میں تو چلی چین /اک نشہ،اک خمار سا لاؤشی ٹی ہاؤس کا (قسط22) -سلمیٰ اعوان

میری تو رات کچھ سوتے کچھ جاگتے ہی گزری تھی۔یوں آتے آتے ڈیڑھ بج گیا تھا۔لیٹی تو لگا جیسے پرستان سے لوٹی ہوں۔اشرف صبوحی کی سیّدانی بی ہوتی تو کیا کیا نہ قصّے گھڑتی۔ پر اس جیسی کوثر و تسنیم میں دھلی زبان کہاں سے لاتی؟وہ انداز بیان کا تحیر اور سنسنی جس سے میں پیر پیرپر آشناہوئی تھی۔کچھ اس سے کم تھا کیا جو الف لیلوی کہانیوں میں پڑھنے کو ملتی تھیں۔

صبح ناشتے کی میز پر میں مسرور تھی۔رات کی تھکاوٹ کا ذرا برابر بھی اثر نہیں تھا۔شاید بندے کا اندر خوش ہو تو اس کا شریر بھی مطمئن اور سرشاری میں بھیگا ہوتا ہے۔کچھ ایسا ہی میرے ساتھ بھی تھا۔ سعدیہ خوش تھی،ماں جو خوش تھی۔

سعدیہ نے لاؤشی ٹی ہاؤس کے بارے کچھ نہیں پوچھا تھا۔ میں نے بھی بات نہیں کی تھی۔ دراصل بندہ جتنا مرضی بااختیار ہو۔جوا ن اولاد کے سامنے کہیں نہ کہیں تھوڑا بہت مروت میں ضرور آجاتا ہے۔کچھ ایسا ہی حال میرا بھی تھا کہ میں اسی وقت اگلی مہم جوئی کا پٹارہ نہیں کھولنا چاہتی تھی۔میرے اکیلے جانے کی صورت میں بہرحال وہ تھوڑی بہت فکر میں تو مبتلا ہوتی ہی تھی۔ اور مجھے تو ہر صورت وہاں جانا ہی تھا۔

دراصل وہ چینی فوک آرٹ کا ایسا نمائندہ گھر تھا جہاں چینی تاریخ، اس کے کلچر کے مختلف رنگ جو قدامت سے جدّت کی سنہری تاروں میں بندھے یہاں تک پہنچے تھے اب اسی جگہ انہی رنگوں میں پرفارم ہوتے تھے۔

میرا خیال ہے تنگ نے سمجھا ہوگا کہ میرے پاس شاید اوپیرا کے ٹکٹ ہوں۔مگر میں بھی عجیب بونگی عورت تھی۔بیچاری نے بازو کیا پکڑایا میرے لچھن تو جیسے اُسے کھا جانے والے ہی ثابت ہورہے تھے۔حالانکہ فطرتاً میں ہرگزاِس مزاج کی نہیں۔ٹکے برابر کسی کا احسان لینے کی کبھی روادار نہیں ہوئی۔

لاؤشی ٹی ہاؤس کا ذکر میں نے بڑے اشتیاق بھرے انداز میں کیا تھا کہ جیسے میں اُسے دیکھنے کے لیے مری ہی تو جارہی ہوں۔مگر اس بارے بات کرنا، معلومات لینا ٹکٹ وغیرہ کے مراحل اور ان سے آگاہی کا مجھے دھیان ہی نہیں آیا۔

لاؤشی کے سامنے رُک کر تنگ جب آگے بڑھ گئی تھی تب مجھے اپنی غلطی کا احساس ہوا تھا ۔موبائل پر ہی اس سے بات کرلیتی۔وہ بھی مروت مارے چپ رہی۔بہرحال باتوں سے اتنا تو میں جان گئی تھی کہ ٹی ہاؤس کے ٹکٹ خاصے مہنگے ہیں۔اب سوچا تھا کہ تنگ سے بات کرکے دو ٹکٹ اوپیرا کے منگوا کر اسے دعوت دے دوں۔
اور جب اُسے فون کیا کہ اب رہنمائی کرو اوپیرا دیکھنا ہے۔ٹکٹ منگوانے لگی ہوں کِس کے منگواؤں۔
‘‘ٹی ہاؤس آج کل چل رہا ہے۔اُسی کو دیکھو۔’’

عمران نے دفتر سے فون کیا کہ ٹکٹ 60سے لے کر 380یوآن کا ہے۔60والا بالکل پچھلی نشستوں کا جبکہ اگلی نشستوں کا 380کا ہے۔
اب فوراً پہلے پاکستانی روپوں میں ضرب تقسیم ہوئی۔پھر ڈالرز میں ہوئی۔ بہرحال 380یوآن 60ڈالر بنے تو پھر ٹھیک ہے کہتے ہوئے دو ٹکٹ خریدنے کاکہہ دیا۔
دو دن بعد کوئی چار بجے تنگ اور میں گھر سے نکل پڑیں۔تنگ اسی طرح مجھے میٹرو سے Qianmenسٹریٹ لے آئی تھی۔

سچی بات یہی ہے کہ سماعتوں کو لاؤشی Laoshe tea house عام سا نام لگنے والا یہ ٹی ہاؤس دراصل بیجنگ کا وزٹینگ کارڈ ہے جو حقیقتاً چھ قدیم بادشاہتوں کا پایہ تخت اور بین الاقوامی میٹرو پولسMetropolis شہر کا دارلخلافہ ہے۔عجیب سی بات تھی کہ میں ابھی چار دن پہلے ہی تو یہاں سے گزری تھی۔اِک ذرا رکی بھی تھی لاؤشی ہاؤس کے سامنے۔مگر آج کے سارے منظر یکسر نئے لگ رہے تھے۔سڑک کی چکرا دینے والی وسعتیں جو پورے ماحول پر پھیلی ہوئی تھیں۔عمارتوں کی ایک تناسب سے بلند قامتیں،روشنیوں کی سحر انگیزیاں ،بھانت بھانت کے لوگوں کے ہجوم میں ان کی بولیاں اور چہلیں۔چھوٹے بچے بھی ماں باپ کے ساتھ ہنستے مسکراتے مسرور کرتے تھے۔

مرکزی دروازے کے دائیں بائیں ڈریگون سجے ہوئے تھے۔ قد بُت شیروں جیسے تھے۔اور منہ بھی ان ہی کی طرح پھاڑا ہوا تھا۔ دوسری منزل کی پیشانی بھی منہ کھولے سانپوں سے سجی تھی۔اُف دیکھ کر ہی جسم میں جھرجھری سے آنے لگی تھی۔سانپوں کے تو تصور سے ہی میری جان جاتی ہے۔

چند لمحے تنگ باہر کھڑی اُسے خاموش نظروں سے دیکھتی رہی تھی۔چپ چاپ جیسے کِسی یاد میں کھو گئی ہو۔پھر جیسے اُسے میری موجودگی کا احساس ہوا۔شاید میں وہاں کھڑی ایک خاتون سے باتیں کرنے لگی تھی جو شکل سے چینی لگتی تھی۔ وہ بہت اچھی انگریزی بولتی تھی جو مجھے یہ بتانے لگی تھی کہ تم کتنی بے مثال آرٹ کی دنیا کو دیکھنے والی ہو۔شاید تمہیں علم نہ ہو کہ پرانے بیجنگ کے حقیقی کلچر کی روح کو دیکھنے اور اس کی خوشبو محسوس کرنے کے لیے اِس عمارت کے اندر جانا کتنا ضروری ہے؟ جہاں فوک آرٹ،میجک شوز،اوپیرا اورفوک موسیقی کے ذریعے پرانے ادوار کی زندہ تصویر کشی کی جاتی ہے۔

جوش و جذبہ اس کے انگ انگ سے ٹپکتا تھا جب وہ باتیں کررہی تھی۔تبھی تنگ جیسے چونک کر پلٹی۔اس نے میرا ہاتھ پکڑا۔ اُسے کھینچا اور میرے دائیں کان میں سرگوشی کے سے انداز میں بولی۔
‘‘کِسی کے جھانسے میں نہیں آنا۔ یہاں اجنبیوں کو پھنسایا بھی جاتا ہے۔گھنٹوں میں اُن کی جیبیں خالی ہوجاتی ہیں۔’’

اُف اندر قدم کیا رکھے جیسے لگا آنکھیں پھٹ کر باہر آجائیں گی۔رنگوں کی شوخیاں،دیواروں کی انوکھی نرالی وضع قطع، مربع نما میزوں کے گرد سجی کرسیوں کی سیٹیں اور بیک ریسٹ سب جیسے بولتی باتیں کرتی تھیں۔

چھت کی طرف گردن کیا اٹھی۔ آنکھیں تو پھیل پھیل گئیں،ایسی ڈیزائن کاری کہ بندہ تو تکتا چلا جائے۔ سرخ لالٹینیں لٹک رہی تھیں۔ اللہ کی مخلوق کے نئے نئے رنگ اور نئی نئی آوازیں ۔شور،کیلی گرافی اور پینٹنگ کے دوہوں کے نمونے دیواروں پر لٹکتے تھے۔ چوبی کھڑکیاں اپنی منفرد ساخت کے حوالے سے توجہ کھینچ رہی تھیں۔شو کیسوں میں دھری چیزوں کو تفصیلاً دیکھنا ہی کتنا مشکل تھا۔فرنیچر کِسی اعلیٰ لکڑی کا تھا اور اس پر پالش نے اُسے کتنا چمکا رکھا تھا۔اب پوچھ رہی ہوں ۔تنگ مجھے جواب دے رہی ہے۔ایک ایک چیز کی نشان دہی اور جانکاری اس نے بڑے خوبصورت انداز میں دی تھی۔
مجھے تو لگ رہا تھا جیسے میں کسی نگار خانے میں داخل ہوگئی ہوں۔

تنگ نے کاؤنٹر پر جاکر درمیانی عمر کے ایک مرد سے بات کی۔میرا بھی تعارف کروایا ۔مرد نے ہنستے ہوئے ‘‘پاکستان ’’دہرایا اور ہونٹوں کے گوشے کانوں کی طرف دوڑائے۔
ویٹرز کے ملبوسات کی بھی عجب شان تھی۔مردوں نے لمبے گاؤن پہنے ہوئے تھے۔جبکہ ویٹرس نے خوبصورت چُست گھٹنوں تک لمبائی کی شکل میں کھڑے کالروں والی قمیضیں پہن رکھی تھیں۔جنہیں چینی زبان میں (cheongsam)Qipao کہتے ہیں۔یہ چین کا پرانا روایتی لباس ہے۔بس جدید زمانے نے اس کی لمبائی ذرا کم اور کشادگی کو بھی ذرا سکیڑ دیا ہے۔

لاؤشی ٹی ہاؤسLaoshe Tea Houseدراصل 1988میں قائم ہوا۔لاؤشی بیسویں صدی کے چین کا ایک باکمال ناول نگار ،عمدہ کہانی کار اورڈرامہ رائٹر تھا۔ٹی ہاؤس بنانا لاوشی کا شہرہ آفاق کام ہے جسے بہترین کلاسیک کا درجہ دیا گیا کہ اس نے باہر کی دنیا میں عام چینیوں جو گلی کوچوں کے باسی تھے اُن کی جدوجہد کی طویل کہانی کو جس جس انداز میں پوٹریٹ کیا اُس نے اُسے نہ صرف شہرت دی بلکہ وہ باہر کی دنیا میں شناخت کا باعث بھی بنا۔
تنگ میرے انہماک میری حیرت و تعجب کو دیکھتی تھی۔دفعتاً اس نے پوچھا۔
‘‘کیا تم لاؤشی کا اصلی گھر دیکھنا چاہتی ہو۔’’
‘‘ہاں ہاں بھلا یہ بھی کوئی پوچھنے کی بات ہے تنگ۔’’میری آواز شوق و اشتیاق میں ڈوبی ہوئی تھی۔
‘‘تو چلیں گے کسی دن وہاں۔ اس کے استعمال کی سبھی چیزیں محفوظ کردی گئی ہیں۔وہ تو اب تاریخی جگہ بن گئی ہے۔یہیں فاربڈن سٹی کے پاس ہی ایک ہوٹانگ میں ہے۔’’
‘‘تنگ خدا تمہیں لمبی حیاتی دے۔تمہارا مجھے ملنا اس کا احسان عظیم ہے۔’’

گراؤنڈ فلور روایتی عام لوگوں کے کلچر اور طور طریقوں کی نمائندہ ہے۔جس میں لباس اور کھانے پینے کے طور طریقے سبھی شامل ہیں۔تنگ اوپر جانے کا کہہ رہی تھی۔
اوپر جانے کی سیڑھیاں بہت آرام دہ کشادہ ،خوبصورت ریلنگ اور آرائشی پھول پتیوں سے دمکتی ہوئی جن کے پوڈے سُرخ قالین سے ڈھنپے ہوئے خوبصورت لگ رہے تھے۔ریلنگ پر اپنے ہاتھوں کی مظبوط گرفت نے میری چڑھائی کو بہت آرام دہ کردیا تھا۔سیڑھیوں کے پہلے پڑاؤ پر جو مجسمے دھرے تھے ان میں سے کچھ کی صورتیں بڑی عجیب و غریب سی تھیں ۔دیواروں پر سانپوں کی موجودگی اس رنگ رنگیلی دنیا میں جیسے مزے کے منہ روڑ آجائے والی بات محسوس ہوتی تھی۔ایسے ہی خوفناک سے منظر اور بھی نظر آتے تھے۔

دوسرے فلور پر ٹی رومز ہیں ۔اسے چائے کا نمائش گھر بھی کہہ سکتے ہیں۔تنگ نے کہا تھا۔اِسے دھیان سے دیکھنا ہے۔یہ خصوصی شہرت رکھتا ہے اپنی منفرد آرائش کے اعتبار سے۔
چھوٹے چھوٹے بوتھ جہاں چار بندے آرام سے بیٹھ کر چائے بنانے کا سارا عمل مسرت و شوق سے دیکھتے اور چائے نوش کرتے ہیں۔سچ تو یہ تھا کہ چائے پینے کا یہ تجربہ اور ٹی ہاؤس کے ماحول سے لطف اٹھانے کا جوکہ ایک میوزیم ہی کی طرح ہے۔بڑی کشش رکھتا ہے۔ یہ بڑے مہنگے کمرے ہیں۔

کان تنگ کو سُنتے تھے۔آنکھیں دیکھتی تھیں۔ یہاں برتنوں کی خوبصورتی، لائٹ لیمپوں کی جدّت،منفرد سی چوبی کرسیوں میزوں ،دلکش میزبانوں کی مسکراہٹوں،اداؤں اور سحر انگیزیوں سے گاہکوں کو لوٹا بھی جاتا ہے وگرنہ چائے کی پتی تو عام سی ہوتی ہے۔بس یہ ڈال دیا اور وہ ڈال دیا والا معاملہ۔سیاحوں نے پیسہ لٹانا ہوتا ہے سو وہ شوق سے لٹاتے ہیں۔لوکل سنیک بھی بہت مہنگے ہیں۔
ایک کھلا آنگن جوکہ عمارتوں سے گھرا ہوا ہے ۔اِس فلور کی بیش قیمت زینت ہے۔یہاں خوبصورت ماڈرن ریسٹورنٹ جس کی اعلیٰ آرائش کا دیکھنے سے تعلق ہے کہ شاہی کلچر کے رنگوں کا آمیزہ بھی اس میں ملادیا گیا ہے۔

اب بھلا اس جگہ کو دیکھنا اور وہاں کچھ دیر رکنا اور ان سب سربراہان مملکت کے ناموں کو پڑھنا اور ان کی تصویریں دیکھنا کِس قدر مزے کا کام تھا جو اِن سالوں میں یہاں آئے اور جنہوں نے اِسے دیکھا اور سراہا۔اِس مرکزی جگہ کی آرائش سادگی اور پروقار طریقے سے کی گئی تھی۔

مرکزی ہال کاکیا رومانوی ماحول تھا۔وسیع و عریض ہال جہاں میزوں پر کھانے پینے کی چیزیں دھری تھیں ۔اطراف میں کرسیاں سجی تھیں۔ایک اپنایت جڑا ماحول جس کی نشستوں کا اہتمام کچھ اِس انداز سے بھی کہ سٹیج سے بظاہر دوری بھی نہ محسوس ہو۔یہ اور بات ہے کہ آگے بیٹھے تو احساس ہوا کہ نہیں اگلی نشستوں کا تو مزا ہی کچھ اور ہے۔حالانکہ اندر داخل ہوتے ہوئے مجھے ایسا محسوس نہیں ہوا تھا۔

چوبی سٹیج کی ساخت اور خوبصورتی کِس درجہ کمال کی تھی کہ اُسے لفظوں کا پیرھن کیا پہناؤں اور کچھ ایسا ہی حال کرسیوں ،میزوں اور ملحقہ چوبی حد بندیوں کا تھا۔ نظر جہاں تک جاتی تھی حیرتوں کا ایک جہاں سمیٹ کر لاتی تھی۔

دنیا کا کوئی اوپیرا بیجنگ اوپیرا کا مقابلہ نہیں کرسکتا ہے۔یہ سر سے پیر تک ہر ہر لمحے اداکاری میں گندھا ہوا ہے۔جسمیں گانا، پڑھنا، لکھنا، لڑنا جھگڑنا، ڈانس کرنا ، مزاح ، بازی گری، مارشل آرٹ ،نقالی ،صرف جسمانی حرکات سے تاثر دینا ، اداکاری سے کہانیوں کو بیان کرنے کی تکنیک ،چائے کے ادب آداب اور موسیقی کا تیز ٹمپو جیسی صلاحتیں اپنے دلآویز رنگوں سے شامل ہیں۔احساسات کا کونسا اظہاریہ اس میں رہ جاتا ہے۔خوشی غم،دکھ مصیبت ،ناراضگی، خوف ،حیرت،اداسی،فکر، حیرت تعجب۔رونا ہنسنا تو خیر معمول کی چیزیں ہیں۔

تین ایکٹ کا یہ ڈرامہ جس کا پہلا حصہ 1898کے اس دور کا عکاس ہے جب چین ایک کمزور ریاست تھا جس کی بدامنی میں بیرونی طاقتوں کی مداخلت اہم کردار تھی۔غربت بے حدوحساب۔اتنی کہ لوگ اپنے بچے بیچنے پر مجبور تھے۔کہیں صنعتوں کے قیام کی کوششیں کہ ملک کو خوش حال بنانے کا واحد یہی ذریعہ تھیں۔ لوگوں کی امیدیں ،کریک ڈاؤن،پولیس کا بہت طاقتور ہونا،ظلم و ستم کی کہانیاں۔

ایکٹ نمبر دوبیس برس بعد کی کہانی سناتا ہے۔بادشاہت کے خاتمے کے ساتھ ریپبلک دور حکومت،سول وار، انقلاب کی آواز کا اٹھنا،طلبہ کا قومی سیاست میں بھرپور اور توانا کردار ادا کرنا۔
تیسرا ایکٹ اگلے تیس سال کے حالات کا احاطہ کرتا ہے۔جاپانیوں کے ساتھ جنگ،سیاسی صورت کی مزید ابتری۔

ڈرامہ نگار نے ماڈرن تاریخ کے تین ادوار کے المناک انجام کو پچاس سال کے دورانیے میں ٹی ہاوس میں ساٹھ کرداروں کے ساتھ ہنستے ہوئے بیجنگ کے ہر طبقہ فکر کی نمائندگی کا مشکل کردار ادا کر دیا تھا۔

ہر ایکٹ نے اپنے عہد کے واقعات کی بھرپور انداز میں نمائندگی کی۔ ہر عہد کو کاسٹیوم ،جسمانی خدوخال، بولنے اور مکالمہ کے اظہار ئیے سے انہیں اتنا طاقتور اور جاندار بنادیا کہ وہ نمائندہ شاہکار سمجھا گیا۔

اسے دیکھنا۔کن سلطنت کے روایتی طریقے بہت دل کش تھے ۔حسین شرافت کا بلند ترین مقام کہ جہاں گھٹنوں کے بل جھک کر آداب کہنا کلچر کا حصّہ تھا۔
دوسرے دانشوروں اور فنکاروں کی طرح لاؤ کو بھی اس وقت ریڈگارڈ کے ظلم و ستم سہنا پڑے۔ان کی یہی وہ زیادتیاں اور ستم تھے جن سے تنگ آکر وہ خودکشی پر مجبور ہوا۔
لاؤشی کی کہانی بھی تنگ سے کسی دن سُننی تھی۔

سچ تو یہ ہے کہ تاریخ کا یہ پچاس سالہ دور جو ایک پرآشوب تاریخ سے بھرا ہوا ہے بندے کو جکڑنے کو کافی ہوتا ہے۔اور سچی بات ہے میں نے سارے منظر یوں دیکھے تھے کہ میری ابلتی آنکھیں جیسے پلکیں جھپکنا بھولے بیٹھی تھیں۔سانس جیسے رک رک کر چلتا تھا۔ پلّے میرے کچھ نہ پڑنے کے باوجود بہت کچھ پڑ رہا تھا۔تنگ بھی مدہم آواز میں بتائے جاتی تھی۔مگر کیا لاجواب اداکاری تھی۔سٹیج سے فضاؤں میں اچھل کود تو کوئی بات ہی نہ تھی۔

چائے نے کیا لطف دینا تھا اور اس کے ذائقے اور دیگر تفصیلات کو کیا دیکھنا تھا کہ نہ ذہن حاضر تھا اور نہ دل۔

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply