• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • انتخابات کا انعقاد جمہوریت کے لئے ایک اہم چیلنج /قادر خان یوسف زئی

انتخابات کا انعقاد جمہوریت کے لئے ایک اہم چیلنج /قادر خان یوسف زئی

سیاسی عدم رواداری کے ماحول میں انتخابات کا انعقاد کسی بھی جمہوریت کے لئے ایک اہم چیلنج ہے۔ سیاسی عدم رواداری سیاسی عدم استحکام، سماجی بے چینی اور مالی بحران کا باعث بن سکتی ہے، جس کے ملک کی معیشت اور سیاسی نظام پر طویل مدتی اثرات مرتب ہو سکتے ہیں۔ جس قسم کا ماحول اس وقت دو صوبوں میں انتخابات کے حوالے سے بن رہا ہے، اس میں بے یقینی زیادہ ہے۔ سیاسی استحکام کے بجائے مستقبل میں مزید سنگین بحران پیدا ہونے کے خدشات زیادہ نظر آ رہے ہیں۔ اس قسم کے ماحول سے انتخابات کے نتائج کے بارے میں غیر یقینی صورتحال سرمایہ کاری میں کمی، عوام کے اعتماد میں کمی اور معاشی ترقی میں سست روی کا باعث ہوگی۔ الیکشن کمیشن واضح طور پر بتا چکا کہ انتخابات کے انعقاد  کے اخراجات کافی ہیں، جس سے پاکستان کے مہنگے ترین انتخابات کے ریکارڈ ٹوٹ جائیں گے ،اس لئے بیشتر حلقوں میں اس اَمر پر تشویش کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ا دھورے انتخابی عمل سے سیاسی استحکام اور معیشت پر مالی بوجھ مزید بڑھ سکتا ہے۔ ایک وقت پر صوبوں اور وفاق کے لئے عام انتخابات نہ ہونے سے خدشات ہیں کہ اگر انتخابات کے نتائج کو چیلنج کیا جاتا ہے تو احتجاج، فسادات اور شہری بے امنی کی دیگر شکلیں پیدا ہوں گی، جس سے جان و مال کا نقصان ہوسکتا ہے۔ اس طرح کے واقعات ملک کے سماجی تانے بانے پر بھی دیرپا اثرات مرتب کریں گے، جس سے بد اعتمادی تقسیم اور پولرائزیشن پیدا ہوسکتی ہے۔

انتخابات کو چیلنج کئے جانے کے امکانات زیادہ ہیں کیونکہ واضح طور پر پنجاب اور صوبہ پختونخوامیں الیکشن ہو بھی جاتے ہیں تو مستقبل میں نگراں سیٹ اپ موجود نہیں ہوگا۔ یہ بھی ممکن نہیں کہ عام انتخابات میں قومی اسمبلی کی نشستوں کے لئے الگ سے نگراں سیٹ اپ بنایا جائے۔ صوبے میں جس کی بھی حکومت ہوگی اس کے وسائل و اثر رسوخ سے انتخابات پر براہ راست اثر پڑے گا۔ دھاندلی اور گورنس کے مسائل اس کے علاوہ ہوں گے کیونکہ ان حکومتوں میں نگرانی کے لئے مقامی پولیس تعینات ہوگی اور یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ اس کے اثرات کیا ہو سکتے ہیں۔ سیاسی عدم رواداری کے نتائج خود سیاسی نظام تک بھی پھیل سکتے ہیں۔ اگر انتخابات کو غیر منصفانہ یا دھاندلی قرار دیا گیا تو سیاسی نظام کی قانونی حیثیت مزید کمزور ہوجائے گی، جس سے حکومت اور سیاسی جماعتوں پر عوام کا اعتماد مزید ختم ہو سکتا ہے۔ یہ جمہوری اداروں اور عمل کے ٹوٹنے کا باعث بھی بن سکتا ہے، جس سے ملک مطلق العنانیت یا حکومت کی دیگر شکلوں کے خطرے سے دوچار ہوسکتا ہے ہم ان تحفظات سے صرف ِ نظر نہیں کر سکتے۔ سیاسی اختلافات میں عدم برداشت اپنی جگہ لیکن مینڈیٹ سے انحراف کے نچلی سطح تک اثرات پھیل چکے اور عام شہری بھی متاثر ہوچکے ہیں۔ صاف و شفاف انتخابات کا تصور بادی النظر دکھائی نہیں دے رہا ،انتخابی اصلاحاتی عمل کئے بغیر الیکشن میں جانا، ماضی کی روایات کو دوہرائے جانے کا تسلسل ہی ہوگا۔ان خطرات کو کم کرنے کے لیے ضروری ہے کہ انتخابات سے قبل رواداری اور تنوع کے احترام کے کلچر کو فروغ دینے کے لیے اقدامات کیے جائیں۔

سیاسی جماعتوں اور رہنماؤں کو بات چیت اور مذاکرات میں شامل ہونے کی ترغیب دینے سے ان کے اختلافات کو دور کرنے اور مشترکہ بنیاد تلاش کرنے میں مدد مل سکتی ہے۔ الیکشن کمیشن کی غیر جانبداری کو یقینی بنایا جائے ملک کی ایک بڑی سیاسی جماعت کے تحفظات دور کئے جانے ضروری ہیں کیونکہ اگر انتخابات میں من پسند نتائج نہیں آتے یا گڑ بڑ ہوجاتی ہے تو اس امر کی کیا ضمانت ہے کہ نتائج کو قبول کرلیا جائے گا، سیاسی بے یقینی کی اس فضا میں معلومات تک رسائی اور اظہار رائے کی آزادی کو یقینی بنانے کی ضرورت جتنی آج ہے اس سے  قبل کبھی نہ تھی۔ ڈیجیٹل میڈیا کے سبک رفتار دور میں رائے دہندگان کی تعلیم کی مہمات شہریوں کو ان کے حقوق اور ذمہ داریوں اور انتخابی عمل میں حصہ لینے کی اہمیت کو سمجھنے میں مدد فراہم  کرنا ناگزیر ہو گیا ہے۔ پارلیمان کا فرض تھا کہ پہلے انتخابی اصلاحات متفقہ طور پر کی جاتیں، مردم شماری کے بعد انتخابات کرانے پر زور تو دیا جاتا ہے لیکن اس سے زیادہ فرق نہیں پڑے گا، بلکہ جو اس وقت اہم ہے وہ ملک بھر میں قومی و صوبائی انتخابات ایک ہی وقت کرانے پر توجہ مرکوز ہونی چاہیے۔ انتخابی اصلاحات کے بغیر ہونے والے الیکشن گر ہوئے بھی تو متنازع ہی رہیں گے، اگر سیاسی جماعتوں کے درمیان سنجیدگی کے ساتھ متفقہ میثاق عمل میں نہیں لایا گیا تو سیاسی عدم رواداری کے ماحول میں انتخابات کا انعقاد ملک کے سیاسی استحکام، سماجی ہم آہنگی اور معاشی ترقی پر سنگین نتائج مرتب کر سکتا ہے جمہوری معاشروں کو درپیش اہم چیلنجوں میں سے ایک یہ یقینی بنانا ہے کہ سیاسی جماعتیں انتخابی اصلاحات اور نتائج کو قبول کریں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

حالیہ برسوں میں، متعدد مثالیں دیکھی ہیں جہاں سیاسی جماعتوں نے انتخابات کے نتائج کو قبول کرنے سے انکار کر دیا، جس کی وجہ سے سیاسی عدم استحکام، سماجی بے امنی اور یہاں تک کہ تشدد بھی ہوا۔ سیاسی جماعتوں کو اس امر کو تسلیم کرنا ہوگا کہ ان کے خیالات ہمیشہ دوسروں کی طرف سے مشترک نہیں ہو سکتے اس لئے سیاسی سمجھوتے اور تعاون کے لئے کھلے دل کا ہو نا ناگزیر ہے۔ سیاسی جماعتوں کو انتخابات کے نتائج ماننے کا کلچر متعارف کرانا ہوگا، قطع نظر اس کے کہ وہ جیتیں یا ہاریں۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ انتخابات کے نتائج کو قبول کریں اور دھوکہ دہی یا بدسلوکی کے بے بنیاد الزامات لگانے سے گریز کریں۔ انتخابی اصلاحات اور نتائج کو قبول کرنا ایک مستحکم اور لچک دار جمہوریت کی تعمیر کے لئے ضروری ہے سیاسی جماعتیں رواداری کے کلچر کو فروغ دینے، انتخابی عمل میں اعتماد پیدا کرنے، انتخابات کے نتائج کا احترام کرنے، چیک اینڈ بیلنس کے مضبوط نظام کی حمایت کرنے اور انتخابات کے بعد مکالمے اور مصالحتی کوششوں میں شامل ہونے میں کلیدی کردار ادا کر سکتی ہیں۔ ایسا کرنے سے اس بات کو یقینی بنانے میں مدد کر سکتی ہیں کہ تمام شہریوں کی آواز سنی جائے اور مثبت جمہوریت پھلتی پھولتی رہے۔

Facebook Comments

قادر خان یوسفزئی
Associate Magazine Editor, Columnist, Analyst, Jahan-e-Pakistan Former Columnist and Analyst of Daily Jang, Daily Express, Nawa-e-Waqt, Nai Baat and others. UN Gold medalist IPC Peace Award 2018 United Nations Agahi Awards 2021 Winner Journalist of the year 2021 reporting on Media Ethics

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply