أحلام مستغانمي،جزائری مصنفہ/ترجمہ و تحقیق:محمد سلیم

أحلام مستغانمي (13-04-1953) جزائری کالم نگار، کاتبہ اور روایت گو خاتون ہیں۔ مشہور انقلابی لیڈر محمد الشریف کی بیٹی ہیں جنہیں جزائری انقلاب کی معاونت کی پاداش میں 1945 میں پابند سلاسل کیا گیا اور الجزائر کی کوئی ایسی جیل یا عقوبت خانہ نہ ہوگا جس میں ان کا وقت نہ گزرا ہو۔

احلام کئی ایک کتابوں کی مولفہ ہیں تاہم ان کی وجہ شہرت ان کی تاریخی کتاب “ذاكرة الجسد” ہے جو (1994-2004) تک 30 لاکھ کی تعداد میں چھپی۔ احلام بنیادی طور پر مراکش میں پیدا ہوئی ہیں لیکن 7 سال کی عمر میں اپنے گھر والوں کے ساتھ ہمیشہ ہمیشہ کیلئے الجزائر چلی گئی تھیِ۔ احلام اپنی کتاب “ذاكرة الجسد” کو لکھنے کے دنوں کی ایک یاداشت میں لکھتی ہیں:

میں نوے کی دہائی کے شروع  میں بیروت پہنچی، اور یہ وہ زمانہ تھا جب جزائری گلوکار “الشاب خالد” کا پوری دنیا میں طوطی بول رہا تھا۔ اس کے ایک گانے (دي دي واه) نے اسے شہرت کے آسمان پر پہنچا دیا تھا۔ دن ہو یا رات ہر جگہ اور ہر وقت اس کا ہی گانا بجتا سنائی دیتا تھا۔اس زمانے میں گویا شادیاں ہو ہی اس کے گانے کی وجہ سے رہی تھیں، فیشن شو اس کے گانے کے بغیر مکمل نہیں ہوتے تھے، بیروت کا کوئی کلب یا کوئی بھی آڈیٹوریم یا ہال ایسا نہیں ہوا کرتا تھا جس میں لوگ اس کے گانے پر ناچ نہ رہے ہوں۔ لوگوں کے دن اور رات اس کے گانے پر رقص کرنے سے شروع اور رقص پر ہی ختم ہو رہے تھے۔میں ابھی ابھی پیرس سے پہنچی تھی، اور میرے پاس میری کُل کائنات “ذاكرة الجسد” کا مسودہ تھا، پورے چار سو صفحات پر مشتمل۔ اس مسودے پر کام کرتے ہوئے مجھے ایک آدھ مہینہ نہیں پورے چار سال لگے تھے۔ میں نے اس کتاب کیلئے ایک ایک جملہ اپنے جگر کے خون سے لکھا اور تراشا تھا۔ یہ کتاب جزائر کی تاریخ کی نصف صدی کا احاطہ کرتی تھی، جزائر کی آزادی کیلئے جدوجہد اور الجزائر کی قربانیوں سے عرب دنیا کو آگاہ کرنے کیلئے مجھ سے جو کچھ بن پڑتا تھا میں نے اسے لکھ ڈالا تھا، عربوں کو اپنی تاریخ کا تعارف کرانے میں  مَیں نے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی۔ لیکن میری حالت اب کچھ ایسی اذیت میں مبتلا جیسی تھی کہ مجھے اپنے تعارف کرانے کیلئے یا اپنئ شناخت بتانے کیلئے لوگوں کا حقارت سے کہا جانے والا یہ جملہ سننا پڑ رہا تھا کہ : اوہ، اچھا، تو تم الشاب خالد کے ملک سے ہو۔۔۔۔۔اور جناب “الشاب خالد صاحب”: مجھے اس شخص میں بس اتنا نظر آتا تھا کہ فرانسیسی ٹیلیویژن پر یہ شخص کسی بھی پروگرام میں بلایا جاتا تھا تو کانوں میں بالیاں ڈالے ہوئے، اپنا کتا ساتھ بٹھائے ہوئے یا اپنی گود میں لیے ہوئے، کسی سوال کا جواب نہیں بن پڑتا تھا اس سے، نہ ہی کسی موضوع پر بات کرنے کی اس میں صلاحیت تھی۔ ہر بات پر ماسوائے احمقانہ طریقے سے ہنسنے کے اس کے پاس کہنے یا بتانے کیلئے کچھ بھی نہیں ہوتا تھا۔آخر الشاب خالد کا میرے درد سے کیا تعلق یا کونسی رشتہ داری بنتی تھی، مجھے خود بھی اس بات کا پتہ نہیں تھا۔ سچ یہ تھا کہ اگر کوئی مجھ سے ہی پوچھ لیتا کہ “دی دی واہ” کا کیا مطلب ہے؟ میری لا علمی پر میرا سائل میری عقل پر ماتم کرتا کہ ہائے فرانسیسی تسلط اور غلامی نے ہم سے ہماری ہی زبان عربی کا فہم چھین لیا ہے اور میں اتنی سی بات کا مطلب بھی نہیں سمجھ پاتی۔مجھے اس بات کا ہرگز کوئی دکھ نہیں ہے کہ ایک گلوکار نے دو اچھوتے (مہمل) لفظوں کے ساتھ یا دو (لایعنی) حرفوں کے گانے سے وہ عزت اور کمال حاصل کیا ہے جو کہ کوئی بھی عرب مصنف جس نے اپنی تصنیف کیلئے الفاظ اپنے خون جگر سے کشید کیے ہوں وہ حاصل نہیں کرسکا۔ ہاں مجھے اگر کسی بات کا رنج اور دکھ ہوا تھا تو بس یہی تھا کہ میں غلط وقت پر شرق اولاسط میں آ گئی تھی۔پچاس کی دہائی میں، الجزائر کو “امیر عبد القادر” کے نام سے، اور ساٹھ کی دہائی میں “احمد بن بیلا اور جمیلہ بو ہرد” کے ملک سے، اور ستر کی دہائی میں “حوری بومیڈین” اور “ملین شہداء” کے ملک سے منسوب کیا گیا تھا۔  اور آج، عرب ملک اپنے گلوکاروں اور بھانڈوں سے منسوب ہو رہے تھے۔ یا ان لوگوں سے منسوب ہو رہے تھے جو سٹار اکیڈمی میں اپنے ملکوں کی نمائندگی کر رہے تھے۔کچھ عرصہ پہلے تک، میں ایک الجزائری ہونے کی حیثیت سے ان لوگوں سے تعریفیں وصول کر رہی تھی جو اس لڑکی سے محبت کرتے تھے جس نے “اسٹار اکیڈمی” میں الجزائر کی نمائندگی کی تھی۔ یہ تب کی بات ہے جب کچھ لوگ مجھے مراکشی نہیں سمجھتے تھے، اور صوفیہ کے لیے اپنی ہمدردی اور پیار میرے سامنے ظاہر کرتے تھے۔لبنان پر اسرائیل کی آخری جنگ سے پہلے، میں “ایک شام قھر کے ساتھ” نامی ریڈیو پروگرام سن رہی تھی جس میں صداکار ان مایوس کُن پیغامات کو نشر کر رہا تھا جو گانے والے اس پروگرام میں نشر ہو رہے تھے، اسی دوران ایک ریکارڈڈ پیغام سنایا گیا جس میں “سٹالن” روسی عوام کو مزاحمت کرنے کے لیے کچھ یوں کہہ رہا تھا کہ ماسکو کے دروازوں پر نازی چیخ رہے ہیں: آؤ مل کر “الیگزنڈر پوشکن (ڈرامہ نگار) اور ٹالسٹائی(قصہ گو)” کے وطن کا دفاع کریں۔اور میں نے اپنے آپ سے طنزیہ انداز میں سوال کیا تھا کہ اگر آج اسرائیل دوبارہ لبنان پر حملہ کرتا ہے یا مصر پر حملہ کرتا ہے تو ہمارے پاس نوجوانوں کو متحرک کرنے اور ان کے حب الوطنی کے جذبات کو ابھارنے کیلئے شاید ہی کوئی راستہ ہو ماسوائے اس کے کہ گانے بجانے کے سیٹلائٹ چینلز پر کالز اور پیغامات نشر کیے جائیں کہ نوجوانو اٹھو اور مل کر حیفاء وہبی، ایلیسا، نینسی عجرم، مروہ، رابی اور ان کی دیگر بہنوں کے وطن کا دفاع کرو۔ بخدا سچ ہے کہ مجھے اس ہجوم کی حوصلہ افزائی کے لیے اور ان کے جذبات ابھارنے کیلئے ان کے علاوہ کوئی اور نام نظر نہیں آتا۔بخدا یہ بات میں مذاق میں نہیں کر رہی۔ چار سال قبل ایک مصری قیدی “محمود السواركة” کو اسرائیلی حراستی مراکز اور عقوبت خانوں سے رہا کیا گیا تھا، جن میں اس محمود السواركة نے بائیس سال گزارے تھے، یہاں تک کہ اس نے مصر کے معمر ترین قیدی ہونے کا اعزاز حاصل کیا تھا مگر اس کی رہائی پر اسے ملی پذیرائی صفر تھی۔ دوسری طرف سٹار اکیڈمی کے سٹار محمد عطیہ کے زخمی ہونے کے بعد سینکڑوں نوجوان مرد و خواتین اسے ایک نظر دیکھنے کے دوران مچی بھگدڑ کے نتیجے میں زخمی ہو گئے تھے۔ لوگ بیروت سے محمد عطیہ کے ہوائی جہاز کی آمد کے بارے میں جاننے کے لیے ہر تاریخ کے ساتھ ہوائی اڈے کا چکر لگاتے رہے تھے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

ان ملکوں میں جو اپنے ہیروز سے منسوب ہوا کرتے تھے اور اب ان لڑکوں سے منسوب ہیں، ہم نے پڑھا ہے کہ سٹار اکیڈمی کے سابق شریک “محمد خلاوی”، مہینوں اپنے پانچ محافظوں میں گھرے بغیر نہیں چلتے تھے۔ اور ایسا لگتا تھا کہ اپنی باقی کی عمر شاید ہی محافظوں کے بغیر گزار پائیں گے۔میں نے ایک بار الجیریا اور فرانس کے درمیان سفر کرتے ہوئے عظیم جزائری انقلابی کارکن “جمیلہ بوہیر” کی یاداشت پڑھی، وہ اکانومی کلاس میں لدی پھندی سفر کر رہی تھی، ایسے سامان سے لدی پھندی جو ایک اکیلی ماں اپنے اکلوتے بیٹے کے لیے کھانے پینے اور دیگر حوائج کا سامان لے کر جاتی ہے، اور مجھے شرم محسوس ہوئی، کیونکہ اس جیسا کوئی شخص ایسے ہی سفر کرتا ہے۔ اور شاید ہی ایسے لوگ کبھی فرسٹ کلاس میں سفر کر پائیں۔ جب کہ دوسری طرف ایک چوزہ جو ابھی ابھی پیدا ہوا تھا، سٹار اکیڈمی سے شہرت پائی تھی، مختلف پلیٹ فارمز پر شیخیاں مارا کرتا تھا کہ وہ صرف ایسے نجی سرکاری طیارے میں سفر کرتا ہے، جو اس کے تصرف میں دے دیا گیا ہے کیونکہ وہ ایک سٹار ہے اور اس نے اپنے ملک کا نام بلند کیا ہے۔عرب قوم کو مبارک ہو، مبارک ہو اس قوم کو، جس کی عزت اب رقص و سرور اور طبلوں اور سارنگیوں کے چبوترے پر گم ہو گئی ہے۔۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply