فریڈرک ہیگل/مبشر حسن

ہیگل کی پیدائش ہوئی 1770 عیسوی میں اور وفات ہوئی 1831 عیسوی میں ؛
جرمنی سے اس کا تعلق تھا۔جرمن معروضی عینیت پسند (Objective Idealist) فلسفی جارج وبلم فریڈرک ہیگل انیسویں صدی کے اہم ترین مفکرین میں شمار ہوتا ہے ۔ وہ 27 اگست 1770 ءکو stuttgart میں ایک ریو نیو افسر کے گھر پیدا ہوا۔ اس کی پرورش پروٹسٹنٹ زہد وتقوی کے ماحول میں ہوئی اور Stuttgart جمنازیم میں پڑھنے کے دوران یونانی و رومن کلاسیکی تحریروں سے متعارف ہوا۔ باپ اسے کلیسیائی آ دمی بنانا چاہتا تھا۔لہذاوہ 1788ء میں بنگن یو نیورسٹی کی Seminary میں داخل ہوا۔ وہاں اس کی دوستی شاعر فریڈرک ہولڈرلن اور فلسفی فریڈرک ولیم شیلنگ سے ہوگئی ۔فلسفہ اور دینیات میں ایک کورس مکمل کر نے اور منسٹری میں نہ جانے کا فیصلہ کر نے کے بعد وہ 1793ء میں سوئٹزرلینڈ گیا اور پرائیویٹ اتالیق بن گیا ۔
1797ء میں اس نے فرینکفرٹ میں ایسا ہی ایک عہد ہ لیا ۔ دوسال بعد باپ کی وفات پر اسے ترکے میں اتنی دولت مل گئی کہ جوفکر معاش سے آزادی دلا نے کے لیے کافی تھی۔
1801ء میں ہیگل جینا یو نیورسٹی میں گیا۔ وہاں مطالعہ کیا لکھا اور انجام کارلیکچر بن گیا۔ وہیں پر اس نے ذہن کی مظہر یت (“Phenomenology of Mind”) مکمل کی
جو اس کی اہم ترین کتب میں سے ایک ہے ۔ وہ اکتوبر 1806 ء تک جینا میں رہا جب فرانسیسی
اس شہر پر قابض ہو گئے اور ا سے راہ فرار اختیار کرنا پڑی اپنے باپ کی چھوڑی ہوئی جائیداد ختم ہو جانے کے بعد وہ بواریا میں ایک جریدے کا ایڈیٹر بنا۔ تا ہم صحافت زیادہ پسند نہ آئی اور نیورنبرگ جا کر آ ٹھ سال تک ایک جمنازیم میں بطور ہیڈ ماسٹر کام کرتارہا۔
نیورنبرگ میں ہی قیام کے دوران ہیگل میری واں ٹکر سے ملا اور اس سے شادی کر کے تین بچوں کا باپ بنا۔ شادی سے پہلے وہ ایک ’نا جائز‘‘ بیٹے کا باپ بھی بن چکا تھا۔
1812 ء سے 1816ء کے دوران اس نے ’’ منطق کی سائنس‘‘ شائع کی ۔ 1816ء میں وہ یونیورسٹی آف ہیڈلبرگ میں پروفیسر تعینات ہوا۔ کچھ عرصہ بعد اس کی کتاب’’انسائیکلو پیڈیا آف دی فلاسفیکل سائنسز ان آؤٹ لائن‘‘ شائع ہوئی ۔ 1818 ء میں اسے برلن یو نیورسٹی میں پڑھانے کی دعوت ملی اور 14 نومبر 1831 ء کو وفات تک وہیں رہا۔
ہیگل عہد جوانی میں ایک انقلابی تھا۔ اس نے اٹھارویں صدی کے انقلاب فرانس کو خوش آمدید کہا اور پروشیائی بادشاہت کے جاگیردارانہ نظام کے خلاف بغاوت کی لیکن نپولین کی شکست کے بعد سارے یورپ میں آنے والے انحطاط نے ہیگل کے انداز فکر کو بھی متاثر کیا۔ اس کا فلسفہ بورژوازی انقلاب کے دہانے پر کھڑے جرمنی کی متفاوت ترقی کا عکاس ہے؛ اس نے ابھرتی ہوئی جرمن بورژوازی سے تحر یک حاصل کی اور ہیگل اس بورژوازی کا نظریہ ساز بن گیا۔ تاہم اس کے فلسفے کے ترقی پسندانہ اور حتی کہ انقلابی رجحان نے ایک طرف ہم عصر یورپ کا انقلابی مزاج منعکس کیا اور دوسری طرف اس کے رجعت پسندانہ خیالات جرمن بورژوازی کی بزدلی اور نا موافقت کے عکاس ہیں۔
ہیگل کی عینیت پسندی اس کی تمام تحریروں میں واضح ہے۔ کارل مارکس نے’’ذہن کی مظہر یت‘‘ کو’ہیگلی فلسفہ کا اصل سرچشمہ اورکنجی‘‘ قرار دیا۔ اس میں ہیگل انسانی
شعور کا ارتقاء۔۔۔ پہلی شعوری علامات سے لے کر سائنس کی شعوری ترقی تک— بیان کرتا ہے۔ کتاب میں بے گانگی کی ایک کیٹگری کا تجز میں شامل ہے ۔ اس نے انسان اور اس کی تاریخ کو اس کے کام کا نتیجہ تصور کیا۔ اس میں ہیگل کی جدلیات کے بنیادی اصول سوچ اور فکر کی مشابہت کی استدلالی توضیح اور ساری دنیا کی بنیاد اور جوہر کے طور پر خودروعین مطلق کا تصور بھی موجود ہے۔
ہیگل کی مطلق ( معروضی ) عینیت کا نظام دلیل دیتا ہے کہ تمام فطری اور ساجی مظاہر کی بنیاد مطلق پر ہے— روح اور منطق میں مطلق دنیاوی استدلال یا دنیاوی روح۔ یہ مطلق فعال ہے اس کی فعالیت سوچ یا زیادہ درست طور پر خودشناسی پرمبنی ہے ۔عین مطلق تین مراحل میں ترقی پا تا ہے۔
(1) عین کی اپنی ہی ذات میں ترقی ‘‘’ خالص فکر کے عصر‘‘ میں، یعنی منطق جس میں عین خود کو منسلک اور ملحق کیٹگریز میں آشکار کرتا ہے ۔
(2) عین کی ’’ دوسری ہستی‘‘ کی صورت میں ترقی، فطرت کی صورت میں، یعنی فطرت کا فلسفہ۔ ہیگل کے مطابق
فطرت ترقی نہیں پاتی یہ محض روحانی جو ہر پرمشتمل منطقی کینگریز کا خار جی اظہار ہے ۔
(3) عین کی سوچ اور تاریخ میں ترقی روح میں ترقی یعنی روح کا فلسفہ ۔ اس مرحلے پر عین مطلق اپنے اندر پسپا ہوکر اپنے مواد (Content) کوانسانی استدلال اور فعالیت کی مختلف صورتوں میں آ شکار کرتا ہے۔ ہیگل نے کہا کہ اس کے نظام نے مطلق عین کی خودترقی (Self-Development) کو
مکمل کر دیا اور ساتھ ہی ساتھ اسے خود آ گاہ بھی کیا۔
اوپر بیان کردہ خیالات شاید سمجھنے میں مشکل کا باعث بنیں ۔ آیئے انہیں ایک اور طریقے سے بیان کر نے کی کوشش کرتے ہیں۔
دراصل ہیگل کا مقصد ایک اتنا جامع فلسفیانہ نظام پیش کرنا تھا کہ جو اس کے پیش روؤں کے تمام نظریات کا احاطہ کر لے اور ایک تصوراتی ڈھانچہ تخلیق کرے جس کے ذریعہ ماضی اور مستقبل دونوں کو فلسفیانہ لحاظ سے سمجھا جا سکے ۔ اس کام کے لیے’’حقیقت‘‘ کے بھر پور بیان کی ضرورت تھی۔ چنانچہ ہیگل نے فلسفے کا موضوع بحیثیت مجموعی حقیقت کو تصور کیا۔ یہ حقیقت یا ساری موجودات کا مجموعی ترقیاتی عمل ہے ۔ وہ
اسے مطلق یا مطلق روح کے طور پر بیان کرتا ہے۔اس کے مطابق فلسفے کا مقصد مطلق روح کی ترقی کا خاکہ پیش کرنا ہے۔ اس کے مندرجہ ذیل تین مراحل ہیں— (1) مطلق کا داخلی منطقی ڈھانچہ واضح کرنا ۔ (2) فطرت اور انسانی تاریخ میں مطلق کے خود کو آشکار کرنے کا انداز دکھانا۔ اور (3) مطلق کی غائتی فطرت کی وضاحت یعنی مطلق جو مقصد رکھتا ہے اس کو عیاں کر نا۔
ہیگل کی جدلیات فلسفہ کے میدان میں ایک قابل قدر تصور ہے۔مطلق کے منطقی ڈھانچے کے حوالے سے ہیگل قدیم یونانی فلسفی پار مینائیڈز کی پیروی میں دلیل دیتا ہے کہ
’’ جو کچھ منطقی ہے وہ حقیقی ہے اور جو کچھ حقیقی ہے وہ منطقی ہے ۔‘‘ اس نے دعوی کیا کہ’’مطلق‘‘
کوحتمی طور پر خالص فکر ( فکرمحض ) یا روح یا ذہن سمجھنا چاہیے جو خو دترقی کے عمل میں ہے ۔ اس ترقیاتی عمل پر حاوی منطق جدلیات (Dialectic) ہے ۔ جدلیاتی طریقہ کار میں یہ نقطہ نظر شامل ہے کہ حرکت یا عمل یا ترقی متضادات کے ٹکراؤ کا نتیجہ ہے ۔ روایتی طور پر ہیگل کے اس
فکری پہلو کا تجزیہ تھیسس اینٹی تھیسس اور سنتھیسس کی کیٹگریز میں کیا گیا ہے ۔ اگر چہ ہیگل نے ان اصطلاحات سے گریز کیا، لیکن یہ اس کے تصور جدلیات کو سمجھنے میں مددگار ہیں ۔ چنانچہ
تھیسس ایک تصور یا تاریخی لمحہ ہوسکتا ہے ۔ اس قسم کا تصور ( عین ) اپنے اندر نامکمل بن رکھتا ہے جو مخالفت یا اینٹی تھیس متضاد تصور یا حرکت کو ابھارتا ہے ۔ ٹکراؤ کے نتیجے میں تیسرا مرحلہ یعنی سنتھیسس جنم لیتا ہے جو اینٹی تھیسس اور تھیسس میں شامل سچائی کو زیادہ بہتر سطح پر با ہم مرتب کر کے ٹکراؤ کوختم کرتا ہے ۔ یہ سنتھیسس خود بھی ایک نیا تھیسس بن جا تا ہے جو ایک اور اینٹی تھیسس پیدا کرتا ہے اور یہ سلسلہ اسی طرح چلتا رہتا ہے ۔ یہ عقلی یا تاریخی ترقی کا انداز عمل ہے ۔ ہیگل نے سوچا کہ مطلق روح ( حقیقت کا مجموعہ ) خود بھی جدلیاتی انداز میں ترقی پاتے ہوئے ایک حتمی منزل یا مقصد کی طرف بڑھتی ہے۔
چنانچہ ہیگل کی نظر میں حقیقت کو خودترقی کے عمل میں جدلیاتی طور پر آشکار ہوتے ہوئے مطلق کے طور پر سمجھا جا سکتا ہے۔ اس ترقی کے عمل میں مطلق خود کو فطرت اور انسانی تاریخ دونوں میں منکشف کرتا ہے۔ محدود اذہان اور انسانی تاریخ مطلق کے ہی مظہر ہیں ۔ یقیناً مطلق حقیقت کو سمجھنے میں انسانی ذہن کی بڑھتی ہوئی تفہیم کے ذریعہ خود کو جانتا ہے۔ ہیگل نے اس انسانی تفہیم کی ترقی کو تین سطوحات کے حوالے سے بیان کیا: آرٹ مذہب اور فلسفہ۔
آرٹ مطلق کا مادی صورتوں میں ادراک کرتا اور خوبصورتی کی حسیاتی صورتوں کے ذریعہ منطقی کی تعبیر کرتا ہے۔
مذہب تشبیہات اور علامات کے ذریعہ مطلق کو جانتا ہے۔ ہیگل کی نظر میں اعلی ترین مذہب عیسائیت ہے ۔ تاہم فلسفہ مطلق کو استدلالی انداز میں سمجھنے کے باعث بالاترین حیثیت کا حامل ہے۔ ایک مرتبہ یہ منزل حاصل ہو جاۓ تو مطلق مکمل خود آ گہی حاصل کر لیتا ہے اور کائناتی ڈرامہ اپنی منزل پر پہنچ جا تا ہے۔ ہیگل نے صرف اسی نقطے پر مطلق کو خدا کے ساتھ شناخت کیا۔ اس نے کہا‘’’خدا صرف اس حد تک خدا ہے جس حد تک وہ خود آ گاہ ہوتا ہے۔‘‘
ہیگل کی جدلیات اس کے عینیت پسندانہ فلسفے کے ساتھ میل نہیں کھاتی۔ اس کی عینیت پسندی اور بورژوا حدود نے اُسے اپنے جدلیاتی نظریات سے انحراف پر مائل کیا۔ وہ جدلیات کو سماجی حالات پر لاگو کرنے کے قابل نہ ہو سکا۔ اپنی موت کے وقت وہ جرمنی کا ممتاز ترین فلسفی تھا۔ اس کے نظریات وسیع پیمانے پر پڑھائے گئے اور اس کے شاگردوں کو عزت ملی۔ اس کے پیرو کار دائیں اور بائیں بازو میں بٹ گئے۔ دینیاتی اور سیاسی طور پر دائیں بازو والوں نے اس کے کام کی رجعت پسندانہ تعبیر پیش کی اور فلسفہ ہیگل اور عیسائیت کے درمیان مطابقت پر زور دیا۔ بائیں بازو کے ہیگلیوں نے انجام کارملحدانہ روش اپنائی۔ سیاست میں ان میں سے متعدد انقلابی بے مثلاً لڈوگ فوئر باخ، فریڈرک اینگلس اور کارل مارکس شامل تھے۔ اینگلس اور مارکس نے ہیگل کے اس تصور کا زبردست اثر لیا کہ تاریخ جدلیاتی انداز میں آگے بڑھتی ہے لیکن انہوں نے ہیگل کی فلسفیانہ عینیت کو مادیت کے ساتھ بدل دیا ۔
انیسویں میں اور 20 ویں صدی کے برطانوی فلسفہ پر ہیگل کی مابعد الطبیعیاتی عینیت نے زبردست اثر ڈالا ۔۔۔مثلا فرانسس ہربرٹ بریڈلے اس کے علاوہ امریکی یوسیاہ رائس اطالوی
بینیڈ یٹوکرو کے بھی متاثر ہوئے ۔سورین کیرکیگارڈ کے توسط سے وجودیت بھی اس سے متاثر نظر آتی ہے ۔ شعور کے بارے میں ہیگل کے خیالات نے مظہریت(Phenomenology) میں جگہ پائی ۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply