ماہِ مبارک سے قبل زلزلہ-عذاب یا تنبیہ؟ /خنسا طاہر کمبوہ

رمضان المبارک کا بابرکت اور فضیلتوں والا مہینہ آچکا ہے یہ گناہگار کیلئے اللہ تعالیٰ کے کرم و عنایت کا خاص تحفہ ہے ،جیساکہ مفتی محمد تقی عثمانی صاحب فرماتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ کے کرم کے مختلف عنوانات ہیں اور رمضان المبارک انہی میں سے ایک عنوان ہے ۔یاد کیجیے کہ ہمارے کتنے ہی عزیز اقارب تھے جو پچھلے برس ان مبارک ساعتوں میں ہمارے ساتھ تھے لیکن اب نہیں ہیں ،لہذا جو شخص رمضان المبارک کو اپنی زندگی میں پا لے تو سب سے پہلے اللہ تعالیٰ  کا شکر ادا کرے کہ اس نے ایک بار  پھر اپنی رحمتوں اور کرم سے فیض یاب ہونے کا موقع عطا کیا ہے ۔

رمضان المبارک سب مہینوں سے افضل اور اعلیٰ ہے اس کو نیکیوں کی بہار کا موسم کہا جاتا ہے ،آسمان کے دروازے کھول دیے جاتے ہیں مسلمانوں کے رزق میں اضافہ کردیا جاتا ہے اور جہنم کو ٹھنڈا کردیا جاتا ہے۔اس میں ہر گھڑی بخشش اور رجوع کرنے والوں کی جھولیاں بھر ی جاتی   ہیں۔سحری اور افطاری کے اوقات میں روزے داروں کو اللہ تعالیٰ کا خاص قرب حاصل ہوتا ہے اور رحمتوں اور برکتوں کا نزول ہوتا ہے۔فضائیں پُرنور اور معطر ہوجاتی ہیں ، سرکش شیاطین کو جکڑ لیا جاتا ہے۔لیکن یاد رکھیں کہ انسان کا اپنا نفس اب بھی آزاد ہے ، اور یہ مہینہ انسان کی نفس کی تربیت کیلئے رکھا گیا ہے۔

جیسا کہ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں
رمضان کے روزے تم پہ فرض کئے گئے ہیں جیسا کہ تم سے پہلی امتوں پہ کیے گئے تھے تاکہ تم پرہیز گار بنو

اس سے ثابت ہوتا ہے کہ روزے کا اہم مقصد تقویٰ  اور پرہیز گاری کا حصول ہے، انسان کو گیارہ مہینوں کے میل کچیل اس مہینے میں اتار کر پاک صاف ہونے کا موقع دیا جاتا ہے اور ایسا پُرنور اور پاک صاف ماحول دیا جاتا ہے جس سے نیکیوں پہ کاربند رہنے میں آسانی ہوتی ہے۔پوری امت ِ مسلمہ کا ایک خاص وقت میں عبادت میں مشغول ہونا باہمی ہمدردی اور بھائی چارے کا بھی درس دیتا ہے
اس سے ثابت ہوتا ہے روزے کے اہم مقاصد میں باہمی ہمدردی، بھائی چارہ اور تقویٰ کا حصول شامل ہے۔

خوش قسمتی سے اگر رمضان المبارک میسر آئے تو اللہ تعالیٰ سے اپنے گناہوں کی معافی مانگنی چاہیے، اپنے نفس کی تربیت کرنی چاہیے یہی موقع ہوتا ہے خود کا محاسبہ کرکے راہ راست پہ لانے کا۔
نیز یہ کہ دو روز قبل جو زلزلہ آیا ہے،اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہم سے ناراض ہے لیکن شکر کرنا چاہیے کہ اس نے زلزلہ کو بطور عذاب نہیں بلکہ بطور تنبیہ بھیجا ہے۔کیوں کہ عذاب کے بعد موقع نہیں دیا جاتا، تنبیہ کا مقصد خبردار کرنا ہوتا ہے اس لیے یہ رمضان المبارک ہمارے لیے موقع ہے تاکہ روٹھے ہوئے رب کو منا لیا جائے۔ ان گناہوں سے معافی مانگنی چاہیے جو زلزلہ لانے کی وجہ ہیں ۔
سوچنا چاہیے کہ زلزلہ کیوں آتا ہے؟؟
ایک روایت ہے کہ حضرت عمر رضی اللہ کے دورِ خلافت میں زلزلہ آگیا انہوں نے زمین پہ اپنا درہ مار کر فرمایا کہ اے زمین ہلتی کیوں ہے؟ کیا عمر نے تیرے اوپر انصاف نہیں کیا یہ کہنا تھا کہ زمین ہلنا بند ہوگئی۔

حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے یہ فرمانے سے یہ بات سمجھ آتی ہے کہ  زلزلہ آنے کی وجہ زمین پہ عدل و انصاف کا خاتمہ ہے، عدل و انصاف اور ظلم و زیادتی صرف حکمرانوں کے ساتھ موقوف نہیں ہے بلکہ آج کا عام مسلمان بھی کسی دوسرے کی حق تلفی اور ظلم و زیادتی میں ملوث ہے۔ہر چھوٹے سے چھوٹے طبقے کے شخص کو جہاں موقع ملے وہ کرپشن /ظلم و زیادتی ضرور کرتا ہے۔
اس لیے مسلمانوں کو چاہیے کہ اگر اللہ کے خاص کرم سے ماہ ِ صیام کی مبارک ساعتیں ہاتھ آگئی ہیں تو ان سے بھرپور فائدہ اٹھائے ، روٹھے رب کو رو کر منت سماجت کرکے منا لیا جائے گناہوں سے توبہ کرکے بخشش مانگی جائے۔

حدیث پاک کا مفہوم ہے
بدبخت ہے وہ شخص جس نے رمضان المبارک کا مہینہ پایا لیکن بخشش نہ مانگی ۔۔

Advertisements
julia rana solicitors london

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ
وہ ہمیں رمضان المبارک کی قدر دانی کرنا سِکھا دے اور ان مبارک ایام کی برکتوں سے ہمارے دِلوں کی کثافت کو دور فرما دے، آمین!

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply