بیانیے اور شناخت کے بحران/حیدر سیّد جاوید

تاریخ و سیاسیات اور صحافت کے طالب علم کے لئے یہ امر باعثِ حیرت ہے کہ بٹوارے کے 75سال بعد بھی ہمارے ہاں”قومی بیانیہ” کی تلاش جاری ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اگر 75برس قومی بیانیہ کے نام پر سرابوں کے تعاقب میں گزاردیئے ہیں تو چوتھائی صدی مزید برباد کرلینے میں کیا ہرج ہے۔

ذرا سنچری (صدی) پوری ہوجائے پھر اس وقت جو بچ رہیں وہ مل بیٹھیں اور تلاش کریں۔ اچھا یہ تلاش دو طرح کی ہوگی اولاً اس قوم کی جس کا بیانیہ تشکیل دینا ہے۔ ثانیاً بیانیہ کی۔

حیران نہ ہوں وضاحت سے عرض کئے دیتا ہوں ہم اور آپ جس جغرافیائی حدود میں آباد ہیں کئی ہزاریوں تک اس کی شناخت انڈس ویلی کے طور پر رہی یعنی کبھی ہند اور سندھ ہوتے تھے۔ پھر متحدہ ہندوستان بن گیا اور اگست 1947ء کے حالات میں متحدہ ہندوستان دو نئے ملکوں میں بٹ گیا۔ ویسے آجکل یہاں تین ملک ہیں۔ بھارت، بنگلہ دیش اور پاکستان۔

پاکستان جس جگہ قائم ہے یہ قدیم انڈس ویلی ہے۔ اسی سرزمین میں کئی ہزارویوں سے پشتون، پنجابی، بلوچ، سندھی اور سرائیکی قومی شناخت کی حامل قومیں بستی ہیں۔ اپنی قدیم تہذیبوں، ثقافت، سماجی اقدار اور علمی و تاریخی ورثے کی حامل ان اقوام کی سرزمین پر 15اگست 1947ء کو پاکستان بن گیا (ابتدائی طورپر یہ مغربی پاکستان کہلایا کیونکہ بنگال کی تقسیم کی صورت میں اس کا مشرقی حصہ مشرقی پاکستان کہلایا)۔

اصولی طور پر ہونا یہ چاہیے تھا کہ نئی مملکت کی عالمی شناخت اور دیگر معاملات کے حوالے سے یہاں کی مقامیت، تاریخ اور دوسرے امور کو مدنظر رکھا جاتا لیکن ایسا نہیں ہوا۔ ابتداء میں کہا گیا کہ چونکہ متحدہ ہندوستان کی ہندو اکثریت مسلم اقلیت کے سیاسی معاشی اور سماجی حقوق دبالیتی اس لئے پاکستان بنانا ضروری تھا۔ پھر 1948ء میں ایک قرارداد مقاصد آگئی جس سے پتہ چلا کہ مسلمانوں کو اپنے دین اورثقافت وغیرہ کے تحفظ کے لئے ایک مملکت کی ضرورت تھی اس لئے پاکستان بنانا پڑا۔

یوں بات سیاسی معاشی اور سماجی حقوق سے دینی و ثقافتی اور دیگر امور تک پہنچ گئی۔ سادہ لفظوں میں اگر یہ کہا جائے کہ جناح صاحب نے 11اگست 1947ء میں دستور ساز اسمبلی کے افتتاحی اجلاس میں جو تقریر کی تھی وہ نئی مملکت کا بیانیہ تھا لیکن قرارداد مقاصد کی منظوری اور لیاقت علی خان کی جانب سے اس کی ہمنوائی نے مملکت کے بانی کے بیانیہ کے پڑخچے اڑاکر رکھ دیئے تو یہ غلط نہیں ہوگا۔

تمہید طویل ہوگئی یہ ساری باتیں کچھ کیں اور کچھ یاد آگئیں۔ اس دن جب چند روز قبل برادرم احمد سہیل نصراللہ کے توسط سے لاہور کی یونیورسٹی آف مینجمنٹ اینڈ ٹیکنالوجی (یو ایم ٹی) کے “سکول آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن” میں قومی بیانیہ اور میڈیا وار کا مقابلہ کے عنوان سے ایک مکالماتی نشست میں شرکت کی دعوت ملی۔

ابتداً تو یہی سوچا کہ یونیورسٹی نہ جایا جائے اس کی ایک وجہ اس طرح کی تقریبات میں شرکت سے گریز ہے کیونکہ جہاں”سرکار” کسی نہ کسی طرح موجود ہو وہاں وہی روایتی حب الوطنی کے سودے بیچے جاتے ہیں۔

دوسری وجہ چند برس قبل پنجاب یونیورسٹی کے ایک شعبہ میں یوم امام حسینؑ کی مناسبت سے منعقدہ پروگرام میں شرکت کے بعد وائس چانسلر اور یونیورسٹی کے اندر “دور” تک رسائی رکھنے والے خفیہ محکموں کا سیخ پا ہونا تھا کہ مجھے کیوں بلایا گیا۔ تب بلانے والے دوستوں کیلئے خاصی مشکل بن گئی تھی۔

برادرم احمد سہیل نصراللہ اور سکول آف میڈیا اینڈ کمیونیکیشن کی سربراہ پروفیسر ڈاکٹر محترمہ انجم ضیاء صاحبہ کے حکم کی تعمیل بہرطور کرنا پڑی۔

یہ مکالماتی نشست یونیورسٹی نے ایک تنظیم کے اشتراک سے منعقد کی تھی اس تنظیم کے سربراہ ریٹائر لیفٹیننٹ جنرل بھی نشست میں موجود تھے۔ انتخاب حنیف، فرخ سہیل گویندی، صہیب مرغوب اور چند دیگر دوستوں سے اس تقریب کے بہانے طویل عرصے بعد ملاقات ہوگئی۔ مکالماتی نشست دو حصوں میں تھی پہلے حصے میں مہمانوں کے علاوہ شعبہ کی سربراہ نے مختصراً گفتگو کی دوسرے حصے میں طلباء و طالبات کے مقررین سے سوالات تھے جن کا جواب دیا گیا۔

نشست کے دونوں حصوں میں یہی عرض کیا کہ پون صدی سے خرابوں کو بہار سمجھنے کی عادت نے ہمیں کہیں کا نہیں رکھا۔ نصاب تعلیم سے ابتداء کیجئے اس میں اس خطے کی مقامیت کتنی ہے۔ حملہ آوروں اور بدیسی تاریخ کے قصے کتنے۔ ہم طالب علم تھے اس وقت سے پوچھ رہے ہیں کہ ہمارے نصاب تعلیم میں”ہم” کہاں ہیں اور دستیاب تاریخ میں ہمارا حصہ کتنا ہے؟

جس ملک کی تاریخ میں اس سرزمین کی ہزاریوں کی تاریخ کو روند کر یہ پڑھایا رٹایا جاتا ہو کہ حملہ آور نجات دہندہ تھے۔ قاتل مسیحا اور غاصب رہنما وہاں کسی ایسے بیانیہ کی تشکیل جو عصری شعور سے عبارت ہو ممکن تو کیا اس کی ضرورت ہی نہیں۔

75سالوں میں چار بار مارشل لاء لگے چاروں بار نیا قومی بیانیہ رٹوایا گیا۔ ایک عدد قومی بیانیہ قرارداد مقاصد کی کوکھ سے تخلیق ہوا۔ مستقل تو کوئی چیز تھی نہ ہے پھر بیانیہ مستقل کیسے ہوتا۔ یہ بھی عرض کیا کہ اب بھی وقت ہے کہ ہم سمجھ لیں کہ عرب و فارس اور ترکی و غرناطہ وغیرہ کی تاریخ ہماری تاریخ نہیں۔

ہمیں اپنی تاریخ اپنی سرزمین میں تلاش کرنا ہوگی۔ مہر گڑھ، ہاکڑہ، ملتان، موہنجو داڑو، ہڑپہ، گندھادارا میں اپنی تاریخ اور ثقافت تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ افسوس کہ مخصوص سوچ کے محروم و مایوس لوگوں نے ہماری تاریخ اور شناختوں کو پامال کرکے پدرم سلطان بود کو رواج دیا۔

گزرے 75 برسوں میں ہم نے ایک لمحہ کے لئے بھی یہ نہیں سوچا کہ اصل سے کم اصل کٹتے ہیں۔ یعنی سادہ لفظوں میں یہ کہ لوگوں کو ان کی حقیقی تاریخ، تہذیب اور شناخت سے کاٹ کر مصنوعی چیزوں پر اکتفا کرنے پر مجبور کردیا گیا یہی ساری خرابی کی بنیاد ہے۔

ہمیں قومی بیانیہ تشکیل دینا ہے تو پھر اپنے اصل کے ساتھ جڑنا ہوگا۔ ہمارا اصل یہ ہے کہ ہم تھے، ہم ہیں، ہم ہوں گے یہی ہماری تاریخ ہے۔ مذہب کی تبدیلی کے ساتھ قومی شناخت بدل جانے کی متھ سے نجات حاصل کرنا ہوگی۔ حملہ آور حملہ آور تھے زمین زادے زمین زادے تھے اور ہیں۔ میرے لئے بہت دلچسپ اور غیرمتوقع نہیں تھا اس نشست میں متحدہ ہندوستان کی تقسیم کے حوالے سے مصنوعی نصاب تعلیم کے رٹو طوطے والے اسباق کا دہرایا جانا نہ اس پر حیرت ہوئی کہ بٹوارے کی نفرتوں میں اپنا حصہ تلاش کرکے اس کا اعتراف کرنے کی بجائے سارا ملبہ ہندوئوں اور کانگریس پر ڈال دینا۔

یہ بدقسمتی سے اس ملک کی عمومی سوچ ہے اور جب ہماری بڑی درسگاہوں میں بھی اسی ریت پریت کی پوجا پاٹ ہوگی تو نئی نسل کو عصری شعور کی دولت کہاں سے ملے گی؟ البتہ اس امر پر خوشی ہوئی کہ طلباء و طالبات نے گفتگو کے شرکاء (مقررین) کو نہ صرف تحمل سے سنا اور ان کے سوالات سے یہ احساس دوچند ہوا کہ طلباء و طالبات نصاب کے علاوہ بھی پڑھتے سنتے ہیں۔

مکرر ان سطور کے توسط سے یہ عرض کرنے میں کوئی امر مانع نہیں کہ ہمارے پالیسی سازوں کو دو کام فوری طور پر کرنا ہوں گے اولاً یہ کہ سکیورٹی اسٹیٹ کے پروپیگنڈے کو ایک طرف رکھ کر قومی نصاب کمیشن اور تاریخ کمیشن بنانا ہوں گے۔

قومی نصاب کمیشن، نصاب تعلیم کو عصری ضرورتوں کے ساتھ ہم آہنگ کرنے کے ساتھ ساتھ اس میں مقامیت کا رنگ بھی بھرے تاکہ ہماری نئی نسلیں یہ جان پائیں کہ ہم دنیا کی ان قدیم تہذیبوں کے وارث ہیں جو اپنے اپنے وقت کی جدید ترین تہذیبیں تھیں۔

تاریخ کمیشن، ہماری تاریخ میں ہمیں لائے یعنی اس خطے کی تاریخ کو۔

یہ سطور لکھتے ہوئے یاد آیا کہ ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں ہسٹری کمیشن بنایا گیا تھا ابتدائی کام بھی ہوا پھر جنرل ضیاء کا مارشل لاء آگیا اس مارشل لاء کے گیارہ سالہ دور میں وہی قرارداد مقاصد، دو قومی نظریہ، نظریہ پاکستان اور مسلم ہیں ہم سارا جہاں ہمارا کے سودے فروخت ہوئے، ان سودوں کے سٹاکسٹوں نے ہسٹری کمیشن بند کروادیا۔ نتیجہ کیا نکلا ہم آج بھی بیانیہ اور شناخت کے بحرانوں سے دوچار ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ہماری نسل کے اہل دانش کے ساتھ آج کے پالیسی سازوں کو سوچنا چاہیے کہ بیانیہ اور شناخت کے بحران اگلی نسلوں کو ورثے میں دینے ہیں یا انہیں اپنے ہونے کا شعور اور فخر؟

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply