آج کے استعمار کی شناخت/شاکر ظہیر

پندرھویں صدی میں دنیا میں طاقت کا توازن تبدیل ہونا شروع ہوا ،تو مغربی ممالک  نے دنیا میں نکل کر مشرقی اور افریقہ کے ممالک کو اپنے زیرِ  قبضے لانا شروع کیا ۔ اس کی اہم وجہ وہاں کے وسائل کو اپنے تصرف میں لانا تھا ۔ اس کے اثرات صرف زیرِ  قبضہ ممالک کی معیشت پر ہی نہیں بلکہ وہاں کی تہذیب و تمدن ، ثقافت اور زبان پر بھی پڑے ۔ یہ وہ چیزیں ہیں جن کی تشکیل کےلیے صدیوں کا سفر درکار ہوتا ہے ۔ اس نے شناخت کا بحران بھی پیدا کیا ۔ بہت سے محکوموں کو دوسرے مقبوضہ علاقوں میں بھی لے جایا گیا ۔ جیسے برصغیر کے بہت سے لوگوں کو گنے کی کاشت کےلیے مختلف نوآبادیاں علاقوں میں لے جایا گیا کیونکہ دنیا میں چینی کی بہت بڑی مانگ پیدا ہو چکی تھی ۔ اس عمل کےلیے نو آبادیاتی نظام کی اصطلاح استعمال کی گئی  ، لیکن اس سے جو اثرات مرتب ہوئے اس کو بیان کرنے کےلیے یہ ” نو آبادیاتی نظام ” کا لفظ ناکافی تھا ۔ اس لفظ سے اس پورے ظلم کی تصویر سامنے نہیں آتی ۔ جب تک کسی عمل کےلیے کسی زبان میں لفظ موجود نہ ہو تو وہ زبان اس عمل کی شدت کو بیان کرنے سے قاصر ہوتی ہے ۔ جیسے یہود پر جو مظالم جرمنی میں ڈھائے گئے اس کےلیے انہوں نے نسل کشی یا ظلم کے لفظ کو ناکافی سمجھا ۔ وہ اس کےلیے ایک نیا لفظ لے کر آئے ” ہولو کاسٹ ” اس لفظ کو ادا کرتے ہی اس ظلم کی ساری داستان نظروں کے سامنے آ جاتی ہے جیسی کہ حقیقت میں تھی یا انہوں نے دنیا کو بیان کی ۔ اس نو آبادیاتی نظام کےلیے بھی استعمار اور استعماریت کا لفظ تخلیق کیا گیا ۔ اس عمل کےلیے اخلاقی جواز بھی تراشا گیا ہے کہ زیرِ  قبضہ ممالک کے لوگوں کو نئی تعلیم سے روشناس کروانا اور ان کو جدید سہولیات بہم پہنچا کر ان کی پسماندگی کو دور کرنا ہے ۔ دوسرے لفظوں میں انہوں نے خود کو محکوموں کے ہمدرد اور مددگار کے طور پر پیش کیا ۔

برصغیر کو بھی انگریز نے اپنے قبضے میں لیا اور یہاں کے وسائل پر قبضہ کیا ۔ اس قبضہ کی وجوہات میں سب سے اہم وجہ مقامی نظام کی کمزوری تھی جس نے انگریز کو موقع دیا ۔ انگریز جب برصغیر میں داخل ہوئے تو وہ بہت تھوڑی تعداد میں تجارت کےلیے آئے تھے ۔ لیکن ساتھ ساتھ انہوں نے مقامی لوگوں سے اپنی حفاظت کے نام پر فوج بھی بھرتی کرنا شروع کر دی تھی ۔ یہی مقامی فوج ہی مقامی ریاستوں کے خلاف لڑی ۔ مقامی لوگوں کی فوج میں بھرتی کی وجہ انتشار تھا جو مختلف ریاستوں کی آپس کی چپقلش کی وجہ سے پیدا ہوا ۔ اس انتشار نے امن و امان کی صورت حال کو خراب کیا جس سے کاروبار زندگی شدید متاثر ہوا، لوگ بے روزگار ہو گئے ۔ اس کے علاوہ انگریز نے ان کے وسائل روزگار کو بھی اپنے کنٹرول میں لیا ۔ اب ان بے روزگاروں کےلیے جہاں کہیں سے روزی روٹی کا بندوبست ہو سکتا تھا وہ کرتے ۔ اس مقامی فوج کو انگریز نے اپنی ان ضروریات کے مطابق تربیت دی جو اس کے قبضے کو برقرار رکھ سکے اور ان کے فائدے کےلیے کام کر سکے ۔

1947 کے بعد انگریز اس علاقے کو چھوڑ کر چلے گئے اس کی وجوہات میں بین الاقومی حالات اور ان ممالک میں ان کے خلاف اٹھنے والی بغاوتیں تھیں۔ یعنی مقامی لوگ استعمار کو پہچان گئے تھے ۔ اب استعمار کو اپنا طریقہ کار تبدیل کرنے کی ضرورت محسوس ہوئی ۔ چھوڑتے وقت وہ ملک کی باگ دوڑ اپنے تربیت یافتہ مقامی لوگوں کے سپرد کر دی  اور ساتھ ہی یہ انگریز کی تربیت یافتہ فوج بھی دو حصّوں میں تقسیم ہو گئی جو اس انگریز کے استعمار کی محافظ تھی ۔

انگریز کی موجودگی میں استعمار کی پہچان اس کے چہرے سے کی جا سکتی تھی کہ کراچی ، لاہور یا کہیں بھی  کوئی ایک انگریز اگر جا رہا ہے تو چہرہ دیکھ کے کہا جا سکتا تھا کہ یہ استعمار ہے ۔ لیکن آج کے دور میں استعمار نے اپنا طریقہ کار تبدیل کر لیا ۔ اس نے بجائے خود سب کچھ کرنے کے اپنے ایجنٹ پیدا کیے اور انہیں مختلف کام سونپے ۔ یہ ایک تہہ در تہہ چکر ہے جس میں ہر ایک کے ذمہ مختلف کام ہیں ۔ اس لیے اب استعمار کی پہچان اس کے چہرے سے نہیں ہو سکتی بلکہ چار اعمال ہیں جو استعمار کے ساتھ خاص ہیں ۔
1- سب سے پہلے وہ آپ کی معیشت کو اپنے قبضے میں لے گا ۔ یا اسے کنٹرول کرے گا ،یعنی اس کا معیشت میں عمل دخل اس حد تک ہو گا کہ اسے کسی بھی نہج پر لے جا سکے ۔

2- وہ خود کو آپ سے برتر اور آپ کو کمتر کہے گا ، یعنی وہ یہ صلاحیت رکھتا ہے کہ تمام معاملات کو چلا سکے ورنہ ہم میں یہ صلاحیت بالکل نہیں ۔ اگر وہ نہیں ہو گا تو ہم نا  صرف یہ کہ ترقی نہیں کر سکتے بلکہ ہمارا وجود خطرے میں پڑ سکتا ہے ۔ وہ ہی ہمارا مسیحا اور محافظ ہے جو خطرات سے ہمیں بچا رہا ہے ۔ وہ جاگتا ہے تو ہم سکون کی نیند سوتے ہیں ۔ دوسرے لفظوں میں وہ اپنے قبضے کےلیے اخلاقی جواز کی تشکیل کرے گا ۔

3- وہ آپ کو مختلف بنیادوں پر تقسیم کرے گا ۔ کبھی فرقے کی بنیاد پر اور کبھی علاقے اور زبان و نسل کی بنیاد پر ۔ وہ کبھی کوئی ایشو ایسا نہیں دے گا جس کی بنیاد پر قوم اس کے مفاد کے خلاف اکٹھی ہو سکے ۔ جب پہلے سے کی ہوئی تقسیم اسے ناکافی محسوس ہو گی تو مزید تقسیم کےلیے ایشو اٹھانا شروع کر دے گا ۔

4- وہ خود یہ طے کرے گا کہ آپ نے کس سے بات کرنی ہے اور کس سے نہیں ۔ جہاں آپ اپنی قوم کے مفاد کے حوالے سے کسی دوسری قوم سے بات چیت شروع کریں گے وہ اپنا منصوبہ لانچ کرکے فریقین کے درمیان اعتماد کی فضا کو ختم کر دے گا ۔

Advertisements
julia rana solicitors

یہ چار بنیادی باتیں ہیں جن سے آج کے دور میں استعمار کی پہچان ہو سکتی ہے ۔ ان بنیادی باتوں کا اطلاق ہم مقامی ,ملکی سطح سے لے کر بین الاقوامی سطح تک کر سکتے ہیں ۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply