ذہنی مریضوں کا معاشرہ/طاہر چوہدری ایڈووکیٹ

ساری زندگی پلے بوائے جیسی گزاری۔ درجنوں خواتین سے تعلقات، ایک سے شادی کے بغیر بچی بھی پیدا ہوگئی۔ پہلے ماننے سے انکاری رہا لیکن پھر اس خاتون کے عدالت میں جانے پر اس ملک میں ماننا ہی پڑا۔ اپنے ملک کے کاغذات میں پھر بھی اسے بیٹی ظاہر نہیں کیا۔ ایک شادی کی، طلاق دی۔ دوسری شادی کی، اُسے بھی طلاق دی۔ دوسری بیوی نے اس کی خفیہ مگر انتہائی گھناؤنی جنسی زندگی سے پردہ اٹھایا۔ ہوشربا اور خوفناک انکشاف کیے۔ پیروکاروں نے ماننے سے انکار کر دیا۔ ہم نے پڑھا تھا کہ انسان کو جو عادت ایک بار پڑ جائے۔ جو لت لگ جائے وہ عادت جاتے جاتے جاتی ہے۔ اس سے چھٹکارا حاصل کرنا بڑا مشکل کام ہوتا ہے۔ اس نے جس طرح کی جوانی گزاری۔ اب عمر کے اس حصّے میں جبکہ وہ اپنے آپ کو لیڈر منوانے کی جدوجہد کر رہا تھا، دوسری بیوی کے ایسے الزامات پر ضرور توجہ دینی چاہیے تھے لیکن اس کے پیروکار نہیں مانے۔ کہ وہ سب کچھ اس کی ماضی کی زندگی تھی۔ وہ اب ایسا نہیں ہے۔ یہ سب جھوٹ ہے۔

خیر، وہ پچھلے کچھ عرصہ سے روحانیت کی طرف کچھ زیادہ مائل تھا۔ قندیل نامی ایک ماڈل نے ایک نیشنل ٹی وی پر روحانیت کے پردے میں جاری اس گیم سے پردہ اٹھانے کی کوشش کی۔ پیروکاروں نے اسے بھی رگیدا کہ بکواس کرتی ہے۔ خود کا کردار ٹھیک نہیں اور ہمارے رہنما سے قربت کی خواہش پوری نہیں ہو سکی تو اب گندے الزام لگا رہی ہے۔
لیکن سب نے دیکھا کہ قندیل نے جو بات کی تھی وہ سچ تھی۔ پیری فقیری کے چکر میں اندر کھاتے کیا چل رہا تھا لوگوں کو پہلے ہی پتہ چل چکا تھا۔ وہ جس پیرنی کے در پر جاتا تھا۔ اسی کو گھیر لیا۔ جوان بیٹوں، پوتوں، دھوتوں والی خاتون کو طلاق کروائی اور خود شادی کر لی۔ خبریں آئیں کہ اتنا بھی صبر نہیں ہوا کہ اسے عدت کے دن ہی گزارنے دے۔ یہ شریعت کا تقاضا ہے لیکن اس سے انتظار نہیں ہوا۔ یہ شادی شروع میں خفیہ رکھی گئی۔ اتنی خفیہ کہ پیرنی کے جوان بچوں کو بھی نہیں پتہ تھا۔ یا شاید وہ بتانا نہیں چاہتے تھے۔ ٹی وی پرآ کر کہتے رہے کہ یہ خبریں جھوٹ ہیں۔ ان کی والدہ ابھی ان کے والد کی ہی بیوی ہیں۔ ہم نے پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار ایسا سنا اور دیکھا کہ ایک شوہر نے خود میڈیا پر اپنی منکوحہ کے اعلیٰ  و ارفع کردار کی  گواہی دی ہو۔ اسے دنیا کی بہترین عورت قرار دیا ہو اور اسے خود ہی طلاق دے کر کسی دوسرے آدمی کے حوالے کر دیا ہو۔ یہ ہم نے آج تک فلموں میں تو دیکھا تھا کہ کلائمیکس میں سچی محبت کا پتہ چلنے پر ایک نوجوان عین شادی والے دن اپنی چاہت کا ہاتھ بھرے مجمع میں کسی دوسرے کے ہاتھ پکڑا دے اور فلم دیکھنے والوں کی داد سمیٹے لیکن حقیقی دنیا میں نہیں۔ ایک شخص نے اپنی بہترین بیوی کو طلاق دے کر ہنسی خوشی دوسرے کے حوالے کیوں کر دیا اور پھر اس دوسرے شخص سے خوشگوار ماحول میں ملاقاتیں اور تعلقات، اس معمے کی آج تک کسی کو سمجھ نہیں ائی۔ بتانے والے یہ بھی بتاتے ہیں کہ اس نیک بیوی نے پہلے شوہر کو ایک نوجوان لڑکی لا دی اور اس کی شادی کروا دی۔

پیروں فقیروں کو ماننے والا ایک عام روایتی پاکستانی اپنے مرشد کا اتنا احترام کرتا ہے کہ آنکھ تک اٹھا کر اسے دیکھنا بے ادبی تصور کرتا ہے چہ جائیکہ  پیر ایک خاتون ہو تو اس کی طرف دیکھنا نامحرم کے حکم کے مطابق مزید عزت، احترام اور پردے کا تقاضا کرتا ہے۔ ایک پیر کا احترام و عقیدت، اوپر سے نامحرم خاتون والا شرعی معاملہ۔ لیکن اس کیس میں سب کچھ روایت کے برعکس ہوا۔ اس نے نہ صرف اپنی پیرنی کی طلاق کروائی بلکہ اس سے شادی بھی کی اور وہ پیرنی پھر اسے مختلف درباروں پر لیے پھری۔ ہمارے معاشرے میں ایک عام نوجوان خاتون اس طرح شادی کرے تو اسے گھر سے بھاگ کر شادی کرنا قرار دیا جاتا ہے۔ رشتہ داروں وغیرہ میں اس کیلئے ساری زندگی نفرت کا اظہار رہتا ہے۔ شادی شدہ، بال بچوں، پوتوں، دھوتوں والی خاتون ہو تو اس سے تو نفرت کا اظہار کئی گنا بڑھ جاتا ہے۔ اسے سو سو الٹے سیدھے لقب دیے جاتے ہیں۔ کہ بال بچوں والی ہو کر۔۔ ۔

لیکن پیروکاروں نے اس شادی کو مقدس قرار دیا اور روایت کے برعکس سو توجیہات دے کر اسے عین اسلامی قرار دیا۔

اس کی دوسری منکوحہ نے یہ انکشاف بھی کیا تھا کہ اسے نیچرل سیکس کے طریقوں کی بجائے غیر روایتی طریقے زیادہ پسند ہیں۔ وہ اپنے اردگرد خوبصورت نظر آنے والے نوجوان اکٹھے کیے رکھتا ہے اور ان میں مشکوک وقت گزارتا ہے۔ لیکن پیروکاروں نے نہیں مانا۔ الٹا وہ خاتون جسے انہوں نے مادر ملت وغیرہ قرار دیا تھا کے کردار کی دھجیاں اڑا دیں۔ اس کی ایک مبینہ آڈیو وائرل ہوئی۔ جس مبینہ خاتون کے ساتھ آڈیو وائرل ہوئی اس سے متعلق خبریں سالوں پہلے سے مارکیٹ میں موجود تھیں کہ اسے پتہ نہیں اتنا کیوں نوازا جاتا ہے لیکن پیروکار اسے اپنے رہنما کا دوراندیشی پر مبنی فیصلہ قرار دیتے تھے۔ یہاں تک کہ پارٹی کی بہت پرانی خواتین رہنماؤں کو پیچھے چھوڑ کر اسے عہدے وغیرہ دیے گئے لیکن پیروکاروں نے اعتراض نہیں کیا۔ پارٹی کی ایک اور قریبی خاتون رہنما نے اس رہنما پر جنسی الزام لگائے۔ بات سننے کی بجائے اسے الگ ہونے پر مجبور کر دیا گیا۔ اس نے الگ پارٹی بنا لی۔ اس کے گھناؤنے کردار کی دہائی دیتی رہی لیکن پیروکاروں نے اسے ہنسی میں اڑایا۔

اس رہنما کی فحش گفتگو پر مبنی آڈیوز وائرل ہیں۔ ان آڈیوز میں بالکل وہی باتیں ہیں جو اس رہنما کی دوسری منکوحہ پہلے ہی بڑے شدومد سے الزام لگا چکی ہے۔ اس رہنما کی ماضی کی زندگی، شادی کے بغیر تعلق والے رشتے سے بیٹی کی پیدائش، پوتوں دھوتوں والی خاتون کو طلاق کروا کر مبینہ عدت میں ہی شادی اور یہ آڈیوز اس کی زندگی سے متعلق بہت کچھ بتاتی اور سمجھاتی ہیں لیکن پیروکار ماننے کو تیار نہیں۔ بات کرنے پر آگ بگولہ ہوتے ہیں۔ اسے کوئی اوتار سمجھتے ہیں۔ وہ الگ بات کہ وہ رہنما اپنے ٹی وی انٹرویو اور پریس کانفرنسز میں خود مانتا ہے کہ اس کے گھر کے فون ٹیپ کیے گئے اور یہ آڈیو ریکارڈنگز وائرل کی گئیں۔ یہ جرم ہے۔ ایجنسیوں پر اس سلسلے میں مقدمہ ہونا چاہیے لیکن اس کے برعکس پیروکار ان آڈیوز کو جھوٹ قرار دیتے ہیں۔

مجھے یا مجھ جیسے لوگوں کو اس شخص کی ذاتی زندگی سے کوئی مسئلہ نہ ہوتا۔ وہ جانے اور جن سے اس کے اس طرح کے تعلقات ہیں وہ جانیں۔ اگر انہیں آپس میں کوئی اعتراض نہیں تو مجھے کیوں ہو۔ لیکن جب میں دیکھتا ہوں کہ اس شخص نے شدید مذہبی ہونے کا بہروپ بھر رکھا ہے۔ بات بات پر قرآن حدیث کے حوالے دیتا ہے۔ ریاست مدینہ اور خلفا کی مثالیں دیتا ہے۔ مغرب میں بیٹھ کر بتاتا ہے کہ بچے بند کمروں میں کیسا فحش مواد دیکھتے ہیں تو میں شدید حیران ہوتا ہوں کہ کیسے یہ بیہودہ اور گھٹیا شخص لوگوں کو بیوقوف بنا رہا ہے۔ خود کی اپنی زندگی کیسی اور تبلیغ کیا کرتا ہے۔ اپنے فائدے اور نقصان کیلئے جب مرضی چاہے کسی کو ڈاکو قرار دے جب مرضی چاہے حاجی بنا کر اعلیٰ  منصب کا اہل قرار دے دے۔

مجھے اس سے بھی زیادہ حیرانی پیروکاروں پر ہوتی ہے۔ مجھے یہ لوگ صم بکم عمی کی عملی تصویر دکھائی دیتے ہیں۔ ان کا رہنما کہتا ہے کہ فون ٹیپ کرنا اور آڈیوز کو وائرل کرنا جرم ہے۔ ذمہ داروں کیخلاف آفیشل سیکرٹ ایکٹ کے تحت کارروائی ہونی چاہیے۔ میرے گھر کا فون ٹیپ کیا گیا اور پھر آڈیوز وائرل کی گئیں۔ پیروکار کہتے ہیں آڈیوز جعلی ہیں۔ ہم نہیں مانتے۔ اپنے رہنما کی بیوی کو مادر ملت اور آرمی چیف کو باپ قرار دیتے ہیں اور پھر اپنے ہی ان ماں باپ کو ننگی گالیاں بھی دیتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے نزدیک دوسرے رہنما بھی کوئی خاص معتبر نہیں لیکن اس شخص نے جس طرح اپنی سیاست اور فائدے کیلئے مذہب، مذہبی شخصیات اور استعاروں کا گھٹیا ترین استعمال کیا ہے موجود لاٹ میں ایسا آج کسی دوسرے نے نہیں کیا۔ نرگسیت کا مارا یہ شخص جسے اپنے علاوہ کوئی دوسرا ٹھیک نظر نہیں آتا۔ اس مہا گھٹیا شخص کو یہ لوگ ریاست مدینہ جدید کا بانی اور داعی قرار دیتے ہیں اور درباری ملا اس کی آگے سے پیچھے سے، دائیں سے بائیں سے، اوپر سے نیچے سے حفاظت کی رو رو کر دعائیں مانگتے ہیں۔ ذہنی مریضوں کا معاشرہ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply