فلمی شادی کی خواہش اور معاشی حالات/ممتاز ملک

پاکستان میں اپنی اولاد کی شادی کا موقع کسی بھی انسان کے لیے خوشی سے زیادہ پریشانی اور ڈپریشن کا موقع بن چکا ہے ۔ من چاہی رسمیں اور پھر ان رسموں کا بوجھ اکثر لڑکی والوں کے سر منڈھ دیا جاتا ہے، پھر ان رسموں کو پورا کرنے کے لیے پانی کی طرح  پیسہ بہایا جاتا ہے ۔ لڑکے والوں کی اکثریت مصنوعی زیورات پر سونے کا پانی چڑھا کر اور مانگے تانگے کے ایسے ملبوسات کا بکسہ اٹھائے لڑکی کے سر سوار ہو جاتے ہیں جو کھلنے کے بعد پتہ چلتا ہے کہ اس میں سے کون سا کپڑا پہننے لائق ہے ۔ کونسا لڑکے کی باجی نے اپنا مسترد کردہ یا استعمال شدہ جوڑا بھائی پر قربان کیا ہے، اور کونسا لڑکے کی امی جی کی اپنی شادی کے وقت کا تیس سال پرانا نمونہ لڑکی کو جبرا ً پہنانے کی کوشش کی جا رہی ہے ۔ اور لڑکا بھی بڑی بے شرمی کے ساتھ یہ سارا بَری ڈرامہ اسی طرح دیکھ رہا ہوتا ہے جیسے بلی کو دیکھ کر کبوتر آنکھیں بند کیے پڑا ہوتا ہے۔ یہ بھول کر کہ یہ سوغاتیں جب وہ لڑکی (جو اسکی دلہن بن کر آ رہی ہے ) جب دیکھے گی تو ساری عمر اس کی مٹی پلید کرتی رہے گی ۔ گویا وہ سیج تک پہنچنے کا خواب پورا کرنے کے لیے اندھادھند اپنی ماں بہنوں کی تقلید میں دنبے کی طرح سر جھکائے ہاں جی، ہاں جی، کی جگالی میں مصروف رہتا ہے ۔ یہاں تک کہ آنکھ کھلنے کے بعد شروع ہوتی ہے اسکی تاحیات “بزتی”۔ تب مائیں بہنیں پھر اپنے مٹھو کو پٹی بازی کی چوری کھلاتی ہیں کہ ہائے ہائے ہمارے بھائی کے تو نصیب ہی جل گئے جو ایسی منہ زور بدتمیز لڑکی بیاہ لائے ۔ اس وقت ان زبان دراز عورتوں کو یہ ہر گز یاد نہیں رہے گا کہ اس لڑکی کے ارمانوں بھرے دن پر جو آپ نے اپنی جوٹھن ، دھوکے اور کمینگی کی جھاڑو پھیراہے اسے تو اب ساری عمر برداشت کرنا ہی پڑے گا ،آپکو بھی اور آپکے بھائی اور بیٹے کو بھی ۔

اس کے بعد شروع ہو گا لڑکی کی جانب سے ملے تحائف میں کیڑے نکالنے کا سلسلہ۔ یوں جیسے انہوں نے تحفے نہیں دیئے بلکہ انکے آگے پیسے لیکر کوئی سودا بیچا ہے جو ناقص نکل آیا ہو۔ اس کے باوجود کہ اعلان کر دیا گیا کہ لڑکی کے گھر والوں کو دینے دلانے کی کوئی تمیز نہیں ۔ انکا انتخاب بھی بیحد گھٹیا ہے لیکن بے شرمی ہے کہ ہر چوتھے دن کوئی نئی رسم گھڑ کر اس کے نام پر فقیروں کی طرح نئے تحائف کا فرمائشی پروگرام جاری کر دیا جاتا ہے ۔ بیٹی دیکر پاکستان میں لوگ گویا اپنی جان ان سسرالیوں کے ہاتھوں سولی پر چڑھا لیتے ہیں ۔ آئے روز انکی کسی نہ کسی بہانے اب دعوتیں ہوتی رہنی چاہئیں ۔ جن میں ہر بار کوئی نہ کوئی نئی فسادی شرلی چھوڑی جاتی رہے گی ۔ ان تمام مسائل کا حل نکالنے کے لیے ہماری حکومتوں کو مستقل بنیادوں پر قانون سازی کی ضرورت ہے ۔ جسے کسی بھی حکومت کے آنے یا جانے سے کوئی فرق نہ پڑے اور اس میں کسی تبدیلی کو اس وقت تک منظور نہ کیا جائے جب تک اس پر کوئی حقیقی قومی سروے نہ کروا لیا جائے ۔

اس پر عوامی بحث مباحثے نہ کروا لیے جائیں ۔ خدا کے لیے شادیوں کو کسی قانون کے تحت لایا  عمل میں جائے جس نے عام آدمی کی زندگی اجیرن کر رکھی ہے۔ گھروں میں بیٹھی لڑکیاں لڑکے یا تو بوڑھے ہو رہے ہیں یا پھر بے راہ روی کا شکار ہو رہے ہیں ۔ اور تو اور شادی کے یادگار دن کو بے قابو طوفان ِ مہنگائی و بے حیائی کا موقع بنا دیا گیا ہے ۔ لوگ قرض لے لیکر اس موقع پر اپنی ناک اونچی رکھنے کا اہتمام کرتے ہیں ۔ دیکھا جائے تو خود لڑکیوں نے لمبے لمبے فرمائشی پروگرام بنا بنا کر، لمبے لمبے خرچوں کی فرمائشوں سے اپنے ہی والدین کے ناک میں دم کر رکھا  ہوتا ہے ۔ انہیں اس بات سے کوئی غرض نہیں ہوتی کہ والدین یہ کب اور کہاں سے لائیں گے انہیں تو ڈراموں اور فلموں کی تھیمز پر اپنی شادی کو بھی پوری فلم ہی بنانا ہے ۔

کوئی انہیں بتائے کہ فلموں  اور ڈراموں   کی شادیوں کے مناظر پر خرچ کیا ہوا پیسہ انہیں ہزاروں گنا کما کر واپس ملتا ہے جبکہ عام شادی پر والدین کا خرچ کیا ہوا پیسہ انہیں کئی سال کے لیے مقروض اور فقیر کر جاتا ہے ۔اپنے والدین پر رحم کھائیں ۔ اور لوگوں کو اپنی جعلی امارت کے رعب میں ذہنی مریض بننے اور جرائم کی راہ اختیار کرنے پر مجبور مت کریں ۔ شادیوں کے اخراجات کو ایک حد میں لانے کے لیے ہم حکومت ِ  پاکستان کو چند تجاویز پیش کرتے ہیں جس کے لاگو ہونے سے لوگوں کی زندگی کو کافی ریلیف ملنے کا امکان پیدا ہو سکتا ہے ۔

1۔شادی کو ٹوٹل سو سے ڈیڑھ سو لوگوں کے اجتماع تک محدود کر دیا جائے ۔
2۔ مخلوط محافل کو بین کیا جائے۔
3۔شادی میں دس سال سے چھوٹے بچے لانے پر پابندی لگائی جائے۔ (جو تمام پروگرام اور انتظامات کا ستیاناس مار دیتے ہیں )
4۔ون ڈش کی پابندی کروائی جائے۔
5۔ جہیز میں لڑکی کو اسکے لیے سات جوڑے ،صرف اسکا بیڈ روم فرنیچر اور کچھ کچن اور لانڈری کا لازمی سامان دیا جائے ۔
6۔بَری میں سات نئے اور بھاری جوڑے   لڑکی کے ، حسبِ  توفیق ایک آدھ سونے کا سیٹ۔
7۔زیادہ سے زیادہ دس ہزار روپے تک کا شادی اور ولیمے کا جوڑا دلہن اور دولہے دونوں کا۔

8۔ آپ کتنی بھی مالی حیثیت رکھیں لڑکے والے بارات میں اور لڑکی والے ولیمے میں زیادہ سے زیادہ صرف 50 افراد ہی لا سکتے ہیں ۔
9۔ شادی میں کرائے کے عروسی ملبوسات کو رواج دیا جائے۔
10۔دولہے کی ماں بہنوں کو سونے کے زیورات تحفے میں دینے پر پابندی لگائی جائے۔
11۔نکاح مسجد میں کرنے کا رواج عام کریں۔ اور نکاح میں صرف دولہا دلہن انکے والدین سگے بہن بھائی اور دو گواہوں کے سوا کسی کو شامل ہونے کی اجازت نہ ہو۔ رخصتی کے روز باقی سبھی مہمانوں کے سامنے اس نکاح کی ویڈیو  چلائی جا سکتی ہے ۔
12۔ شادی کے بعد کسی قسم کے تحائف کے لین دین جیسی تمام رسومات کو بین کیا جائے ۔ جس کے مواقع لڑکے والے آئے دن پیدا کرتے اور لڑکی والوں کی زندگی اجیرن بناتے رہتے ہیں ۔
جیسے کہ  مکلاوہ ، عیدیاں ، گود بھرائیاں ، بچے کی پیدائش وغیرہ وغیرہ ۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم امید کرتے ہیں کہ کوئی بھی بااختیار ان تجاویز کو غور کرنے اور لاگو کرنے میں اپنی ذمہ داری ادا کر کے بیشمار لوگوں کی دعائیں لینے کا وسیلہ ضرور بنے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply