یہ گھڑی محشر کی ہے/اظہر سیّد

پاکستان کو آئی ایم ایف پروگرام کی بحالی کیلئے چھ ارب ڈالر کی یقین دہانیاں درکار ہیں جبکہ آرمی چیف جنرل عاصم منیر تاحال چین کا دورہ نہیں کر پائے ۔فوج کے گماشتے کامران خان نے آج ٹویٹ کی ہے چین نے پاکستان سے ڈیڑھ ارب ڈالر کی واجب ادائیگیوں کا مطالبہ کیا ہے ۔

کل کامران خان جنرل باجوہ کے دور میں ٹویٹ کرتا تھا کہ سی پیک پاکستان کیلئے قرضوں کا ہم رنگ جال ہے اور نجی چینلز پر پروگرام چلا کرتے تھے چینی مرد پاکستانی لڑکیوں سے شادیاں کر کے ان کے اعضا نکال کر فروخت کر دیتے ہیں۔

افغانستان کیلئے امریکہ کے خصوصی ایلچی زلمے خلیل زادے دو روز قبل اچانک یہ کہہ کر پاکستان کی اندرونی سیاست میں کود پڑے کہ عمران خان کی گرفتاری سے پاکستان کا بحران شدید ہو جائے گا ۔

وفاقی وزیر خزانہ اسحاق ڈار نے تین روز قبل ایوان میں یہ بتا کر پوری دنیا کو حیران کر دیا کہ “آئی ایم ایف ہمیں ڈکٹیٹ نہیں کر سکتا ہمارے میزائلوں کی رینج کتنی ہونا چاہیے ۔
یعنی صاف صاف نظر آرہا ہے امریکی سی پیک کے بعد پاکستان کے ایٹمی پروگرام کے پیچھے ہیں اور پاکستانی اسٹیبلشمنٹ والے چکی کے دو پاٹوں کے درمیان فیصلہ کرنے کی اہلیت کھو بیٹھے ہیں کس پاٹ میں پسنا ہے۔

کوئی کور کمانڈر اسٹیبلشمنٹ کی افغان پالیسی پر یکطرفہ فیصلہ نہیں کر سکتا۔جنرل فیض حمید پر ڈی جی آئی ایس آئی کے طور پر کابل میں چائے کا کپ پینا یا  کور کمانڈر پشاور کے طور پر طالبعلموں کی رہائی ہر گز اکیلے جنرل فیض حمید کا فیصلہ نہیں کہلائے گا بلکہ اسے مالکوں کا مشترکہ فیصلہ سمجھا جانا چاہیے ،ایسا  فیصلہ جس میں افغانستان میں طالبعلموں کی حکومت بنوا کر امریکیوں کی افغان کمبل سے جان چھڑائی جاتی ہے اور پاکستان پر یہ کمبل اوڑھا دیا جاتا ہے۔

آرمی چیف حالات کے اس جبر کا شکار ہیں دنیا کی معاشی سپر پاور عوامی جمہوریہ چین کا دورہ نہیں کر پا رہے ۔امریکیوں نے اس طرح معاملات پر اپنی گرفت کر رکھی ہے سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بھی چھ ارب ڈالر کی تحریری یقین دہانی اس وقت کرائیں گے جب یہاں سے کوئی یقین دہانی امریکیوں کو کرائی جائے گی۔

آصف علی زرداری سیاستدان ہیں اور میاں نواز شریف بھی سیاستدان ہیں ۔جب آصف علی زرداری کہتے ہیں “نادہندہ ہونے سے فرق نہیں پڑتا” اور اسحاق ڈار کہتے ہیں “آئی ایم ایف کون ہوتا ہے ہمیں میزائلوں کی رینج بتانے والا” تو صاف پتہ چلتا ہے سیاستدان پاکستان کے مفادات کے تحفظ کیلئے تیار ہیں دلیرانہ فیصلوں کیلئے رضامند بھی ہیں،جب آرمی چیف کے دورہ چین کے التوا کی خبریں سنتے ہیں تو لگتا ہے مالکان دباؤ کا شکار ہیں ۔

معاملہ دو اور دو چار کا ہے ۔امریکی کیمپ کی طرف جائیں گے تو کشمیر کے بعد نیو کلر اثاثوں پر بھی انکی باتیں اور شرطیں سننا ہونگی ۔امریکی کیمپ جانے پر چینی بھی اپنے قابل ادا قرضوں پر ریلیف کی بجائے فوری ادائیگیوں کا مطالبہ کریں گے ۔
چینی کیمپ کی طرف جائیں گے تو چینی نادہندہ نہیں ہونے دیں گے اور نیوکلیر اثاثوں کو بھی بچا لیں گے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

امریکیوں کا پاکستانی اسٹیبلشمنٹ میں انفراسٹرکچر بہت تگڑا ہے اتنا تگڑا کہ جنرل شاہد “یہ خاموشی کب تک” لکھ کر پوری قوم کی آنکھیں کھول چکے ہیں اور لاپتہ بھی ہو چکے ہیں۔
پاکستان کی سلامتی کے فیصلے ہو رہے ہیں۔ ایٹمی اثاثے گئے تو پاکستانی اسٹیبلشمنٹ کے دانت اور ناخن نہیں ختم ہوگئے پاکستان کی سلامتی پپر بھی سوالیہ نشان کھڑے ہو جائیں گے ۔فیصلے کی گھڑی ہے ۔دباو سے نکلنے کیلئے صرف حب الوطنی کی ضرورت ہے اور بس۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply