یہ کیا کر رہے ہیں؟/ خنساء سعید

وہ بہت چھوٹا تھا جب اُس نے ایک خواب دیکھا تھا ، اُس ایک خواب کو پورا کرنے کے لیے اُس نے دن رات محنت کرنا شروع کر دی ، وہ جیسے جیسے بڑا ہوتا گیا ا ُس نے اپنے خواب کے بارے میں اپنے لوگوں کو بتانا شروع کیا ۔کہنے لگا کہ،میں چاہتا ہو ں کہ اپنے لوگوں کے لیے ایک ایسی الگ ریاست بناؤں جہاں میرے لوگ خود کو ہر طرح سے آزاد محسوس کریں، لوگ بھی شاید اِسی انتظار میں بیٹھے تھے خواب کی تکمیل کے لیے اُس کے ساتھ اُٹھ کھڑے ہوئے، سارے اپنے اپنے حصّے کی محنت کرنے لگے ،خواب کی تعبیر پا لینا آسان نہیں تھا ۔اُس نے اپنے لوگوں کو لیا اور سنگلاخ راستوں پر ننگے پاؤں چلنے لگا، منزل بہت دور تھی اور راستے بہت دشوار تھے اپنے لیڈر کی قیادت میں چلتے چلتے قافلہ لاہور منٹو پارک تک پہنچا ۔اُس دن کا سورج نئی اُمیدیں، نئے خوابوں عزم و استقلال کا استعارہ بن کر طلوع ہوا۔یہ دن قافلے والوں کے لیے اتفاق و اتحاد اور آزادی کا دن تھا پنڈال میں موجود لاکھوں لوگوں کی پُر اُمید آنکھیں زہرہ کی طرح چمک رہی تھیں ۔ہر کوئی اپنے عظیم لیڈر کے انتظار میں تھا ۔وہ جلسے میں آیا اور اپنے لوگوں کے سچے جذبوں کو سراہتے ہوئے سٹیج پر جا کر بیٹھ گیا ،لوگ اپنے عظیم لیڈر کو دیکھ کر نعرے لگانے لگے، محبت عقیدت کا یہ سماں آج دیکھنے والوں کی آنکھوں کو فرحت بخش رہا تھا ۔ وہ کرسی سے اُٹھا اور سپیکر پر جا کر تقریر کرنے لگا، آج اُس کے منہ سے نکلنے والا ایک ایک لفظ سامعین کے لیے خزاں کی رُت میں بہارِ جاوداں کا پُر ترنم نغمہ معلوم ہو رہا تھا ۔ پھر اُس نے پنڈال میں موجود لوگوں کو اپنے ایک الگ وطن کا مژدہ سنایا جس کو سنتے ہی جلسے میں موجود ہر فرد میں زندگی سے بھر پور ایک روح افزا لہر دوڑ گئی ،چہرے خوشی سے دہکنے لگے ہر کوئی ایک دوسرے کو مبارک باد دینے لگا ۔23 مارچ کا وہ دن قافلے کی منزل نہیں تھا بلکہ منزل تک پہنچنے کے لیے ایک خوب صورت پڑاؤ تھا منزل تو ابھی دور تھی ۔

قافلے نے منزل تک پہنچنے کے لیے پھر سے اپنے عظیم لیڈر کے سنگ رختِ سفر باندھ لیا ۔
اُس دن منزل کے کٹھن ترین سفر کا آغاز خوشی و مسرت اور یقین محکم کے ساتھ کیا گیا تھا۔ قافلے کے لاکھوں لوگوں نے پھر چلنا شروع کیا اب اُن کے قدموں میں ڈگمگاہٹ نہیں تھی ہر اُٹھتا قدم رجائیت کا راگ الاپ رہا تھا ۔ مگر خون کا عطیہ اور قربانی دئیے بغیر آزادی حاصل کر لینا کہاں ممکن تھا ۔ آزادی کی راہ پر چلنے والے قافلے پر وار شروع کیے گئے،چھوٹے چھوٹے بچوں کو نیزوں کی اَنی پر اُچھالا جانے لگا ، بز رگوں کو برچھیوں اور بھالوں کی زد پر رکھا گیا جلتے آلاؤ میں پھینکا گیا ،ماؤں ،بہنوں بیٹیوں کی عصمتیں تار تار کی گئیں ،ہر طرف تلواریں اور کرپانیں لہراتی رہیں ،فضا میں ایک ہی نعرہ بلند ہوتا ،مسلمانوں کو ختم کر ڈالو ،مگر قافلے والوں نے ہمت نہ  ہاری، اپنے پیاروں کی لاشیں کندھوں پر اُٹھا کر چلتے رہے ، اس خونچکاں قافلے نے احد پہاڑ جتنی قربانیاں دے کر آزادی حاصل کر لی ۔

الگ وطن حاصل کرنے کے بعد قافلے کے کچھ لوگ زندہ سلامت اپنے وطن پاکستان پہنچے۔ لوگوں کو اپنے پیاروں کو کھو دینے کا دکھ ایک طرف، مگر دوسری طرف الگ وطن حاصل کرنے کی خوشی تھی اب یہاں ہر کوئی ہر کام میں آزاد تھا۔ یہ مہکتا ہوا حسیں گلشن جس کی فضائیں بالکل صاف تھیں ،پاک بہاروں کا عطر بیز چمن کو غریبوں کی آزروؤں اور شہیدوں کی جستجو کا وطن تھا وہ اپنی آزادی کھونے لگا ، وطن عزیز میں سیاست کا گندا کھیل شروع ہو گیا۔شب تیرہ کی تیرگی ہر سو پھیل گئی ،جبر و ا ستبداد کی کالی گھٹاؤں تلے عدل و انصاف کا قاضی محمود و ایاز کو پیسنے لگا ،سرمایہ داری کی توند غریبوں کے لہو سے بھرنے لگی ،خونخوار بھیڑیوں نے استسقاء کے مریضو ں کی طرح اپنی ہی قوم کا خون چوسنا شروع کر دیا ۔وطن عزیز میں لوگ    محبت و اتحاد کا سبق بُھلا کر ایک دوسرے سے دست و گریباں ہو گئے ۔انتہا پسندی، بدامنی کرپشن،سفارش اور رشوت کی سنڈیاں گلشن کوچاٹنے لگیں ۔سیاست دان، بیوروکریٹس ،ادارے ،جاگیر دار ، وڈیرے چیل کوؤں کی طرح نظام کی بربادی میں اپنا حصہ ڈالتے رہے ۔کھوٹے سکوں کے ہاتھوں میں نظام بادشاہت آ گیا ،جمہوریت کی آڑ میں آمریت کے ننگے کھیل کھیلے گئے ،اس آزاد وطن میں بے بسی کی سسکیوں پر بے حسی کی تالیاں گونجنے لگیں ۔دہشت گردی نے اپنوں کے ہی بے گورو کفن لاشے چوک چوراہوں پر بکھیر دئیے ،معصوم بچوں کی آنکھوں میں بھوک رقص کرنے لگی ،انسانی جسم کے لوتھڑوں پر اقتدار کی بلند عمارتیں تعمیر کی گئیں  ،عوام ہر روز دال روٹی کے خلاف جہاد کرتے اور مارے جاتے ۔خود غرضی اور احساسِ انفرادیت نے یہاں ایک ملک کے پاکستانی عوام سے سندھو دیش ، پختونستان اور پنجابی سب سے برتر کے نعرے لگائے ۔کشمیر چھن گیا ،سقوط ڈھاکہ ہوا ،غم کے مارے عوام جس بھی رہنما سے اُمیدیں وابستہ کرتے وہ ہی عوام کے لیے تکلیف کا سبب بنتا ،خزانے خالی کر کے اپنی تجوریاں بھرتا ،عوام ایک بحران سے ابھی زخمی اور نڈھال ہو کر نکلتے کہ دوسرا بحران جو پہلے سے زیادہ کربناک ہوتا عوام کو اپنے حصار میں لے لیتا ۔اس ملک پر حکمرانی کرنے والوں کا ایک ہی وطیرہ رہا ” تہذیب کو روند کر غریبوں کے حقوق غصب کرو ، جمہور کی محنت قابو میں رکھ کر انہیں بے ثمر کو دو ،شہیدوں کی لاشوں پر ایوان تعمیر کرو ،اور اپنی عیا شیوں اور آسائشوں کو توفیق ِ خداوندی قرار دے دو ۔”

Advertisements
julia rana solicitors

آج پچھتر سال کا عر صہ گزر جانے کے بعد یہ وطن سخت بیمار ہو چکا ہے ان گزرے سالوں نے اس کو بیمار کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے ۔آج اس وطن عزیر میں غریب آدمی سے زندہ رہنے کا حق چھین لیا گیا ہے ۔سیاست دانوں نے اپنے سیاسی انتقام کی خاطر عوام کی  ہڈیو ں کا شوربہ نکال دیا ہے ۔کوئی کہہ رہا ہے کہ بوٹوں والے اس کو بیماری لگا گئے تو کوئی کہہ رہا تم   خزانے لوٹ گئے کوئی کہہ رہا ہے نہیں تم اس کو لوٹ گئے ایسے میں وہاں اوپر خلد میں بیٹھیں اس وطن اس گھر کے سربراہان ، بانیان کی اور آزادی کے قا فلے میں شا مل شہیدوں کی روحیں اس کی ایسی حالت دیکھ کر ہر روز تڑپتی ہیں ۔کہتی ہیں یہ تاریکیاں کہاں سے آ گئی ہیں رات کیوں چھا گئی ہے ہم تو اس ملک کو صبح صادق سے نواز کر آئے تھے پھر روشنی نے پردہ کیوں کر لیا ہے ،کیا ہم سے کوئی موڑ غلط کاٹا گیا تھا ؟؟ پھر وہ ایک دوسرے سے سوال پوچھتے ہیں کیا یہ ہے ہماری قربانیوں کا صلہ ؟؟کیا ہم نے اس لیے تعمیر ِ گلستاں کو اپنا گرم خون پیش کیا تھا؟
یہ کیا ہو رہا ہے؟؟
یہ کیا کر رہے ہیں ۔ ؟

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply