میں تو چلی چین /الوداع بیجنگ ،الوداع اے شہر دل ربا (آخری قسط33) -سلمیٰ اعوان

الوداع بیجنگ ،الوداع اے شہر دل ربا
الوداع چین میرے ملک کے یار غار

اور اس وقت جب اپریل کے درمیانی دنوں کی معتدل ہواؤں کے صدقے ٹنڈ منڈ درختوں پر سفید اور گلابی شگوفے کھل اٹھے ہیں۔میں گھر کی عقبی بالکونی میں کھڑی تاریخ میں پور پور ڈوبے اس شہر سے کہتی ہوں۔‘‘ارے آج کے بیجنگ، گزرے کل کے پیکنگ مجھے تو شام کے پہلے پہر تم سے رخصت ہوجانا ہے۔لوگ کہتے ہیں کہ اب بس تھوڑے ہی دنوں میں بیجنگ پھولوں کی چادروں سے سجا دل ربا سا شہر نظر آنے والا ہے۔میرے پیارے تمہارا یہ دلہن سا روپ میں نہیں اور لوگ دیکھیں گے۔ہمارے برصغیر کے ایک مہان گلوکار کایہ گیت تم نے کہاں سنا ہوگا؟

Advertisements
julia rana solicitors

یہ زندگی کے میلے دنیا میں کم نہ ہوں گے
افسوس ہم نہ ہوں گے
اب بھلا تم سے زیادہ کون سمجھ سکتا ہے کہ بس راز زندگی اسی آنے اور چلے جانے میں مضمر ہے۔
کچھ لوگ یادوں میں سدا فانوس کی طرح جگمگاتے ہیں۔گونگ چو میں میکڈولنڈ کے ریسٹورنٹ میں کچھ ایسا ہی محبت بھرا منظر دیکھنے کو ملا۔ جب تھک کر آرام کے لیے وہاں گئی تھی۔خیال تھا کچھ منہ ماری کروں گی اور نوٹس بھی بنالوں گی۔بیٹی اور داماد جوگر لینے بازار گئے ہوئے تھے۔ایک نوجوان جوڑا تین سالہ ایک پیاری سی بچی کے ساتھ وہاں آیا اور قریبی سیٹوں پر بیٹھے۔میں اس وقت دن بھر کی کارگزاری کے نوٹس لکھ رہی تھی۔
بچی میرے پاس آکر کھڑی ہوگئی تھی۔سراٹھایا تووہ حیرت بھری آنکھوں سے ایک نظر نوٹ بک اور ایک نظر میرے عجیب و غریب حلیے پر ڈالتی تھی۔
میرے پیار بھرے انداز نے اُسے بے تکلف ہونے میں پل نہیں لگنے دیا۔مگر بیچ میں زبان آکھڑی ہوئی تھی۔دونوں میاں بیوی ہنستے ہوئے قریب آگئے۔مرد انگریزی بولتا تھا۔اُس کا بچپن اسلام آباد میں گزرا تھا کہ باپ سفارت خانے میں تھا۔
اب تواضع تو رہی ایک طرف ۔لڑکے نے اسلام آباد کے حوالے سے بہت میٹھی یادوں کو شیئر کیا اور ساتھ ہی خواہش کی کہ میں اس کے ماں باپ سے ملوں۔وہ بہت خوش ہوں گے۔میاں بیوی کی آنکھوں سے پھوٹتی محبت پر مجھے اتنا پیار آیا کہ میں نے اُن کے منہ ماتھے چومے اور معذرت کی کہ بیٹی بس آیا ہی چاہتی ہے اور پھر ہمیں ایرپورٹ جانا ہے۔
سچ تو یہ ہے کہ چین کی پرانی نسل پاکستان سے بہت مانوس ہے۔محبت کرتی ہے۔‘‘پاکستان سے ہوں ’’جیسا جملہ اشاروں کی زبان سے اور پاکستان کا لفظ کہنا ہی کافی
ہے۔ان کے چہروں،ان کی آنکھوں اور ہونٹوں کے مسکرانے پر بے اختیار ہی پیار آنے لگ جاتا تھا۔پارکوں میں، شاپنگ پلازوں میں،ریلوے اسٹیشنوں اور ایرپورٹوں پر اس محبت کے مناظر کوئی ایک دو نہیں بہت سارے ملے۔
وہ عمر رسیدہ خاتون جو بیٹی ،نواسے اور شوہر کے ساتھ سمر پیلس میں ملی تھی۔خنکی میں ڈوبی ہوئی شام مسحور کرتی تھی۔ہر سو بکھری ہوئی ہریالی،پانی اور تعمیراتی حسن حیران کیے دیتا تھا۔ آنکھیں چہا سو بھٹکتی پھر رہی تھیں۔نظروں سے کوئی پچاس قدم دور ایک خاندان کو باتیں کرتے بھی دیکھا تھا۔ پانچ سال کا بچہ جو سائیکل پر بیٹھا بگٹٹ اُسے بھگائے میری سمت ہی چلاآرہا تھا بھی نظروں کے حصار میں آگیا تھا۔دفعتاً بچہ مجھ سے کچھ فاصلے پر سائیکل سے لڑھکا اور فرش پر گر گیا۔بھاگ کر اُسے اٹھایا ۔خاندان بھی اضطراب میں بھاگتے ہوئے پاس آگیا۔بچہ خدا کا شکر ٹھیک تھا۔اُس خاندا ن کی بوڑھی عورت کا پاکستان کا نام سن کر محبت کا جو انداز سامنے آیا تھا۔اس نے بلاشبہ مسرور کردیا تھا۔
وہ خاتون بھی ہمیشہ یاد رہے گی جو شی آن کے مسلم کواٹر کے بیل ٹاور کے سامنے والے میدان میں اپنے بیٹے،بہو اور پوتے کے ساتھ بیٹھی کھانے پینے میں مصروف تھی جس نے ہم غیر ملکی اجنبی لوگوں کو محبت بھری نظروں سے دیکھا تھا۔ اُبلے انڈوں والی پلیٹ اٹھا کر ہماری جانب آئی تھی۔اس کی پیشکش میں جو پیار تھا اس نے میرے انسانیت کے ایمان کو تازگی دی تھی۔
تو میرے پیارے بیجنگ دیکھو سعدیہ نے آواز دی ہے۔
‘‘اماں چار بج رہے ہیں۔آجائیے۔’’
الوداع میرے ملک کے یار غار۔آنے والا وقت تمہیں سپر پاور کی صورت دیکھے۔
٭٭٭

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply