• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • ریاست مدینہ، سائفر اور جان کو خطرہ؟-محمد اسد شاہ

ریاست مدینہ، سائفر اور جان کو خطرہ؟-محمد اسد شاہ

بطورِ صحافی یا کالم نگار ، میں جانتا ہوں کہ ہمیں مکمل طور پر غیر جانب دار رہنا چاہیے ۔ شاید 2010 تک اس ملک میں کالم نگاروں اور سیاسی تبصرہ نگاروں کی اکثریت ذاتی پسند و ناپسند کو نمایاں کرنے سے پرہیز کرتی رہی اور غیر جانب داری کا بھرم قائم رکھا جاتا تھا ۔ لیکن “پراجیکٹ عمران” کے انجینئرز نے “باجوہ ڈاکٹرائن” کے ذریعے جہاں اس ملک کے دیگر تمام شعبوں کو تباہ کیا، وہاں صحافت کا بھی ستیاناس کر دیا۔ کیا کسی نے سوچا تھا کہ کسی مشہور نیوز چینل کا ایڈیٹر ، تجزیہ کار اور صحافی ، کسی سیاسی شخصیت کے کہنے پر کسی عمارت کی چھت پہ چڑھ کر پولیس ملازمین پر پتھراؤ اور فائرنگ کرنے والوں میں شامل ہو گا؟ “پستی کا کوئی حد سے گزرنا دیکھے” ! “پراجیکٹ عمران” کے انجینئرز نے ریاستی افسران اور ملازمین تک کو باقاعدہ سیاسی بنا دیا۔ ان پر نشان لگ گئے کہ یہ فلاں تو اس پراجیکٹ کے ساتھ چلنے پر تیار ہے لیکن وہ فلاں اپنے کام میں دیانت داری سے باز نہیں آئے گا۔ یونیورسٹیز، کالجز اور سکولز کے اساتذہ، علماء، ڈاکٹرز، انجینئرز، پائلٹس، ٹی وی اور فلم کے اداکاروں اور اداکاراؤں تک کے ضمائر کی قیمتیں لگائی گئیں۔ اشتہارات میں جسمانی نمائش سے پیسے کمانے والوں اور والیوں کو خاص طور پر اس پراجیکٹ کے لیے کرایہ پر حاصل کیا گیا۔ کرکٹ کے کھلاڑی بھی اس کام میں ملوث کیے گئے۔ اداروں میں زیر تربیت نوجوان ملازمین اور افسران کے اذہان برباد کیے گئے۔ ٹی وی اینکرز، چینل مالکان، صحافیوں اور کالم نگاروں پر تو خصوصی توجہ دی گئی۔ حالات اس نہج تک پہنچا دیئے گئے کہ بعض لوگ اب عدالتوں اور ججز کے متعلق بھی وسوسوں میں مبتلا ہیں۔ جن پر غیر جانب دار رہنا فرض ہے، جب وہ بھی اعلانیہ دھوکے کے طرف دار بن جائیں، تو پھر باضمیر لوگوں کو بھی کھلم کھلا سچ کا ساتھ دینا چاہیے۔ الحمد للّٰہ، ہر شعبے میں بہت سے لوگ ایسے ہیں جنھوں نے بکنے سے انکار کیا اور دیانت داری سے کام کرنے پر مصر رہے۔ کہتے ہیں کہ ابراہیم علیہ السلام کو جب آگ میں ڈالا گیا تو ایک ابابیل اپنی ننھی سی چونچ میں پانی کا ایک چھوٹا سا قطرہ لیے اس آگ کو بجھانے آ رہی تھی۔ پانی کی اتنی معمولی مقدار سے آگ نہیں بجھ سکتی، لیکن ابابیل کا دل مطمئن تھا کہ مستقبل کا مؤرخ اس ابابیل کو آگ بجھانے والوں میں شامل کرے گا۔ ہم جیسے کالم نگار بھی خود کو اسی ابابیل کی طرح شاداں و فرحاں محسوس کرتے ہیں ۔
کردار کی عظمت کو رسوا نہ کیا ہم نے؛
دھوکے تو بہت کھائے، دھوکا نہ دیا ہم نے!
وقت نے ثابت کیا کہ ملکی تاریخ کے بدترین پراجیکٹ نے اس ریاست اور معاشرے کی چولیں تک ہلا دی ہیں۔ عام آدمی صرف معیشت کا رونا روتا ہے، لیکن غور کریں تو معاشرت، اخلاقیات، مذہب، عدالت، تعلیم اور تہذیب تک ہر چیز خطرے میں ہے۔
ریاست مدینہ کا نعرہ لگا کر عمران کو جب وزیراعظم “بنایا” گیا تو کون سا مدینہ آپ کو نظر آیا؟ کیا آپ یہ چاہتے تھے کہ وزیراعظم کی سرکاری کرسی پر اپنی پسندیدہ فاحشہ کو بٹھا کر آپ کا لیڈر ساتھ والی کرسی پر بیٹھا مسکرا رہا ہو؟ یہ کون سی ریاست تھی؟ تقریروں میں سیدنا فاروق اعظم رضی اللّٰہ تعالیٰ عنہ کی مثالیں دینے والے شخص نے اپنے چار سالہ بدترین دور حکومت میں کتنے بے گناہوں کا خون بہایا، کبھی سوچا؟ توہینِ رسالت کی مجرمہ کو فرار کروانے پر فخر کیا گیا، اور احتجاج کرنے والوں پر سیدھی گولیاں برسائیں گئیں۔ ہسپتالوں کو زخمیوں اور لاشوں کی وصولی تک سے روک دیا گیا؟ ساہی وال میں معصوم بچوں کے سامنے ان کے والدین اور بہن کو قتل کیا گیا، لیکن کوئی قاتل کبھی نہیں پکڑا گیا۔ ہزارہ میں گیارہ مزدوروں کی گردنیں کاٹ دی گئیں، ان کی بچیاں، مائیں اور بیوائیں کوئٹہ کی یخ بستہ راتوں میں لاشیں رکھ کر سڑکوں پر بیٹھی رہیں۔ محترمہ مریم نواز ان کے آنسو پونچھنے پہنچ گئیں۔ مولانا عبد الغفور حیدری، بلاول زرداری اور دیگر سیاست دان وہاں پہنچے۔ لیکن جس شخص کی ذمہ داری تھی، یعنی عمران خان؟ وہ نہایت رعونت اور بے حسی کے ساتھ اپنی پارٹی کے جلسوں میں تقریریں کرتا رہا، محفلوں میں سرکاری خرچ پر پرتعیش کھانے کھاتا رہا، وزیراعظم ہاؤس میں بیٹھ کر غیر ملکی فلمی لڑکیوں کے ساتھ ہنس ہنس کر ملاقاتیں کرتا رہا۔ مان لیجیے کہ ریاست مدینہ کا نعرہ عمران کا کھلا دھوکا تھا۔ اسٹیبلشمنٹ کے ذریعے دھکیلے گئے آزاد ارکان اور چھوٹی جماعتوں کے ووٹ جب عمران کو ملے تو یہ ضمیر کی آواز تھی؟ اور جب وہی لوگ عمران کے طرزِ حکومت اور تکبر سے بیزار ہو کر تحریک عدم اعتماد پیش کرنے پر مجبور ہو گئے تو امریکی سازش؟ مقررہ مدت میں تحریک عدم اعتماد ہر ووٹنگ نہ کروانے والا عمران آج شور مچاتا ہے کہ مقررہ مدت کے اندر پنجاب اور خیبرپختونخوا میں الیکشن کروائے جائیں۔ جب تحریک عدم اعتماد کامیاب ہوتی نظر آئی تو جلسوں میں کاغذ لہرائے گئے اور کہا گیا کہ امریکہ نے سازش کی۔ تم نے امریکا کا بگاڑا کیا تھا کہ امریکا اپنے سارے کام چھوڑ کر تمھارے خلاف سازش کرتا؟ سی پیک تم نے منجمد کیا، مقبوضہ کشمیر کا سودا تم نے کیا، ملکی معیشت کا بیڑا غرق تم نے کیا، سٹیٹ بنک کو امریکی خواہش پر تم نے گروی رکھا۔ امریکا کی اتنی خدمت ایوب، یحییٰ، ضیاء اور پرویز نے نہیں کی ہو گی، جتنی چار سالوں میں تم نے کی۔ پھر امریکا تمھارے خلاف سازش کرتا؟ اس جعلی بیانیہ کے ساتھ خیبرپختونخواہ میں امریکی سفیر سے گاڑیاں بھی وصول کی گئیں۔ خیبرپختونخواہ کے عمرانی وزیر اعلیٰ نے امریکی سفیر کو سرکاری کرسی پر بھی بٹھایا۔ عمران کے ساتھ ٹیلی فون پر باتیں بھی کروائی گئیں۔ جب امریکی سازش اور ایبسولوٹلی ناٹ والا جھوٹ ہر جگہ ثابت ہو گیا تو فوراً پینترہ بدلا کہ امریکا نے کوئی سازش نہیں کی، بل کہ حکومت باجوہ نے گرائی۔ یعنی جس نے بنائی، اسی نے گرائی؟ پھر کہا کہ نواز شریف نے گرائی۔ پھر آصف زرداری پہ الزام لگایا، پھر نگران وزیر اعلیٰ محسن علی نقوی؟
سب سے بڑا جھوٹ جو عمران نے اپنے اور اپنے ورکرز کے اعصاب پر سوار کر رکھا ہے وہ “جان کو خطرہ” ہے۔ قارئین کو یاد ہو گا کہ میاں محمد نواز شریف جب دوسری بار وزیراعظم منتخب ہوئے تو مذہب کے نام پر جاری دہشت گردی کے خاتمے کے لیے بہت موثر اقدامات کیے۔ انھیں جان سے مارنے کی تحریری دھمکیاں ملیں۔ جب وہ لاہور سے رائے ونڈ جا رہے تھے تو راستے میں ایک پل کے نیچے ٹائم بم نصب کیا گیا تھا۔ جیسے ہی میاں صاحب کی گاڑی وہاں سے گزری، بم پھٹ گیا اور پل اڑ گیا۔ یعنی میاں صاحب صرف ایک سیکنڈ سے بھی کم وقت میں اس کا نشانہ بننے سے بچ گئے۔ اس خوف ناک قاتلانہ حملے کے بعد بھی انھیں دھمکیاں اور ان پر حملے جاری رہے۔ لیکن آپ نے کبھی میاں صاحب کو ویسی بڑھکیں مارتے، الزامات لگاتے اور عدالتی استثنیٰ مانگتے نہیں دیکھا جیسا آج کل عمران خان نے وطیرہ بنا رکھا ہے۔ وزیر آباد میں فائرنگ کے واقعہ پر بہت سے سوالات ہیں۔ چوں کہ اس پر تفتیش و تحقیق جاری ہے، اس لیے زیادہ لکھنا مناسب نہیں۔ لیکن کوئی نہیں جانتا کہ عمران کو کوئی گولی واقعی لگی یا نہیں۔ صوبائی حکومت عمران کی اپنی تھی، تمام سرکاری ہسپتال اور تمام پروٹوکول عمران کے پاس تھا۔ لیکن تین سو میل تک تمام ہسپتالوں کو نظر انداز کر کے جوہر ٹاؤن لاہور کے کینسر ہسپتال میں جا چھپنے کا کیا مقصد تھا؟ آج تک کوئی میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ نہیں بنوایا گیا۔ مذکورہ پرائیویٹ ہسپتال کے علاوہ کسی ڈاکٹر یا ادارے نے کبھی کسی گولی کی تصدیق نہیں کی۔ کوئی ہڈی بھی نہیں ٹوٹی۔ زخموں پر پٹی تو ہوا کرتی ہے، لیکن پلاسٹر لگانے کا تصور بالکل انوکھا اور نیا۔ اس بہانے سے عدالتوں سے مسلسل استثنیٰ لیے گئے۔ اسی بہانے سے مسلسل “سابق وزرائے اعظم” والا پروٹوکول اور سیکورٹی مانگی جا رہی ہے۔ سابق وزرائے اعظم میاں محمد نواز شریف، سید یوسف رضا شاہ، شاہ خاقان عباسی، اور راجہ پرویز اشرف موجود ہیں۔ کیا ان میں سے کسی نے کبھی اتنی سیکورٹی اور عدالتی استثنیٰ مانگا؟ ضمانت لینے کے لیے اسلام آباد عدالت میں حلفیہ بیان جمع کروایا کہ 13 مارچ کو پیش ہو جاؤں گا۔ لیکن 13 مارچ کو عدالت میں پیش نہیں ہوا کہ “جان کا خطرہ” تھا، لیکن اسی دن لاہور میں جلوس نکالا ۔ یہ کیسا جان کا خطرہ ہے جو صرف تفتیش میں شامل ہونے، اور فرد جرم والی عدالت میں پیش ہونے سے مسلسل روکتا ہے، لیکن جلسوں اور جلوسوں سے نہیں روکتا۔ لاہور ہائی کورٹ اور اسلام آباد جوڈیشل کمپلیکس میں پیشی سے پہلے سوشل میڈیا کے ذریعے ملک بھر سے کارکنوں کو پہنچنے کی ہدایات کیوں جاری کی گئیں؟ ہجوم جمع کر کے عدالتوں میں پیشی کی بجائے چڑھائی کی گئی تا کہ جرح اور فرد جرم سے بچا جا سکے۔ کیا ہجوم سے جان کا کوئی خطرہ نہیں تھا؟ امریکی ہرکارہ زلمے خلیل زاد دن رات پاکستانی حکومت کو عمران کے ایجنڈے پر چلانے کے لیے دباؤ ڈال رہا ہے، لیکن بے چارے کارکن ابھی تک ایبسولوٹلی ناٹ والے فریب میں مبتلا ہیں۔ ریاست مدینہ بنانے، سائفر اور جان کے خطرے والے سب نعرے ایک ایک کر کے جھوٹ ثابت ہو رہے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جتنا مسلسل اور بار بار ریلیف، اور ہر ریلیف کے بعد پھر ریلیف عمران کو مل رہا ہے، کیا کسی اور پاکستانی کو کبھی ملا؟

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply