کیا مابعد الطبیعیات بے معنی ہے؟/ساجد علی

بیسویں صدی کے ابتدائی برسوں میں وی آنا یونیورسٹی میں مورٹس شلک ایک بہت پروفیسر تھا۔ وہ اصلاً ماہر طبیعیات تھا۔ اس کا ایک سیمینار ہوتا تھا جس میں بڑی تعداد میں سائنس دان، ریاضی دان، ماہرین اقتصادیات اور فلسفی شرکت کرتے تھے۔ یہ وی آنا سرکل کے نام سے مشہور ہوا۔ اس سرکل سے فلسفے میں ایک نئی تحریک نے جنم لیا جو بعد منطقی اثباتیت کے نام سے مشہور ہوئی۔
اس سیمینار میں شرکت کرنے والوں نے یہ عندیہ دیا کہ وہ سائنس کی زبان سے مابعد الطبیعیاتی اثرات کو مکمل طور پر خارج کرکے ایسی مضبوط بنیادوں پر استوار کرنا چاہتے ہیں تا کہ سائنسی علم کی حقانیت پر کوئی شک شبہ باقی نہ رہے۔ اس تحریک کا ایک مینی فیسٹو بھی جاری کیا گیا تھا جس میں دعویٰ کیا گیا تھا کہ سائنس میں کوئی پوشیدہ گہرائی نہیں۔ سائنس میں وہی کچھ ہوتا ہے جو سطح پر نظر آتا ہے۔ انھوں نے سائنسی بیانات کی صحت کو جاننے کے لیے تصدیق پذیری کا اصول پیش کیا۔ یعنی صرف وہ بیان قابل قبول ہو گا جس کی تصدیق کے لیے کوئی حسی تجربہ موجود ہو۔ جو بیان اس اصول پر پورا نہ اترتا ہو وہ درحقیقت بیان ہی نہیں، بلکہ الفاظ کا ایک بے معنی مجموعہ ہے۔ ان کا خیال تھا کہ مابعد الطبیعیات ایسے ہی بے معنی بیانات پر مشتمل ہے۔
اس اصول کے ساتھ مسئلہ یہ تھا اگر اس کو درست تسلیم کر لیا جائے تو سائنس خود بے معنی قرار پائے گی۔ وجہ یہ ہے کہ عمومی یا آفاقی جملوں کی اس طریق پر تصدیق ممکن نہیں ہو گی۔ ابتدا میں منطقی اثباتیوں نے اس استدلال کو درست تسلیم کرتے ہوئے یونیورسل جملوں کو بھی بے معنی کہہ دیا تھا۔ اب یہ سب کو معلوم ہے کہ یونیورسل جملوں کے بغیر سائنس کا وجود ممکن نہیں رہے گا۔
کارل پوپر نے منطقی اثباتیت کے اس اصول کو تنقید کا نشانہ بنایا۔ اس کا کہنا تھا کہ اگرچہ اس میں کوئی شک نہیں مابعد الطبیعیات پر خامہ فرسائی کرنے والوں نے، مثلاً ہیگل نے، بہت سی لغو گفتگو کی ہے، لیکن تمام تر مابعد الطبیعیات کو یک قلم رد نہیں کیا جا سکتا اور نہ ہر مابعد الطبیعیاتی جملہ بے معنی ہوتا ہے۔
پچاس کی دہائی میں امریکہ کی مشہور زمانہ لائبریری اف لونگ فلاسفرز کی ایک جلد کا موضوع مشہور منطقی اثباتی فلسفی روڈلف کارنپ تھا۔ اس کے لیے کارل پوپر کو بھی مضمون لکھنے کی دعوت دی گئی تھی۔ کارل پوپر نے اپنے اس مقالے میں دعوی کیا کہ وہ کارنپ کی اصطلاحات استعمال کرتے ہوئے اساسی ترین مابعد الطبیعیاتی جملے، خدا موجود ہے، کو بامعنی ثابت کر دے گا۔ اور اس نے ایسا کر دیا۔ کافی پیچیدہ استدلال ہے جسے اردو میں تحریر کرنا کسی طور ممکن نہیں۔ پوپر کے اس استدلال پر منطقی اثباتیوں کا ردعمل بہت عجیب تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ چونکہ یہ جملہ بامعنی ثابت ہو گیا ہے اس لیے اب یہ مابعد الطبیعیاتی جملہ نہیں رہا، کیونکہ تعریف کی رو سے ہر مابعد الطبیعیاتی جملہ بے معنی ہوتا ہے۔
کارل پوپر کا کہنا تھا کہ “خدا موجود ہے” چونکہ مابعد الطبیعیاتی جملہ ہے اس لیے اس کے بامعنی ہونے سے یہ نتیجہ اخذ نہیں کیا جا سکتا کہ خدا فی الواقع موجود ہے۔ یہ جملہ چونکہ قابل آزمائش نہیں اس لیے یہ سائنس کے دائرے سے خارج ہے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply