اتفاق یا توفیق ؟-ڈاکٹر نوید خالد تارڑ

گاڑی والے نے مجھے ایک سٹاپ پہلے ہی اتار دیا تھا ، میں بھی بے دھیانی میں اُتر گیا۔ پھر دیکھا تو منزل ابھی آگے تھی لیکن جانے کیا خیال آیا کہ دوبارہ گاڑی میں بیٹھنے کے بجائے دس پندرہ منٹ کی چہل قدمی کرنا زیادہ بھایا۔ گاڑی والا رخصت ہوا اور میں پیدل منزل کی طرف چل دیا۔

یہ اسلام آباد کا ایک پوش علاقہ تھا۔ میں مرکزی سڑک سے ہٹ کر گلیوں میں بنی کشادہ سڑکوں سے گزر رہا تھا کہ ایک پچیس چھبیس سال کا نوجوان کھڑا نظر آیا۔ پریشان سا چہرہ ، ہاتھ میں بٹنوں والا فون اور گھبرائے ہوئے انداز میں مسلسل دائیں بائیں دیکھ رہا تھا۔

میں پاس پہنچا تو اس نے آگے بڑھ کر پوچھا کہ یہ کون سا ایریا ہے۔ میں نے بتایا تو اس نے آگے فون پہ کسی کو بتا دیا۔ پھر میری طرف فون بڑھا دیا کہ ذرا بات کیجیے گا۔ فون کی دوسری طرف کوئی ادھیڑ عمر آدمی ہو گا۔ اس نے پوچھا کہ یہ لڑکا کہاں کھڑا ہے؟ میرے بتانے پہ بولا اسے کہو بائیکیا لے کر فلاں جگہ پہ آ جائے۔ یہ کہہ کر اس نے فون کاٹ دیا۔

میں نے نوجوان کو فون واپس کیا اور بتایا کہ اسے کس جگہ جانا ہے۔ اس نے سر ہلا کر اشارہ کیا کہ ٹھیک ہے۔ میں آگے بڑھ گیا ، کچھ دور جا کر پلٹ کر دیکھا تو وہ وہیں کھڑا ادھر اُدھر دیکھے جا رہا تھا۔ میں واپس آیا اور پوچھا کہ رستے کا پتا ہے ؟
اس نے کہا “نہیں ، رستے کا بھی نہیں پتا اور یہ بھی نہیں پتا کہ جانا کیسے ہے۔ میں بہت دیر سے یہاں کھڑا ہوں ، کوئی گاڑی والا تو رک کر بات ہی نہیں سنتا اور مجھے سمجھ ہی نہیں لگ رہی کہ جاؤں کیسے۔”

اس کے پاس بٹنوں والا فون تھا، اسے آن لائن رائیڈ وغیرہ بُک کروانے کے معاملات کا بھی اندازہ نہیں تھا۔ میں نے اپنے موبائل سے آن لائن بائیک کی رائڈ بُک کروا دی اور اسے سمجھانے لگا کہ کہاں جانا ہے اور وہاں پہ مطلوبہ جگہ کیسے ڈھونڈنی ہے کیونکہ اندازہ ہو رہا تھا کہ وہ نیا بندہ ہے اور اسے یہاں کے متعلق کچھ نہیں پتا۔ اسے اپنا فون نمبر دے دیا کہ کوئی مسئلہ ہو تو مجھے فون کر لینا۔ کچھ دیر بعد بائیک والا آ گیا تو بائیک والے کو سمجھا دیا کہ اسے رستے کا نہیں پتا ، اسے فلاں مقام پہ اتار دینا۔ وہ نوجوان میرا شکریہ ادا کرتا ہوا رخصت ہو گیا اور میں آن لائن رائیڈ میں لوکیشن چیک کرتا رہا کہ وہ درست مقام پہ پہنچا کہ نہیں۔

دن ڈھلا ، کام سے فرصت ملی تو بیٹھے بیٹھے خیال آیا کہ کیا یہ اتفاق تھا کہ مجھے آج پہلی دفعہ گاڑی والے نے ایک سٹاپ پیچھے اتار دیا اور میں بھی اتر کر دوبارہ گاڑی میں بیٹھنے کے بجائے پیدل ہی چل پڑا۔ اور وہیں رستے میں کوئی انسان مدد کی تلاش میں کھڑا مل گیا۔

کیا یہ سب اتفاق تھا یا قدرت کی طرف سے پلان کیا گیا نظام تھا۔ وہ خدا جو پتھر کے اندر بھی چیونٹی کو رزق فراہم کرتا ہے ، وہ کسی کو مدد کی ضرورت پڑنے پہ مدد فراہم کرنے کی صلاحیت بھی تو رکھتا ہے۔ کسی کی دعا یا مدد کی پکار پہ وہ کسی کو بھی وسیلہ بنا کر ، گھما پھرا کر اس پکارنے والے کے پاس لا کر کھڑا کر دیتا ہے۔ اور ہم حاجت مند کی حاجت روائی کرنے کو اپنا کارنامہ، اپنی بڑائی سمجھنے لگتے ہیں حالانکہ اگر خدا ہمیں توفیق نہ دے تو ہماری کیا مجال کہ ہم کسی کی مدد کر سکیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

بلاشبہ کسی کی مدد کر دینا ، کسی کے ساتھ بھلائی کر دینا بھی خدا کی توفیق ہے اور یہ توفیق بھی مقدر والوں کو ملتی ہے۔ یہ ہماری بڑائی نہیں ہوتی ، یہ ہم پہ کرم ہوتا ہے کہ ہمیں نیکی کرنے کا موقع دیا جاتا ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply