جب زندگی اور موت میرے سامنے آ چکی تھی/محمد یٰسین

سن 2016 کی بات ہے،جب میں نے نیا نیا  میٹرک کیا تھا ۔ یہ دور بچپن سے جوانی کی طرف جارہا تھا۔ ابھی ماحول کے تھپیڑے نہیں سہے تھے۔ نہ کوئی   ادبی شعور تھا۔ ابھی شعور کی آنکھ کھل ہی رہی تھی کہ زندگی اور موت دونوں میرے سامنے آگئے ۔ انسان جب ادھیڑ عمر میں پہنچ کر کوئی عجیب آزمائش سے گزرے تو  وہ لمحہ قابلِ برداشت ہوتا  ہے اس کی ایک وجہ خود انسان زندگی کی حقیقتیں، آزمائشیں اور علم سے آشنا ہونا  ہوتا ہے۔ زندگی کے نشیب و فراز سے وہ برداشت اور صبرو حکمت بہت حد تک سیکھ چکا ہوتا ہے۔ لیکن یہاں معاملہ کچھ اُلٹ تھا۔

بات کچھ یوں ہے کہ والدہ صاحبہ کو منہ کا کینسر ہوگیا۔ گھر میں پہلے ہی غربت کے بادل منڈلا رہے تھے۔ دوسری طرف بیمار ی نے بھی آن ڈرہ جمالیا  ، شہر کے بڑے ہسپتال گئے تو ڈاکٹر نے لاہور کے بڑے سرکاری ہسپتال ریفر کردیا۔ میں بڑی بہن کے ساتھ والدہ کو لیکر لاہور کے   میو ہسپتال آگیا۔ یہ  لاہور سے پہلی ملاقات تھی، اور ایک نئی دنیا میرے سامنے کھل گئی۔ نئے نئے لوگوں سے واسطہ پڑا اور ہسپتال میں دور دراز سے آئے مریضوں اور ان کے لواحقین سے گفتگو کا موقع ملا۔ اس وقت ساری ذمہ داری میرے  سر پر تھی۔ والد صاحب گھر پر تھے۔ کیونکہ گھر کے معاملات بھی ضروری تھے۔ اور   اس مشکل وقت میں، مَیں اپنے آپ کو اتنا  تنہا محسوس کررہا تھا جسے  لفظوں میں بیان نہیں کیا جاسکتا۔ مالی و سماجی مدد مانگوں تو کس سے مانگو۔ پہلی بار کسی بڑے ہسپتال میں آنے کے بعد کوئی  رہنمائی   کرنے والا بھی نہیں تھا۔ خود ہی دل کو تسلی دے کر آگے قدم بڑھا کر لوگوں سے پوچھ کر ڈاکٹر تک رسائی ممکن بنائی۔ والدہ کی تمام میڈیکل رپورٹس ڈاکٹر صاحب کو دکھائیں ۔ ڈاکٹر نے رپورٹ کی بنیاد پر علاج شروع کردیا ۔ وقتاً فوقتاً یہ تین ماہ کا عرصہ تھا کہ ٹریٹمنٹ کے بعد تین ہفتے کی چھٹی اور دوبارہ ٹریٹمنٹ شروع ہوتا  تھا ۔ یہ علاج پانچ ادوار میں ہونا تھا تین دور گزر گئے۔ لیکن چوتھے دور سے پہلے ہی والدہ صاحبہ انتقال کرگئیں ۔

میں پہلے ہی نفسیاتی بحران کا شکار تھا کہ ایک اور شدید صدمہ پہنچا۔ اب میری یہی کوشش تھی کہ یہ بُرے دن جلد سے جلد گزر جائیں۔ میں اب تک نفسیاتی و جسمانی طور پر مفلوج ہوکر رہ گیا تھا۔ دن گزرتے گئے اور حالات معمول پر آتے گئے۔ لیکن یہ جو کچھ بھی تھا میرے لئے آزمائش اور سبق آموز تھا۔ یہی وہ موقع تھا کہ میں نے کسی حد تک  زندگی کی  حقیقت کو پالیا۔ اسی سال والدہ کے انتقال کے تین ماہ بعد خود مجھے شدید مرض لاحق ہوگیا۔ بات کچھ یوں ہے کہ رات کو سوتے وقت سر کے بالوں میں معمول کے مطابق خارش کی تو دوسرے دن صبح اٹھتے ہی محسوس ہوا کہ سر پر سوجن آگئی ہے۔ میں نے اس کو معمول کی خارش سمجھ کر نظر انداز کیا اور معمولی ڈاکٹر سے دوائی وغیرہ لی۔ دن گزرتے گئے لیکن مرض بڑھتا گیا۔ عام ادویات سے اثر نہ ہوا تو کسی اچھے سرکاری ڈاکٹر سے رجوع کیا۔ دن اور رات شدید درد محسوس کررہا تھا۔ سوجن اس قدر بڑھ گئی کہ اب چہرہ ہی عجیب اور ٹیڑھا محسوس ہونے لگا۔ نہ نیند آتی نہ جاگنے  میں سکون تھا۔ اب کی  بار  بھی ویسا ہی ہُوا کہ سرکاری ہسپتال کے ڈاکٹر نے شہر کے بڑے ہسپتال جانے کا مشورہ دیا۔ میں اس وقت پاس ہی تھا جب ڈاکٹر میرے بڑے بھائی  کو ،جو مجھے ہسپتال لائے تھے، بتانے لگے کہ مرض بڑھ چکا ہے۔ اور یہ شدید تیز وائرس اب دماغ کی طرف جارہا ہے۔ یہ بات میرے کانوں میں  پڑی  تو ایک لمحے کیلئے میں سُن ہوکر رہ گیا۔

پچھلی بار میں نے والدہ کے علاج کے دوران زندگی کو قریب سے دیکھا لیکن اس وقت موت  میے سامنے رقصاں تھی۔ دل ہی دل میں تیاری کرچکا تھا کہ بس اب میرا وقت بھی آن پہنچا ہے۔ تمام تسلیاں دم توڑ چکی تھیں۔ مجھے اب اپنا ماضی قریب یاد آنے لگا کہ جب میں والدہ کو  میو ہسپتال  لے گیا تھا۔ شاید   وہ  سب کچھ دہرایا جانے والا ہے۔ اور اب کی  بار میری والدہ نہیں بلکہ میں خود ہی مریض ہوں۔ اب وہی سلسلہ دوبارہ شروع ہونے والا ہے۔ ٹریٹمنٹ چلے گا اور اسی دوران میں خالق حقیقی سے جا ملوں گا۔ پہلے والدہ کی موت کا   صدمہ مشکل سے   کم ہوا ہی تھا کہ میں خود اب کسی مہلک  مرض سے دوچار ہوچکا تھا۔ میو ہسپتال کا وہ سارا منظر ابھی میرے دماغ میں مجھے اذیت میں مبتلا کر رہا   تھا  ۔

Advertisements
julia rana solicitors london

مرض شدید سے شدید  تر ہوگیا۔ بستر سے اب میں اٹھ نہیں پاتا تھا۔ نہ بولا جاتا تھا۔ شہر کے بڑے ہسپتال جانے سے پہلے میں نے اپنے بڑے بھائی کو اپنی ہی تحصیل کے معروف کلینک جس سے میں پہلے بھی ادویات وغیرہ لیتا رہتا تھا جانے کو کہا۔ سردیوں کا موسم تھا اور گرم چادر پورے جسم  پر اوڑھ رکھی تھی۔ جب باری آئی تو چادر ہٹا کر ڈاکٹر کو دکھایا۔ ڈاکٹر نے کچھ زیادہ توجہ نہ دی اور کچھ اینٹی بائیوٹکس  لکھ دیں ۔ مجھے لگا شاید ڈاکٹر کی سمجھ میں بات نہیں آئی۔ اب تو مجھے یقین ہوچکا تھا کہ بس اب مجھے موت کی تیاری کرنی ہے۔۔ دوائی وغیرہ لے کر گھر آگئے۔ گھر واپسی سفر کے دوران میرے زہن میں عجیب عجیب خیالات آرہے تھے۔ لگتا تھا بس اب سانسیں رکنے والا  ہے ۔  آنکھیں بند ہونے والی ہے۔ گھر آتے  ہی پہلے دن کی دوائی لی تو بہت زیادہ آرام آیا۔ اب ساتھ ساتھ ایک امید کی کرن جاگی کہ شاید اس دوائی سے آرام آجائے گا۔ تین دن دوائی لی تو سوجن اور درد کم ہوگئی۔ ایک ہفتے بعد مکمل صحت یاب ہوگیا۔ دل ہی دل میں خدا کا شکر ادا کیا۔ شاید یہ خدا کی مجھ پر وقتی مہربانی تھی ۔ میں اب بھی ہزار دفعہ ان دنوں کو بھلا دینے کی کوشش کرتا ہوں لیکن وہ اتنے عجیب دن تھے کہ ان کے گہرے نقوش آج بھی میرے دماغ میں موجود ہیں۔ اس سارے واقعے کو میں خدا کی آزمائش کا نام دوں یا زندگی اور موت کی حقیقت پالینے کی نعت؟

Facebook Comments

محمد یاسین
محمد یاسین ایک مصنف ہیں۔ وہ مزہب اور سوشل سائنس میں گہری دلچسپی رکھتے ہیں۔ facebook.com/myasinhpk1

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply