• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • سعودی عرب ایران معاہدہ خطہ بدل رہا ہے/ڈاکٹر ندیم عباس

سعودی عرب ایران معاہدہ خطہ بدل رہا ہے/ڈاکٹر ندیم عباس

دنیا میں بڑی تیزی سے تبدیلیاں رونماء ہو رہی ہیں۔ اصل میں دوسری عالمی جنگ کے بعد سے قائم امریکی ورلڈ آرڈر کو جو مغربی افکار پر مشتمل تھا، پہلی بار بڑے پیمانے پر چیلنجز کا سامنا ہے۔ امریکہ اور اس کے اتحادی اس سے باہر نہیں نکل پا رہے کہ اب دنیا بدل چکی ہے۔ وہ اب بھی یہ چاہتے ہیں کہ بڑے بڑے ممالک مغرب کی بغیر مانگے حمایت کریں اور اسی طرح سوچیں جیسے وہ سوچتے ہیں۔ مغرب کے دشمن کو سب اپنا دشمن سمجھیں، اس سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ آپ کے مسائل پر مغرب کی رائے کیا ہے۔؟ سعودی عرب کے پاس بہت مال ہے اور اس میں کوئی شک نہیں ہے کہ صرف پچھلے ایک سال میں اس کی صرف ایک کمپنی ارامکو نے ڈیڑھ سو ارب ڈالر سے زائد کا منافع کمایا ہے۔ یہاں یہ بات سمجھنے کی ضرورت ہے کہ سارے مسائل پیسوں سے حل نہیں ہوتے۔

سب کچھ پیسوں اور طاقت سے حاصل کرنے کے زعم میں محمد بن سلمان نے یمن پر حملہ کیا تھا، مگر اس کا نتیجہ ہمارے سامنے ہے۔ یمن تو اپنے جگہ پر رہا ہی سعودی عرب غیر محفوظ ہوگیا اور اسی ارامکو پر ڈرونز نے تباہی مچا دی۔ اب اس بات کو چھوڑ دیں کہ وہ حملے کس نے کیے اور ڈرونز کہاں سے آئے تھے؟ اصل بات یہ ہے کہ جنگ کی آگ سعودی عرب کے اندر تک پہنچ گئی۔ اسی طرح قطر، ترکی، شام اور لبنان میں اختیار کی گئی پالیسی بھی بیک فائر کر گئی ہے اور سعودی عرب کا ان علاقوں میں اثر و رسوخ پہلے سے کم ہوگیا ہے۔ شیخ نمر کو شہید کیا گیا تو سعودی عرب کے خلاف ایران میں عوامی ردعمل جذبات کا اظہار تھا، ایران کی عوام نے بڑی شدت سے اس عمل کے خلاف اپنی رائے کا اظہار کیا۔ سعودی عرب نے اس کے خلاف سفارتی تعلقات منقطع کرکے ایک غیر ضروری تنازع کو جنم دیا تھا، جو کرائسسز میں تبدیل ہوگیا۔ ہم اور انڈیا دشمن ملک ہیں، مگر ہمارے سفارتخانے بند نہیں ہوتے، اس سے بات چیت کے بہت سے چینلز کھلے رہتے ہیں اور مسائل کے حل ہونے کی امید رہتی ہے۔

غالباً پانچ سال پہلے جب سعودی بادشاہ سلمان چائینہ گئے تو انہیں وہاں پر بھی یہ کہا گیا تھا کہ آپ ایران کے ساتھ معاملات کو سیدھا کریں، اس حوالے سے چائینہ مدد کو بھی تیار تھا۔ اس وقت سعودی عرب کی طرف سے مثبت جواب نہیں دیا گیا۔ ایران سعودیہ تنازع کو ختم کرانے میں دو عرب ممالک نے بہت اچھا کردار ادا کیا بلکہ بنیادی کردار ادا کیا، وہ عمان اور عراق ہیں۔ اس وقت دنیا میں یہ خبریں حیرت سے سنی گئیں تھیں کہ اس وقت کے عراقی وزیراعظم ان مذاکرات میں کردار ادا کر رہے ہیں اور ان مذاکرات کا مرکز بغداد ہے۔ چائینہ بڑی طاقت ہے اور معاہدہ اس کی گارنٹیز کے ساتھ ہوا، مگر اس معاہدے کی بنیاد انہی عراقی مذاکرات میں رکھ دی گئی تھی۔ اب تو چھ دن مذاکرات ہوئے اور اس کے بعد معاہدہ طے پا گیا۔

مغربی اور اسرائیلی انٹیلی جنس ایجنسیز مکمل طور پر لا علم رہیں اور اب امریکی کہہ رہے ہیں کہ ہمیں مذاکرات سے آگاہ کیا گیا تھا۔ یقیناً کچھ نہ کچھ بتایا گیا ہوگا، مگر جو کچھ ہوا ہے، وہ امریکیوں کے لیے یقیناً سرپرائز ہے۔ اسی لیے امریکی کہہ رہے ہیں کہ یہ معاہدہ چلے گا نہیں۔ یہ امریکی پیشگوئی نہیں ہے بلکہ ان کی رائے ہے کہ اسے کامیاب نہیں ہونا چاہیئے۔ اس کے بعد یقیناً وہ سعودی عرب میں موجود اپنے اتحادیوں پر دباو بڑھائیں گے کہ اسے مکمل طور پرکامیاب نہ ہونے دیں۔ بڑا دلچسپ ہے کہ مغربی میڈیا کے بڑے بڑے ٹائیکون بھی اس ڈویلپمنٹ سے لاعلم رہے اور اب اس پر چیں بچیں ہو رہے ہیں۔ اس معاہدے سے صرف سفارتحانے نہیں کھلنے بلکہ دو اہم معاہدے فعال ہو جانے ہیں، اس میں ایک دو ہزار گیار کا سکیورٹی کا معاہدہ بھی ہے۔دوسرا ثقافتی تعلقات کی بحالی اور باہمی آمد و رفت سے متعلق ہے۔ اس نئے معاہدے میں ایک دوسرے کے اندرونی معاملات میں مداخلت نہ کرنے کا کہا گیا ہے۔

میرے خیال میں اسلامی جمہوری ایران کے سعودی عرب میں مداخلت کی کوئی وجہ ہی نہیں ہے، البتہ اس معاہدے سے جیش العدل اور اس طرح کے کچھ اور دہشتگرد عناصر کا پتہ ضرور کٹ جائے گا۔ یمن اور ایران کے تعلقات کیسے ہیں؟ شام اور ایران کے معاملات کیسے ہوں گے؟ اسی طرح لبنان اور ایران کیسے چلیں گے؟ یہ ان تمام ممالک اور ایران کی باہمی رضامندی سے ہوگا۔ ہر ملک دوسرے ممالک میں اپنی پالیسی میں آزاد ہوگا، اس معاہدے میں عملی طور پر یہ بات مان لی گئی ہے۔ اس معاہدے سے ریجنل ممالک کے تعلقات بہت اچھے ہو جائیں گے اور خطے میں موجود بین الاقوامی قوتوں کے لیے یہاں موجود رہنے کا کوئی جواز نہیں ہوگا۔ اس معاہدے کا ایک اہم پہلو یہ بھی ہے کہ اسرائیل اور امریکہ عرب ممالک کو ایران سے ڈرا کر اسرائیل کو منظور کرانے کی جو مہم چلا رہے تھے، اب اس میں انہیں ناکامی ہوگی۔

اسی طرح امریکہ اور مغرب کی تیل کے پیسے سے اسلحہ فروخت کرکے دوبارہ مغرب لے جانے کی پالیسی کو بھی زبردست دھچکا لگے گا۔ اگر سعودی عرب امریکہ اور اسرائیل سے انحصار ختم کرتا ہے، جو مشکل وقت میں سعودی عرب کی مدد کو نہیں آئے بلکہ خطے سے اپنی افواج اس وقت واپس بلا لیں، جب بظاہر سعودی عرب کو ان کی ضرورت تھی۔ اسی طرح محمد بن سلمان کو خاشقچی کے معاملے میں پھنسا کر اس کا امیج تباہ کر دیا۔ سعودی عرب کے لیے ایران اور عالم اسلام کے ساتھ کھڑے ہونے کا آپشن ہی سب سے بہترین آپشن ہے۔ امریکہ کے کہنے پر تیل کی پیداوار نہ بڑھا کر اس سال چھیالیس فیصد زیادہ پیسہ کما لیا ہے، اگر آپ کی خارجہ پالیسی آزاد ہوگی تو ہی آپ بہتر آپشنز رکھتے ہوں گے۔ چین کے دورے سے عرب ممالک کو یہ حوصلہ ملا ہے اور معلوم ہوا ہے کہ امریکہ انہیں بلیک میل کر رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ابراہیم اکاڈ نامی اسرائیلی تسلط کا ایک نظام جسے ٹرمپ نے شروع کیا تھا اور اس کی سرپرستی بائیڈن نے بھی جاری رکھی تھی، ظاہراً اس سعودی عرب ایران معاہدے کے بعد اس پر سوالیہ نشان ضرور لگ جائے گا۔ اسرائیل کی یہ شدید خواہش رہی ہے کہ ایران کو تنہاء کرے، مگر آج کا معاہدہ اسرائیلی تنہائی کی طرف سفر کو تیز کرے گا۔ یہ معاہدہ چائینہ کی کامیابی ہے اور اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ اب خطے میں امریکہ طاقت کھو رہا ہے۔ امریکہ تنازعات سے فائدہ اٹھا کر اپنا اسلحہ بیچتا ہے اور چین تنازعات کو مذاکرات کے ذریعے حل کرا کر علاقے اور خطے کے لوگوں کو باہم جوڑنے کی کوشش کرتا ہے۔ چین سرمایہ کاری اور جوڑنے کے ذریعے تعلقات کو بناتا ہے اور امریکی طریقہ ہمارے ساتھ یا پتھر کے دور میں پہنچانے کی دھمکیوں پر مبنی ہے۔

Facebook Comments

ڈاکٹر ندیم عباس
ریسرچ سکالر,اور اسلام آباد میں مقیم ہیں,بین المذاہب ہم آہنگی کیلئے ان کے کام کو قدر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply