دنیا گول ہے اور روٹی بھی/ناصر خان ناصر

عورت اور مرد مل کر ہی ایک گھر گھروندا بناتے ہیں۔ انھیں گھر کا ہر کام مل جل کر اور مناسب معاون بن کر ہی کرنا چاہیے۔
ہمیں یہ لکھنے میں ہرگز کوئی عار نہیں ہے کہ گھر سنبھالنے کے لیے ہم نے ہمیشہ ایک کی جگہ تین تین نوکریاں  بھی کیں اور ہفتے کے ساتوں دن اٹھارہ اٹھارہ گھنٹے کام بھی کیا۔ ہماری بیگم نے بھی گاڑی کا دوسرا پہیہ بن کر ہمہ وقت ہماری حسب توفیق امداد کی۔ ہم نے ہمیشہ گھر کے کام کاج میں اور بچوں کی پرورش میں ان کا مکمل ہاتھ بٹایا۔ ان کے ہاتھوں میں لذت ہے مگر کئی  پکوان ہم ان سے بھی بہتر بنا لیتے ہیں۔ اس لیے ویک اینڈ کا ناشتہ ہمارے ذمہ رہتا ہے۔ کیک بنانے اور بیکنگ کے ہم ماہر ہیں۔ گھر کی صفائی  ہمارے اور گھر کی میڈ کے ذمہ رہتی ہے۔ برتن ہم دونوں میاں بیوی مل کر مشین میں ڈال دیتے ہیں۔
بچے اپنے اپنے کمروں کی صفائی  خود کرتے ہیں۔
سب کے کپڑے بھی مشین دھوتی ہے۔ انھیں تہہ کر کے استری کرنا بیگم صاحبہ کا کام ہے۔
اسی طرح مل جل کر کام کرتے ہوئے الحمد للہ جیون ہنسی خوشی بیت چلا ہے۔

عورت کو مکمل برابری کا درجہ کم از کم ہمارے معاشرے میں تو فی الحال ہرگز نہیں مل سکتا کیونکہ بدقسمتی سے ہمارا تمدن، مذہب اور معاشرتی روایات اس امر کے سخت خلاف ہیں۔ صرف ایک سیکولر معاشرے میں ہی عورت ہر لحاظ سے خود مختیار، خود انحصار اور مرد کے مکمل برابر ٹھہرائی  جا سکتی ہے وگرنہ کپاس جس جگہ جائے گی وہیں اونٹی جائے گی۔
گھر سے باہر جاب کرنے والی خواتین سے گھر کے سارے کام کاج کرنے کی توقع رکھنا بھی غلط بات ہے۔
صلاح کار کجا من خراب کجا۔

اپنی خواتین سے اچھے سلوک کی تعلیم ہمارے مذہب اور پیارے نبی علیہ سلام نے بھی دی ہے جسے اکثر اوقات پس پشت ڈال دیا جاتا ہے۔
جن لوگوں کو علی روس الاشہاد صرف گھر میں عورت کے ہاتھوں پکائی  گول روٹی کی ہی ضرورت رہتی ہے وہ شادی کر کے بیوی لانے کی جگہ صرف روٹی بنانے کی مشین ہی خرید کر لے آئیں۔ یہ بہت سستی بھی پڑے گی اور وہ علت و علائق سے بھی چھوٹے رہیں گے۔

اب الحمدللہ پوری دنیا ہی گلوبل ویلج بن رہی ہے۔ فقیر کی زبان کس نے کیلی ہے کہ امریکن اقدار ساری دنیا میں پھیلائی  اور اپنائی  جا رہی ہیں۔ ہماری جوانی تک پاکستان میں دوست احباب آوٹنگ کے لیے جاتے تو باری باری سبھی دوست بل ادا کر دیا کرتے تھے۔ پھر “امریکن سسٹم” شروع ہوا اور سب لوگ اپنے اپنے بل خود چکانے لگے۔ اب یہ ہر جگہ نارم بن چکا ہے۔
اسی طرح شوہر کا گھر میں گندے برتن دھونے کا نارم اب ہر جگہ رائج ہو رہا ہے۔ پاکستان کا معاشرہ قدامت پرست ہے اور ہمارے مردوں کو دنیا کے نئے معاشرتی لا اور آرڈر اپناتے ہوئے کچھ دیر تو لگے گی۔ ہماں آش در کاسہ۔

پاکستان میں تعلیم یافتہ اور جاب کرنے والی خواتین کو گھر اور باہر دونوں جگہ کام کرنا اور کشٹ بھوگنا پڑتا ہے۔ پاکستانی دیہاتوں میں تو عورت کی مٹی اور بھی زیادہ پلید کی جاتی ہے۔
نت کی بیوی پدنی، اوروں کو دوش۔

وہاں وہ سارا دن کام کاج ہی کرتی رہتی ہے۔ صبح اٹھ کر چکی چرخہ اور لسی بلونے کی  بات گھر کے لوگوں کے لیے ناشتہ بنانا، جانوروں کا چارہ کاٹنا، انھیں پانی پلانا، دیکھ ریکھ۔ پھر دوپہر کا کھانا بنانے کے لیے سخت گرمی میں تندور تاپنا، کھیتوں میں جا کر گھاس کاٹنا، فصلوں کی گودی کرنا، صفائی  کٹائی ، فصلوں بیجوں کو چھاج سے چھاننا، گندم کی کٹائی ، باجرے کی راکھی، کپاس کی چنائی ، چاول کی بیجائی  ہر قسم کا ایسا کام دیہی عورت کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ مرد صرف ہل چلاتے ہیں اور یہ توقع رکھتے ہیں کہ عورت روٹی چھاج اور مکھن یا چوری کا “چھنا” سر پر رکھے انھیں کھیتوں میں کھانا بھی لا کر دے گی اور پنکھا جھلتے ہوئے “او ونجلی والڑیا” والے گیت بھی سنائے گی۔
غرض دو گونہ عذابست جان مجنوں را
بلائے صحبت لیلی و فرقت لیلی

مرد لوگ تو پورے دن کی سخت مشقت سے نڈھال اپنی خواتین سے سرشام اپنا جسم یا پاوں دبوانے کے بعد ازدواجی وظیفے کی فرمائشیں بھی کیا کرتے ہیں، جو نہ چاہتے ہوئے بھی ان مجبور تھکی ہاری خواتین کو پورا کرنی پڑتی ہیں کہ اللہ رسول کا بھی یہی حکم ہے، چاہے ان کا من اپنے سنگ دل خاوند کے پیر دبانے کی جگہ اس کا گلا دبا دینے کی خواہش رکھتا ہو۔

Advertisements
julia rana solicitors

حق بات تو یہ ہے کہ بنا مالہ و ما علیہ ہر عورت کو ایک انسان ہی سمجھا جائے، اس کے جذبات، احساسات کی قدر کی جائے۔ خدا نے اسے مرد سے جسمانی طور پر کچھ پست اور کمزور بنایا ہے مگر ذہنی و جذباتی طور پر وہ اکثر بہت سے مردوں سے زیادہ بہتر ہوتی ہے۔ وہ ہر دکھ درد سہہ کر بھی مسکراتی ہے۔ مردوں کی بنائی  اس دنیا میں عورت کو حقیر جان کر اور محض کسی مشین کی طرح اس سے جان توڑ مشقت کروانے کے معاوضے میں جنس کی صورت ادائیگی کرنا نا صرف مردوں کی پست ذہنیت ہے بلکہ ایک نہایت غلط فعل بھی۔
ان سسکتی سلگتی خواتین کے دل سے بس یہی صدا نکلتی ہے
آزادی کا دن کب آئے گا؟
کب ٹوٹے گی زنجیر میری؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply