقتوں کے ساتھ مربوط کرتے ہوئے اس بگاڑ کو درست کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ یوں مختلف انبیاء کی تعلیم میں بنیادی حصہ مشترک اور آفاقی ہوتے ہوئے، ایک بڑا حصہ ان وقتی حالات ومسائل سے متعلق ہوتا ہے جن کی اس مخصوص زمان ومکان میں اہمیت ہوتی ہے۔

انبیاء کے، اپنی تعلیم اور پیغام کو صرف ابدی اور غیر متبدل حقیقتوں تک محدود نہ رکھنے، اور گرد وپیش کے عارضی اور وقتی نوعیت کے مسائل کو بھی موضوع بنانے کی وجہ ایک تو یہ ہے کہ جن ابدی صداقتوں کو وہ انسانوں کے سامنے واضح کرتے ہیں، ان پر یقین اور اعتراف کا ظہور انسان کے عمل میں مطلوب ہوتا ہے۔ دوسرے لفظوں میں ایمان، اپنا ظہور جہاں مراسم عبودیت میں چاہتا ہے، وہیں ایک اخلاقی طرز زندگی میں بھی اس کا ظہور لازماً‌ مطلوب ہوتا ہے اور ایمان کا ایک بنیادی رکن، یعنی جواب دہی کا تصور بامعنی ہی اس وقت بنتا ہے جب عملی زندگی میں انسان کے کردار کو اخلاقی معیارات کے ساتھ وابستہ کیا جائے۔

دوسری وجہ یہ ہوتی ہے کہ انبیاء کا مقصد اس وقتی اور عارضی زندگی اور اس کے حالات ومسائل سے انسان کو الگ تھلگ کر کے اس کی توجہ کسی ابدی حقیقت پر مرکوز کرنا نہیں ہوتا اور نہ دنیا میں ایک فعال زندگی گزارتے ہوئے انسان کے لیے ایسا کرنا ممکن ہی ہوتا ہے۔ اس لیے مذہب کے بنیادی پیغام کا ابلاغ اور انسانی زندگی پر اس کی تاثیر بھی اسی وقت ممکن ہے جب انسانی معاشرے کو محیط ان فوری نوعیت کے مسائل کو بھی پوری اہمیت دی جائے، اور جب بھی مذہب اس دوہری ذمہ داری کا بوجھ اپنے کندھوں سے ہلکا کرنے کی کوشش کرے گا اور صرف ابدی حقیقتوں کی یاددہانی اور تذکیر تک خود کو محدود کرنا چاہے گا، اس کے پیغام کی تاثیر کمزور اور محدود سے محدود تر ہوتی چلی جائے گی۔

بیسویں صدی میں مطالعہ سیرت کے حوالے سے بہت سے نئے رجحانات اور سیرت سے راہ نمائی حاصل کرنے کے متعدد اچھوتے تناظر سامنے آئے ہیں۔ ان میں سے ایک اہم رجحان یہ ہے کہ تہذیب ومعاشرت کے ضمن میں جن سماجی واخلاقی تصورات کو جدیدمغربی تہذیب بہت نمایاں طریقے سے پیش کرتی اور انھیں خاص طور پر مغربی فکر کی دریافت یا کامیابی کے طور پر اجاگر کرتی ہے، ان کے حوالے سے ذخیرۂ سیرت میں ملنے والی راہ نمائی کو اسلامی متبادل کے طور پر سامنے لایا جائے۔ اس رجحان کے زیر اثر سیرت کے نئے مطالعات کی ضرورت محسوس کی گئی اور اب جدید فکری، تہذیبی اور معاشرتی سوالات کے تناظر میں مطالعہ سیرت کے دائرے میں اچھا خاصا علمی ذخیرہ فراہم ہو چکا ہے۔

مطالعہ سیرت کے اس عمومی رجحان کے اثرات ہمیں حجۃ الوداع کے موقع پر نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے خطبے سے متعلق بھی دکھائی دیتے ہیں، چنانچہ انسانی حقوق کے مغربی فلسفے اور اس حوالے سے مغربی دنیاکی طرف سے سامنے آنے والی بعض قانونی دستاویزات مثلاً میگنا کارٹا (۱۲۱۵ء)، شہریوں کے حقوق کے فرانسیسی منشور (۱۷۸۹ء)، امریکی بل آف رائٹس (۱۷۹۱ء) اور اقوام متحدہ کے عالمی منشور (۱۹۴۸ء) کی طرز پر خطبہ حجۃ الوداع کے مضامین کو بھی اسی تناظر میں دیکھے اور پیش کیے جانے کی روایت قائم ہوئی اور اس خطبے کو انسانی حقوق کی عالمی اسلامی دستاویز کا عنوان دیا جانے لگا۔

تاہم یہ رجحان علمی لحاظ سے کئی حوالوں سے محل نظرہے اور خطبے کے مضامین کا معروضی مطالعہ اس کی زیادہ تائید نہیں کرتا۔ مثال کے طور پر یہ سامنے کی بات ہے کہ خطبات میں گفتگو کا تناظر بنیاد ی طور پر آفاقی نوعیت کے ’’انسانی حقوق‘‘ کا نہیں، بلکہ ان فرائض اور معاشرتی قدروں کا بیان ہے جن کی بجا آوری اور پابندی مسلمانوں کے لیے ضروری ہے۔ مزید برآں اسلام کی تعلیم کردہ معاشرتی اقدار کا بھی کوئی ایسا احاطہ جس سے ایک جامع منشور کا تصور ابھرتا ہو، خطبے میں مقصود نظر نہیں آتا۔ خطبے کا بنیادی زور اہم معاشرتی اصلاحات کی تاکید مکرر اور لوگوں کو اس بات پر متنبہ کرنے پر ہے کہ معاشرتی سطح پر اپنے فرض منصبی کے حوالے سے اس امت کے وجود اور بقا کا انحصار ان اخلاقی اقدار کے ساتھ وابستگی اور ان کی پابندی پر ہے۔

اس زاویے سے دیکھا جائے تو مطالعہ سیرت کے معاصر رجحانات میں خطبہ حجۃ الوداع کا مطالعہ حقوق انسانی کی ایک جامع دستاویز یا منشور کے طور پر کرنے یا اسے اس حیثیت سے پیش کرنے کا رجحان خطبے کے حقیقی تناظر اور اس کے مضامین کی معنویت کو واضح کرنے کے بجائے اسے دھندلا دینے کا سبب بن سکتا ہے۔ خطبے کی معنویت کو دریافت کرنے کے لیے اس کا مطالعہ ’’جامعیت‘‘ یا ’’آفاقیت‘‘ کے پیرا ڈائم میں نہیں، بلکہ اس زاویے سے ہونا چاہیے کہ اس نہایت اہم موقع پر گفتگو کے لیے کن موضوعات کا ’’انتخاب‘‘ کیا گیا اور عرب معاشرت کے مخصوص تناظر میں اسلام کی اصلاحات کے حوالے سے ان کی قدر وقیمت اور اہمیت کیا تھی۔ دوسرے لفظوں میں غور وفکر اور تدبر کا محل یہ ہونا چاہیے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اس نہایت اہم موقع پر گفتگو کے لیے اسلام کی ہمہ گیر تعلیمات میں سے کن مخصوص چیزوں کو منتخب کیا اور اس انتخاب کی حکمت ومعنویت کیا تھی۔ اس زاویہ نگاہ سے خطبے کے مضامین پر غور کرنے سے ہم جان سکیں گے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے اسلام کی اصلاحی تعلیمات میں سے کن امور کو اتنااہم اور بنیادی سمجھا کہ امت کے ساتھ اپنی آخر ی اجتماعی ملاقات میں انھیں اجاگرکرنے کی ضرورت محسوس فرمائی اور یہ کہ عرب معاشرت کے مزاج اور معاشرتی ساخت اور اس کے ساتھ ساتھ انھیں اللہ کی طرف سے دیے جانے والے منصب اور ذمہ داری کے لحاظ سے یہ امور کیوں اتنی اہمیت کے حامل تھے۔

اس پس منظر میں ہمارے ہاں کے دو عام فکری رجحانات کا تنقیدی جائزہ لینے کی ضرورت ہے جو ہماری فکری وعملی کاہلی اور اخلاقی بے ہمتی کی وجہ سے ہاتھوں ہاتھ لیے جاتے ہیں۔ ایک یہ کہ اسلام ہمارے ہر مسئلے کا ریڈی میڈ حل دیتا ہے۔ دوسرا یہ کہ ہمارے مسئلوں کا حل سیکولرزم ہے جو ایک غیر جانب دار نظام ہے اور اس حیثیت سے اپنا آزمودہ ہونا ثابت کر چکا ہے۔ ان دونوں کا زمینی حقیقتوں سے کوئی واسطہ نہیں اور ضرورت ہے کہ فکری گفتگو کو نئے محوروں پر مرکوز کیا جائے۔

نظری بحث کا اہم ترین محور ایمان اور الحاد کا سوال ہے۔ اس کو جملہ تفصیلات کے ساتھ موضوع بنانے کی ضرورت ہے۔ اگر الحاد اپنا مقدمہ جیت جاتا ہے تو سیکولرزم خود بخود آ جائے گا، اس کو غیر جانب داری کا لبادہ پہننے کی ضرورت نہیں ہوگی۔ ذہین ملحدین اس کا ادراک کرتے ہوئے اپنی توانائیاں اسی لیے الحاد کے محاذ پر مرتکز کر چکے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

عملی سعی کا میدان اسلام کے دینی وتہذیبی مقاصد کی روشنی میں معاشرے کی تنظیم وترقی کے امکانات کو رو بہ عمل کرنا اور اس کے لیے اجتہادی بصیرت اور قوت عمل کو کام میں لانا ہے۔ روایتی مذہبی سیاست اور اسلامزم جیسے سیاسی فلسفے اس کے تقاضوں سے بے خبر تو ہیں ہی، اپنی ترجیحات سے اس طرف پیش رفت میں رکاوٹ بھی ہیں۔ الحاد ایک نظری چیلنج کے طور پر اتنا طاقتور نہیں جتنا تشکیل معاشرت کے میدان میں اس خلا سے قوت اور غذا پاتا ہے اور پھر غالب تہذیب کے حاصلات کو واحد قابل عمل متبادل کے طور پر پیش کرنے کی کوشش کرتا ہے۔تجزیات آن لائن

Facebook Comments

عمار خان ناصر
مدیر ماہنامہ الشریعہ گوجرانوالہ

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply