پیالی میں طوفان (49) ۔ زندگی کی پہچان/وہاراامباکر

زندگی ہمارے سیارے پر بہت عام ہے۔ اس لئے یہ حیرت کی بات ہے کہ اس کی کوئی کامن تعریف نہیں پائی جاتی۔ جب ہم زندہ چیز دیکھتے ہیں تو اسے پہچان لیتے ہیں۔ لیکن زندہ دنیا عام طور پر ایک سادہ اصول سے استثنا فراہم کرتی ہے۔ اس کی ایک تعریف non-equilibrium حالت کو برقرار رکھنے کے ذریعے دی جاتی ہے۔ اور اس کی مدد سے یہ پیچیدہ مالیکیولر فیکٹریاں بنا سکتی ہے اور ان کی مدد سے یہ توانائی کے بہاؤ اپنے سسٹم کے اندر کنٹرول کر سکتی ہے۔ زندگی وہ شے ہے جو توانائی کے بہاؤ کی رفتار کو حسبِ منشا بدل کر کے خود کو برقرار رکھنے کا کام چلا سکتی ہے۔ کوئی بھی شے جو ایکولیبریم میں ہو، وہ زندہ نہیں ہو سکتی۔ اور اس کا مطلب یہ ہے کہ disequilibrium کا تصور ہمارے وقت کے دو بڑے اسراروں کے پیچھے ہے۔ پہلا یہ کہ زندگی شروع کیسے ہوئی؟ اور دوسرا یہ کہ کیا کائنات میں کہیں اور پر زندگی ہے؟

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
دھوپ جب زمین پر پتھر پر پڑی ہے تو یہ جذب ہو گئی۔ پتھر گرم ہوا اور یہ حرارت ہوا میں بکھر گئی۔ ایکولیبریم جلد ہو گیا اور کچھ زیادہ دلچسپ نہیں ہوا۔
لیکن جب یہ دھوپ دھنیے کے پودے پر پڑی تو یہ ایک فیکٹری میں داخل ہو رہی ہے۔ یہ سیدھی حرارت میں نہیں بدل جائے گی بلکہ اس کو قابو کر کے فوٹوسنتھیس کا عمل ہو گا۔ پودا اس روشنی کو مالیکیولز کو ایکولیبریم سے نکالنے کے لئے استعمال کرے گا تا کہ اس توانائی کو خود رکھ سکے۔ ایکولیبریم تک واپسی کا آسان راستہ کنٹرول کر کے، پودے کی مشینری اس توانائی کو مراحل میں استعمال کرے گی۔ اس سے مالیکیول کیمیائی بیٹری کا کام کریں گے۔ کاربن ڈائی آکسائیڈ اور پانی کی مدد سے شوگر بنیں گے۔ یہ عقل دنگ کرنے والاے پیچیدہ سسٹم ہے جس میں توانائی نہروں میں بہہ رہی ہے جس میں آبشاریں بھی ہیں اور پن چکیاں بھی، لاک دروازے بھی ہیں اور bypass section بھی۔ اور ان کی مدد سے توانائی کا بہاؤ ہر سیکشن پر رفتار کو تبدیل کر کے کنٹرول کیا جاتا ہے۔
توانائی کو سیدھا نیچے لے کر جانے کے بجائے اس سے پیچیدہ مالیکیول بنانے کا کام لیا جاتا ہے۔ یہ ایکولبریم میں نہیں لیکن پودا ان کو اس وقت تک سٹور کر سکتا ہے جب تک اسے توانائی کی ضرورت نہ پڑے اور پھر یہ انہیں کسی ایسی جگہ پر رکھ دیتا ہے جہاں پر یہ ایکولبریم کی طرف اگلا قدم لے سکیں اور پھر اگلا۔
جب تک دھوپ دھنیے کے پتے پر پڑتی رہے گی، یہ توانائی کو فیکٹری کے لئے استعمال کر رہا ہے۔ اور اس کے ایکولیبریم کے goalpost بدل رہا ہے۔
پھر، کسی وقت میں میں اس دھنیے کا پتا توڑ لوں گا اور کھا جاؤں گا۔ اور یہ میرے سسٹم کی توانائی کے لئے ایک انجیکشن ہو گا۔ اس توانائی کو میرا جسم خود کو ایکولیبریم سے دور رکھنے کے لئے استعمال کرے گا۔ اور اگر اسے مناسب وقت پر مناسب مقدار میں خوراک ملتی رہے گی، سسٹم چلتا رہے گا۔
میں اس کا انتخاب کر سکتا ہوں کہ کس وقت میں خوراک لوں۔ میرا جسم اس کا انتخاب کرتا ہے کہ اس توانائی کو کب استعمال کرے اور اس کے لئے یہ مختلف دروازوں کو وقت پر کھول کر کنٹرول کرے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سائنسدانوں کا خیال ہے کہ زمینی پر زندگی پونے چار ارب سال پہلے شروع ہوئی تھی۔ ابتدائی زندگی نے شاید گرم اور سرد، تیزابی اور الکین پانی کے درمیان ایکولیبریم کے راستے میں gatekeeper کا کام کیا ہو۔ اس کو اپنے مقصد کے لئے اور ابتدائی حیاتیاتی مالیکیول تیار کرنے کے لئے استعمال کیا ہو۔ ہو سکتا ہے کہ اس ابتدائی tollgate نے بعد میں خلیاتی جھلی کی شکل اختیار کی ہو۔ جس طرح شہر کی دیوار ہو جو کہ “اندر” اور “باہر” کو الگ کرتی ہے۔ پہلا سادہ خلیہ اس لئے کامیاب رہا ہو گا کہ یہ اس ایکولیبریم کے راستے میں کامیابی سے رکاوٹ کھڑی کر سکا ہو گا۔ اور یہ ہماری زندہ دنیا کی خوبصورت پیچیدگی کے داخلے کا دروازہ بن گیا ہو گا۔
اب سوال یہ کہ آیا ایسی دوسری دنیاؤں میں بھی ہوا ہو گا؟
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ ناممکن نہیں کہ زندگی زمین سے باہر موجود ہو۔ بہت سے ستارے اور سیارے ہیں اور بہت سے مختلف حالات ہیں۔ سوال یہ کہ ہم کیسے اس کو پہچان سکتے ہیں؟۔
اس کا ایک طریقہ تو ریڈیو سگنل سننا ہے لین اس کا امکان بہت کم ہے کہ کوئی ہمیں یہ بھیجے۔ دوسرا یہ کہ خلا اس قدر بڑی ہے کہ اگر یہ موصول ہو بھی جائے تو امکان ہے کہ سگنل بھیجنے والی تہذیب معدوم ہو چکی ہو۔ لیکن ایک اور بھی امکان ہے۔ زندگی کا اپنا صرف موجود ہونا ہی کاسموس میں اپنے نشان بھیج سکتا ہے۔
ہوائی میں ماونا کیا کی چوٹی پر ٹیلی سکوپ کے دو گنبد ہیں۔ ان کو دیکھ کر کسی بہت بڑے میںڈک کی آنکھیں یاد آتی ہیں جو کہ آسمانوں میں گھور رہی ہیں۔ یہ کیک رصدگاہ ہے۔ اور یہ نظامِ شمسی کے باہر زندگی پر بھی نظر رکھ سکتی ہیں۔ جب ایسی دنیائیں اپنے مدار میں اپنے ستاروں کے سامنے سے گزرتی ہیں تو اس ستارے کی روشنی ان کی فضا سے گزر کر آتی ہے۔ کیک ٹیلی سکوپ اس کے نشان پکڑ سکتی ہے۔ اور یہ معلوم کیا جا سکتا ہے کہ کونسی فضا ہے جو ایکولیبریم میں نہیں۔ بہت زیادہ آکسیجن جس کا جواز نہ ہو۔ بہت سی میتھین؟ یہ زندگی کی موجودگی کی چغلی کھا سکتی ہیں۔ اور اگرچہ یہ خود میں یقینی ثبوت نہیں ہو گا لیکن ہم اندازہ لگا سکتے ہیں کہ یہاں پر انٹروپی سے لڑائی جاری ہے۔ شاید یہاں پر جاندار موجود ہیں۔ ایسے شواہد ہیں جو بتا رہے ہیں کہ ایکولیبریم کی طرف جاری مارچ کی رفتار کو کنٹرول کیا جا رہا ہے۔ زندگی ایسی پیچیدگیوں کو جنم دیتی ہے جو کہ اس کے بغیر نہیں ہو سکتیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply