مفلوج نظامِ انصاف/ڈاکٹر حفیظ الحسن

معاشرتی مسائل کا حل معاشرتی مسائل کی نشاندھی سے ممکن ہے۔ سائنس میں تحقیق کے دوران سب سے اہم شے کسی مسئلے کی درست شناخت کرنا ہے۔ یہ شناخت صحیح سوال کرنے سے آتی ہے۔ مثال کے طور پر سوال یہ ہے کہ پاکستان میں عدالتی نظام کیونکر بہتر نہیں؟ تو اس حوالے سے ہمیں اپنے عدالتی اور پولیس کے نظام کو ابتدا سے سمجھنا ہو گا، وقت کے ساتھ ساتھ اس میں ہونے والی تبدیلیوں اور انکے اثرات کو جاننا ہو گا، گہرا مطالعہ کرنا ہو گا۔ یہ دراصل اس سوال(جسے آپ مسئلہ کہ رہے ہیں) کی ابتدائی صورت ہے۔ کہ جی پاکستان میں عدالتیں بِکی ہوئی ہیں اور انصاف کا معیار ابتر ہے۔

مگر سوال یا مسئلے کی نشاندہی یہاں ختم نہیں ہوتی۔ اس حوالے سے یہ دیکھنا ہوتا ہے کہ ایسا کیوں ہے؟ اسکے پیچھے کیا محرکات اور حیل و حجت درپیش ہے۔

پاکستان کا عدالتی نظام انگریز دور کا ہے۔ نہ اب وہ معروضی حالات ہیں جو انگریزوں کے زمانے کے تھے اور نہ ہی اب انگریز حکمران جنکے مقاصد کالونی قائم رکھنا تھا۔ ملک ٹکوں، پیسوں پر تو چل نہیں رہا کہ سزائیں اور جرمانے بھی اس حساب سے دی جائیں ۔ پاکستان میں کریمنیل کورٹس جو جرائم کے حوالے سے انصاف فراہم کرتی ہیں 1898 کے کریمینل پروسیجر کوڈ کے تحت بنائی گئی تھی۔ عدالتی نظام میں خاطر خواہ ترامیم کب ہوئی؟ یہ سوال اہم ہے؟ ان تبدیلیوں سے کیا نتائج مرتب ہوئے؟ عدلیہ میں انتظامیہ یا دیگر اداروں کی مداخلت کیسے روکی جائے؟ اس حوالے سے کن ممالک کی مثال لی جائے جہاں انصاف کا بول بالا ہے۔ ماضی میں یا ماضی کے فرسودہ قوانین اور نظریات کو جدید دور کے ساتھ کیسے نتھی کیا جائے جبکہ جدید دور کے مسائل بھی وہ ہیں جو ماضی میں نہ کبھی سنے نہ دیکھے؟

پاکستان میں انصاف بانٹتے ججوں کی اپنی کوالیفیکشن کیا ہے؟ ایک وکیل بننے کے لیے کتنی محنت درکار ہے؟ ایل ایل بی کا امتحان پاس کرنا دیگر فیلڈز کے مقابلے میں کیوں اتنا آسان یے کہ ہر دوسرا شخص پارٹ ٹائم وکیل بنا پھرتا ہے اور جو چیمبز میں بیٹھے ہیں وہ قانون کو کتنا جانتے اور سمجھتے ہیں؟

جب ایک وکیل ہی مکمل قانون نہ جانتا ہو تو وہ اسکی پاسداری کیسے کرے گا؟ جب ایک جج کو اپنے منصب کی مکمل ذمہ داریاں اور فرائض معلوم نہ ہوں تو وہ کیسے انصاف کرے گا؟ جب پولیس کے تفتیش کے اور فرنزک کے طریقہ کار میں جدید ٹیکنالوجی اور نئے دور کے طریقے استعمال نہیں کیے جائیں گے تو کیونکر انصاف ہو گا؟ کیسے مجرم پکڑا جائے گا؟ کیا ملک کی آبادی کے تناسب سے پولیس کی تعداد قانون کی عملداری کے لیے کافی ہے؟ کیا ججوں کی مراعات دیگر ترقی یافتہ ممالک یا جہاں انصاف میسر ہے، اسکے مطابق ہے؟ کیا میریٹ پر تقرریاں ہوتی ہیں؟ کیا اخلاقیات سکھائی جاتی ہیں؟ کیا کمرہ عدات کا تقدس جج، وکیل اور موکل تینوں بحال رکھتے ہیں؟ کچھ ہی عرصہ پہلے کی بات ہے جب پنچاب کی ایک خاتون جج نے چیف جسٹس کو کھلا خط لکھا جس میں انہوں نے کہا کہ جج بننے اور روز عدالت میں وکلا سے گندی اور فحش گالیاں کھانے سے بہتر تھا کہ وہ اپنے گاؤں میں بکریاں چراتیں اور اوپلے تھاپتیں۔

ملک میں متوازی نظامِ انصاف جیسے کہ جرگہ، پنجائیت کیونکر موجود ہیں اور یہاں فوری انصاف کے نام پر جو غیر انسانی فیصلے کیے جاتے ہیں ان پر پچھلے پچھتر برس سے حکومتیں کیونکر خاموش رہیں؟ عدالتیں دیگر مضبوط اداروں کی رکھیل کیوں ہیں اور جج آئے روز عدالتوں میں انصاف کے نام پر دلالی کیوں کرتے ہیں؟ انصاف کا معیار امیر اور غریب کے لیے الگ کیوں ہے؟ ایسے ہی کئی اور چبھتے سوالات ہیں جنکے محرکات جاننا ضروری ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

تاریخ پر تاریخ، انصاف کے حصول کو مشکل سے مشکل بنانا، سرخ فیتے کی رکاوٹیں، حقوق کی کھلے عام پامالی، پرانے مقدمات کی فائلوں کو ڈیجیٹل صورت میں نہ لانا، مقدمات کے فیصلوں میں جدید ٹیکنالوجی جیسے کہ آرٹیفیشل انٹیلیجنس کا استعمال نہ کرنا وغیرہ وغیرہ یہ چند ایسی بنیادی باتیں ہیں جن کو سمجھ کر ہی مسائل کا حل ڈھونڈا جا سکتا ہے۔ ہمارے ہاں جو مسائل صدیوں سے چلے آ رہے ہیں دنیا کے سیانے اُنہیں اپنے ممالک میں کب کے حل کر کے ترقی کی راہوں ہر گامزن ہیں جبکہ ہم کوہلوں کے بیلوں کی طرح دائروں میں ہی گھوم رہے ہیں اور پوچھتے پھرتے ہیں کہ مسائل کا حل کیا ہے؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply