• صفحہ اول
  • /
  • خبریں
  • /
  • ٹیریان کیس: میرٹ پر دلائل دیں تو یہ 30سیکنڈ کا کیس ہے، عدالت کے ریمارکس

ٹیریان کیس: میرٹ پر دلائل دیں تو یہ 30سیکنڈ کا کیس ہے، عدالت کے ریمارکس

اسلام آباد ہائیکورٹ میں مبینہ بیٹی کو کاغذات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر عمران خان نااہلی کیس میں چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے ہیں کہ اگر آپ میرٹ پر دلائل دیں تو یہ تیس سیکنڈ کا کیس ہے۔

تفصیلات کے مطابق مبینہ بیٹی کو کاغزات نامزدگی میں ظاہر نہ کرنے پر عمران خان کے خلاف نااہلی کیس پر سماعت ہوئی۔ اسلام آباد ہائی کورٹ کے چیف جسٹس کی سربراہی میں 3 رکنی لارجر بینچ نے کیس کی سماعت کی۔

درخواست گزار کی جانب سے وکیل حامد علی شاہ عدالت کے سامنے پیش ہوئے۔ عمران خان کی جانب سے وکیل سلمان اکرم راجہ اور ابوزر سلمان نیازی عدالت میں پیش ہوئے۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے ریمارکس دیے کہ پہلے آپ نے کیس قابل سماعت ہونے پر دلائل مکمل کرنے ہیں۔ اگر آپ میرٹ پر بھی دلائل دینا چاہتے ہیں تو وہ آپ کی مرضی ہے۔ درخواست میں ترمیم اور کیس قابل سماعت ہونے پر آرڈر جاری کر دیں گے۔ اگر کیس قابل سماعت ہوا تو پھر آگے چلیں گے۔ اگر میرٹ پر دلائل دیں تو یہ تیس سیکنڈ کا کیس ہے۔

درخواستگزار کے وکیل نے کہا کہ جب عدالت نے نوٹس جاری کر دیا تو عمران خان کو میرٹ پر جواب جمع کرانا چاہئے تھا۔ عمران خان نے کیس کے میرٹ پر جواب جمع نہیں کرایا۔ عمران خان نے کیس قابل سماعت ہونے سمیت پانچ اعتراضات اٹھائے۔

درخواستگزار کے وکیل نے اپنے دلائل میں کہا کہ عمران خان نے اعتراض اٹھایا کہ وہ اب ممبر قومی اسمبلی نہیں ہیں۔ کوئی شک نہیں کہ عمران خان کو توشہ خانہ کیس میں نااہل کیا جا چکا۔ عمران خان نے الیکشن کمیشن کے فیصلے کو چیلنج کر رکھا ہے جبکہ عدالت نے اُس حلقے پر دوبارہ الیکشن کرانے سے روک رکھا ہے۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس کے باوجود بھی وہ دوبارہ ممبر قومی اسمبلی نہیں بن جاتے۔ عمران خان اب اُس نشست سے تو ایم این اے نہیں ہیں۔

وکیل درخواستگزار نے کہا کہ عمران خان کا ایک دوسرے حلقے سے کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری ہو چکا۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ الیکشن کے بعد اگر حلف نہ لیا جائے تو پھر سٹیٹس کیا ہو گا؟ کیا پارٹی سربراہ پبلک آفس ہولڈر ہوتا ہے؟ اس پر مطمئن کریں۔ چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ یہ دونوں سوالات اہم ہیں، ان پر دلائل دیں۔ ایک تو الیکشن ٹربیونل میں کرپشن اور کرپٹ پریکٹیسز کی درخواست دی جا سکتی ہے۔ الیکشن ٹربیونل میں تو کوئی درخواست دائر نہیں کی گئی۔ اب کیا عمران خان حلف لئے بغیر بھی پبلک آفس ہولڈر ہیں؟ وکیل حامد علی شاہ نے کہا کہ جی، ان کی کامیابی کا نوٹیفکیشن جاری کیا جا چکا ہے۔

چیف جسٹس نے اپنے ریمارکس میں کہا کہ اس نکتے پر اب آپ نے مطمئن کرنا ہے۔ وکیل درخواستگزار نے کہا کہ نوٹیفکیشن جاری ہونے کے بعد کامیاب امیدوار قومی اسمبلی کا ممبر بن جاتا ہے۔ حلف لینے کے بعد وہ قومی اسمبلی میں بیٹھنے اور ووٹ دینے کا اہل ہوتا ہے۔

چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ آپ کہہ رہے ہیں کہ عمران خان اب قومی اسمبلی کے ممبر ہیں؟ کیا آئین میں ممبر قومی اسمبلی یا سینیٹ کو حلف لینے کیلئے دباؤ نہیں ڈالا جا سکتا؟ وکیل درخواست گزار حامد علی شاہ نے کہا کہ نہیں، آئین میں ایسا کچھ موجود نہیں ہے۔ چودھری نثار اور اسحاق ڈار کے ایسے کیسز موجود ہیں۔ وکیل درخواست گزار نے پارٹی سربراہ سے متعلق سپریم کورٹ کے فیصلے کا حوالہ دیدیا۔

چیف جسٹس نے درخواست گزار کے وکیل سے استفسارکیا کہ اس فیصلے کا پسِ منظر کیا تھا؟ اس پر سلمان اکرم راجا نے کہا کہ میں بتاتا ہوں، میں اس کیس میں میاں نواز شریف کا وکیل تھا۔ اس پر چیف جسٹس نے مسکراتے ہوئے ریمارکس دیے کہ اچھا، مختلف اوقات میں مختلف کردار۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا بیان حلفی کی شرط ابھی بھی موجود ہے؟ وکیل درخواستگزار نے کہا کہ سپریم کورٹ نے کاغذات نامزدگی کے ساتھ بیان حلفی دینے کا حکم دیا۔

چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ اگر غلط بیان حلفی دیا گیا ہے تو آپ توہین عدالت کی درخواست دائر کر دیں۔ اگر آئندہ الیکشن میں عمران خان وہی بیان حلفی دیتے ہیں تو یہ فریش کیس نہیں ہو گا۔ چیف جسٹس عامر فاروق نے استفسار کیا کہ جو ماضی ہے وہ ماضی ہے، کیا ایسا نہیں ہے؟ چیف جسٹس نے ریمارکس دیے کہ مشرف دور میں بی اے تعلیم لازم قرار دیدی گئی اور بہت سے لوگوں نے جعلی ڈگریاں لیں۔ سمیرا ملک کیس میں سپریم کورٹ نے تفتیش کا حکم دیا تھا۔ سپریم کورٹ نے کہا تھا جعلی ڈگری ثابت ہونے پر اُن کے خلاف ایف آئی آرز درج کی جائیں۔ چیف جسٹس نے استفسار کیا کہ کیا اُن کیسز میں کچھ ہوا تھا؟

وکیل درخواست گزارکا کہنا تھا کہ عمران خان سے متعلق تو امریکی عدالت کا فیصلہ موجود ہے، عمران خان نے امریکی عدالت میں بیان حلفی جمع کرایا۔

چیف جسٹس کا کہنا تھا کہ وہ بیان حلفی نہیں ڈیکلریشن ہے،جس پر اوتھ کمشنرنے پاکستان میں دستخط کیے۔

وکیل درخواست گزار نے کہا کہ عمران خان نے بطور والد بیٹی کی سرپرستی حوالے کرنےکا ڈیکلریشن دیا۔

جسٹس محسن اختر کیانی کا کہنا تھا کہ اُس ڈیکلریشن میں والد کا لفظ تو کہیں موجود ہی نہیں ہے، ایسا ہوسکتا ہے نا کہ کسی شخص کو بہت بعد میں پتہ چلےکہ اس کا ایک بچہ بھی ہے؟ ہوسکتا ہے نا کہ وہ کافی عرصہ کسی اوراحساس میں رہا ہو؟ کیا اس بنیاد پر کوئی شخص نااہل ہو سکتا ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

گورنرخیبرپختونخوا نے پھرایک ہی دن انتخاب کی تجویزدیدی
اسلام آباد ہائی کورٹ نے کیس کی سماعت کل تک ملتوی کر دی۔

Facebook Comments

خبریں
مکالمہ پر لگنے والی خبریں دیگر زرائع سے لی جاتی ہیں اور مکمل غیرجانبداری سے شائع کی جاتی ہیں۔ کسی خبر کی غلطی کی نشاندہی فورا ایڈیٹر سے کیجئے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply