اسلامو فوبیا !تعارف ، اسباب، تدارک /محمد اسرار مدنی

فوبیا کا معنی   خوف اور نفرت ہے ، جو کہ عدم رواداری ، نسل پرستی اور خوف جیسے مفاہیم پر دلالت کرتا ہے۔یہ اصطلاح اسلام اور فوبیا کوملاکر اسلام سے بے جا خوف، نفرت اور مسلمانوں کے حوالے سے منفی ذہنیت کے مفہوم میں استعمال ہوتی ہے۔

دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ خوف صرف اسلام کے حوالے سے نہیں ہے، بلکہ xenophobia(دوسرے ملک کے لوگوں سے خوف) جیسے خوف بھی ہیں جو آج کل مغربی دنیا سمیت امریکہ اور دیگر ممالک میں تیزی سے پھیل رہےہیں۔اسی طرحAnti-Semitism(یہودیوں کے خلاف نفرت/خوف) کیوجہ سے اب بھی یہودی مذہب والوں کو کئی جگہوں پر مزاحمت اور چیلنجز کا سامنا ہے۔

اسلامو فوبیا کوئی نئی اصطلاح نہیں ہے، بلکہ یہ تاریخی طور پرکافی وقت سے استعمال ہوتی رہی ہے ۔البتہ نائن الیون کے بعد کےاس رجحان میں اضافہ ہوا ہے۔ 2004 میں اقوام متحدہ نے مغرب میں اسلامو فوبیا کے بڑھتے ہوئے رجحان پر قابو پانے کیلئے ایک کانفرنس بلائی تھی۔ اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کوفی عنان نے اسلامو فوبیا کو افسوسناک، تکلیف دہ، اور امتیاز پر مبنی رجحان قرار دیا۔ یہ بحث مغربی اکیڈیمیا میں بھی دلچسپی کا  باعث رہی ہےاور اب تک اس موضوع پر کئی حوالوں سے علمی اور تحقیقی کام ہوچکے ہیں ۔ عالم ِ اسلام کی نمائندہ تنظیم رابطہ عالم اسلامی سمیت دیگر کئی اداروں نے سیاسی و سماجی سطح پر آگہی پھیلانے میں کلیدی کردار ادا کیا ۔ پاکستان نے OIC کے وزرا خارجہ کونسل کے 47  ویں اجلاس کے دوران قرارداد پیش کرتے ہوئے تشویش کا اظہار کیااور اسلامو فوبیا کو نسلی تعصب اور مذہبی امتیاز کی شکل قرار دیا۔ قرارداد میں قرآن کریم کی بے حرمتی ، پیغمبر اسلام ﷺ کے خاکوں کی اشاعت اور توہین مذہب کے واقعات پر گہری تشویش کا اظہار کیا گیا، جن سے1.8 ارب مسلمانوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچتی ہے۔

اس قرارداد کے بعداقوام متحدہ کی جانب سے ہر سال 15مارچ کو اسلامو فوبیا سے مقابلے کے عالمی دن کے طور پر منسوب کرنے کا فیصلہ کیاگیا۔

اسلاموفوبیا کےاسباب :
اسلامو فوبیا کے اسباب کی فہرست بہت وسیع ہے ۔ کئی عالمی واقعات ، سیاسی تنازعات نے اسے مزید جلا بخشی ۔
بہرحال چند اسباب بہت عمومی ہیں جو یہ ہیں:
1- اسلام کے بارے میں غلط فہمی:
مغربی سماج میں اسلام کے حوالے سے کافی غلط فہمیاں موجود ہیں مگر بدقسمتی کی بات یہ ہے کہ مغرب میں مقیم مسلمانوں کی مذہبی لٹریسی بھی انتہائی کمزور ہے جس کیوجہ سے مسائل سلجھنے کی بجائے مزید الجھتے ہیں ۔
2- مسلمانوں کی بڑھتی ہوئی آبادی :

مغربی ممالک میں مسلمانوں   کی بڑھتی ہوئی آبادی بھی وہاں کے مقامی افراد میں خوف کا باعث ہے ، اور یہی وجہ ہے کہ بعض محققین اسلامو فوبیا کو نسل پرستی ہی کی ایک قِسم قرار دے رہے ہیں ۔ کیونکہ بڑھتی ہوئی آبادی کی وجہ سے وسائل کی تقسیم ، کاروباری اور حکومتی حلقوں میں مسلمانوں کی شمولیت نے مقامی افراد میں خوف کا عنصر مزید پختہ کردیا ہے۔

3- میڈیا کا منفی کردار :
مغرب میں بہت سارے لوگوں کا اب بھی مسلمانوں کیساتھ کوئی مربوط تعلق اور باہمی معاملات نہیں ہیں ،بلکہ وہ میڈیا کی خبروں پر یقین کرکے اپنے ذہن کو بناتے ہیں ۔ میڈیا میں نائن الیون کے بعد ایک مہم کے ذریعے ہر انتہا پسندانہ واقعے کو مسلمانوں سے جوڑ دیاگیا۔ کئی ایسی فلمیں اور کارٹونز بنائےگئے جس میں مخصوص شکلوں والے مسلمانوں کو دہشت گرد اور انتہا پسند قرار دیکر مسلمانوں کیخلاف مجموعی منفی رائے عامہ ہموار  کرنے کی کوشش کی گئی ۔
مسلمانوں کے کسی مثبت اقدام ، مغربی معاشروں میں ترقی کیلئے اس کے مثبت کردار کو زیادہ اجاگر نہیں کیا گیا ۔
خود مسلمانوں کی طرف سے بھی میڈیا میں کچھ زیادہ انویسٹ نہیں کیا گیا۔

4- مسلمانوں میں تفہیم مغرب کا فقدان:
اسلام کے حوالے سے جیسے مغربی سماج میں کنفیوژن اور غلط فہمیاں ہیں اسی طرح مسلمانوں میں تفہیم مغرب کے ادارے بھی بہت کم ہیں۔ اور مغرب کے حوالے سے ہمارا شعوری علم انتہائی کم رہا ہے جس کی وجہ سے ردِعمل کی شدید نفسیات نے جنم لیا ہے۔
ایسی غلط فہمیوں سے مزید مسائل پیدا ہوتے ہیں ۔ اس لئے سازشی نظریات سے ہٹ کر مسلمانوں کو مطالعہ مغرب اور تفہیم مغرب کو بطور نصاب لیکر آگے بڑھنا ہوگا۔

5- انتہاپسندی اور دہشت گردی کیخلاف یکساں موقف کا فقدان :
کئی واقعات ایسے رونما ہوتے ہیں جس میں اقلیتوں پر جبر ، انسانی حقوق اور مذہبی آزادیوں کی پامالی  کے وقت مسلمانوں کا اجتماعی ردِعمل انتہائی کمزور ہوتا ہے۔ جس سے مزید کنفیوژن بڑھتی ہے۔ ایسے حالات میں مسلمانوں کو فرنٹ لائن پر آکر ردِعمل دینا پڑے گا۔ تاکہ مسلم سماج کا مثبت ردِعمل بھی توانا اور مضبوط ، انتہا پسندی سے پاک اور مبنی بر انصاف ہو۔یقینی طور پہ اسلاموفوبیا کے اور بھی بہت سارے اسباب ہیں جن پر تفصیلی غور و خوض کی ضرورت ہے۔
برطانیہ کے ایک تھنک ٹینک Runnymede trust نےمغربی نظریات کا گہرائی سے جائزہ لیا ہے اور اسلامو فوبیا کے پھیلنے اور متاثر ین سے جڑے افکارو نظریات کا احاطہ کیا ہے۔ جس کا خلاصہ حسب ذیل ہے :
مغربی معاشروں میں اسلام کے خوف میں مبتلا لوگ اسلام یا مسلمانوں کے حوالے سے اس نقطہ نظر سے سوچتے ہیں :
1- اسلام ایسا سیاسی نظام ہے جو دوسرے نظاموں کیساتھ ہم آہنگ نہیں ہوسکتا کیونکہ وہ تبدیلیوں کیخلاف ہے۔
2- اسلام مغربی دنیا سے الگ رہنے والا ایک جامد مذہب ہے جو مشترکہ اقدار حیات پر یقین نہیں رکھتا۔
3- اسلامی نظام کو مغربی نظام سے کمتر سمجھا جاتا ہے۔
4- اسلام کو تشدد کا حامی ، خطرناک، دہشت گردی اور تہذیبی تصادم کو بھڑکانے والا مذہب سمجھا جاتا ہے۔

5- اسلام کو روحانی مذہب سمجھنے کی بجائے ایسا سیاسی نظام سمجھتے ہیں جس کا استعمال سیاسی اور عسکری بالادستی حاصل کرنے کیلئے ہوتا ہے۔
6-مسلمانوں کی طرف سے مغرب کے خلاف جو آواز اٹھائی جاتی ہے اس کو فورا در کیا جاتا ہے۔
7-مسلمانوں کیساتھ امتیازی سلوک اورانہیں سماجی دھارے سے خارج کرنے کی کوششیں۔
8- مسلمانوں کیخلاف ظلم و ستم کو فطری اور معمول کی کارروائی قرار دیا جاتا ہے۔ (بحوالہ تحقیقات ۲۰۲۲، مسلم دنیا اور مذہبی آزادی )

ان نظریات سے اندازہ ہوتا ہے کہ بہت سارے لوگ مسلمانوں اور اسلام کے حوالے سے کیسے سوچتے ہیں ؟
تدارک کیسے ممکن ہے ؟
اسلامو فوبیا کا تدارک کرنا اس وقت مسلمانوں کی سب سے بڑی ذمہ داری ہے۔جس کے لیےذاتی مشاہدے اور مطالعے کی بنیادپر چند تجاویز پیش کی جاتی ہیں:
1- اسلامو فوبیا کے حوالے سے مسلم دنیا اور مغربی اداروں میں جتنا کام ہوا ہے اس کام میں مزیدعملی اشتراک کی ضرورت ہے۔ ان اداروں کیساتھ ملکر کام کو آگے بڑھانا ہوگا۔
2- مسلمانوں کو میڈیا ،چاہے پرنٹ ہو یا الیکٹرانک یا سوشل میڈیا ! اس پر توجہ دینی ہوگی اور اسلام اور مسلمانوں کے حوالے سے narrative building کرنی ہوگی۔
3- اشتعال انگیز بیانات سے گریز ۔مسلمان رہنماؤں کو اشتعال انگیز بیانات سے گریز کرنا ہوگا کیونکہ حکمت و بصیرت سے خالی جذباتی گفتگو مسلمانوں کے مسائل میں اضافہ کرسکتی ہے۔
4- اقلیتوں کا تحفظ،مسلم دنیا میں مقیم دیگر مذاہب کے ماننے والوں اور اقلیتوں کے لئے space پیدا کرنی ہوگی اور انہیں ایک مثالی ماحول فراہم کرنا ہوگا۔
5- مسلم دنیا میں تفہیم مغرب کو باقاعدہ نصاب کا حصہ بنایا جائے اور باقاعدہ کورسز تیار کئے جائیں۔
6- رفاہی کاموں میں شمولیت۔
مغرب میں بے شمار مسلم تنظیمیں اس وقت رفاہی کاموں میں مصروف ہیں جو کہ اسلام اور مسلمانوں کا مثبت تاثر پیدا کررہی ہیں۔ مسلم ممالک کا ایسی تنظیموں کیساتھ اشتراک ضروری ہے۔
7- اس وقت مغرب میں بین المذاہب مکالمہ کے بے شمار ادارے ، تنظیمیں، این جی اوز، تعلیمی ادارے موجود ہیں۔ جس میں تمام مذاہب کے رہنما اور ادارے متحرک رہتے ہیں، اس میں مسلمانوں کی شمولیت از حد ضروری ہے۔
8- اسلامو فوبیا کے حوالے سے جتنے واقعات ہوں ان پر جذباتی ردعمل کی بجائے انہیں قانونی سطح پر چیلنج کیا جائےتاکہ پولیس سٹیشن سے لیکر عدالت تک اور انسانی حقوق کے مختلف فورمز پر چارہ جوئی ہوسکے۔
9- سوشل میڈیا سمیت فلم اور ڈاکومینٹری کے ذریعے مغربی معاشروں میں مسلمانوں کے مثبت کردار کو اجاگر کیا جائے، نیز مختلف مذاہب کیساتھ مسلمانوں کے مثالی تعلقات کو پیش کرنے کی ضرورت ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors

10- مسلمان اکیڈیمیا کو مسلمانوں کا علمی موقف تشکیل دینے اور سیاسی رہنماؤں کو پروموٹ کرنے کی ضرورت ہے۔ خصوصا ً مذہبی آزادی ، انسانی حقوق، اقلیت ، خواتین ، بین الاقوامی تعلقات، رواداری پر یکسو ہوکر کام کرنا ہوگا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply