مقدمہ؛طلبہ کی ناکامی اور تدریسی نظام/اعزاز کیانی

کسی نئی, غیر متوقع اور غیر معمولی صورت حال سے سابقہ انسان کے دل میں خوف پیدا کرتا ہے. یہ خوف بسا اوقات انسان کو ارادے و نیت سے آگے بڑھ کر عملی اقدام اٹھانے سے روکتا ہے اور یوں انسانی ترقی کی راہ مسدود کرتا ہے۔

دیگر تمام شعبہ جات زندگی اور دیگر افراد کی طرح طلبہ و نسل نو کو بھی اس کیفیت کا سامنا کرنا پڑھتا ہے، نسل نو کی تخصیص کی غائیت یہ ہے کہ یہ طبقہ عملی زندگی کے میدان میں قدم رکھ رہا ہوتا ہے چنانچہ اس طبقہ کو دوسروں کی نسبت زیادہ اس صورت حال سے سابقہ پڑھتا ہے۔

نسل نو عملی زندگی کا آغاز کرتے ہوئے جب کسی جگہ بغرض حصول ملازمت و روزگار کو جاتے ہیں تو سب سے اول انہیں انٹرویو یا تحریری امتحان کے مرحلہ سے گزرنا پڑھتا ہے، یہی مرحلہ اول نہ صرف ان کے لیے کھٹن ہوتا ہے بلکہ بسا اوقات وہ بسبب پیہم ناکامی کے دلبرداشتہ ہو جاتے ہیں بلکہ مایوسی و یاس انکی پوری شخصیت پر حاوی ہوجات ہے اور وہ احساس کمتری تک کا شکار ہو جاتے ہیں۔

میرے نزدیک اس مسئلے کی سب سے بڑی وجہ ہمارا تعلیمی نظام اور طریقہ تدریس ہے ،پاکستان میں گزشتہ چند سالوں سے جامعات کی سطح پر تدریس و تعلیم کے لیے کتاب کے بجائے اسلائیڈاز (یعنی پی پی ٹی) کا عام رواج ہے۔ یہ اسلائیڈز نہ صرف اساتذہ کے جانب سے تدریس کے لیے استعمال کی جاتی ہیں بلکہ یہی اسلائیڈیز بطور معاون مواد اور کتاب کے متبادل کے طور پر طلبہ کو بھی مہیا کی جاتی ہیں. اس طریقہ مذکورہ کا سب سے بڑا نقصان یہ ہے اس سے ادھورے و ناکافی علم کی ترویج ہوتی ہے۔

اسلائیڈز بنیادی طور پر کسی کتاب یا مضمون وغیرہ کا خلاصہ ہوتی ہیں جن میں چیدہ چیدہ نکات یا مخصوص اصطلاحات یا اشارے وغیرہ ہوتے ہیں۔ ان اسلائیڈز کی غائیت فقط یہ ہوتی ہے کہ دوران لیکچر استاد ان میں موجود نکات کو یاداشت یا اشارے کے طور پر استعمال کرتا ہے تاکہ وہ ان کی وضاحت کر سکے۔ لیکن پاکستان میں یہ اسلائیڈز ان مقاصد کے لیے استعمال نہیں کی جاتی بلکہ یہ کتاب کے متبادل کے طور پر اور بجائے خود مستقل مواد کی حیثیت رکھتی ہیں۔ اس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے طلبہ کا مدار بھی فقط انہی اسلائیڈز پر ہوتا ہے اور یوں وہ کسی موضوع پر مکمل علم حاصل کرنے کے بجائے فقط محدود علم یا مختصر تعارف حاصل کر پاتے ہیں. یہی وجہ ہے کہ جب انکا سابقہ کسی امتحان سے پڑھتا ہے تو انہیں شدید مایوسی ہوتی ہے۔

Advertisements
julia rana solicitors london

میرے نزدیک جب تک اس بنیادی خامی کا ادراک و تدارک نہیں کیا جاتا یہ مسئلہ نہ صرف یونہی موجود رہے گا بلکہ طلبہ یہ سوال اسی تواتر سے پوچھتے رہیں گے کہ جامعات میں جانے یا تعلیم حاصل کرنا کا آخر کیا فائدہ ہے۔

Facebook Comments

اعزاز کیانی
میرا نام اعزاز احمد کیانی ہے میرا تعلق پانیولہ (ضلع پونچھ) آزاد کشمیر سے ہے۔ میں آی ٹی کا طالب علم ہوں اور اسی سلسلے میں راولپنڈی میں قیام پذیر ہوں۔ روزنامہ پرنٹاس میں مستقل کالم نگار ہوں ۔ذاتی طور پر قدامت پسند ہوں اور بنیادی طور نظریاتی آدمی ہوں اور نئے افکار کے اظہار کا قائل اور علمبردار ہوں ۔ جستجو حق اور تحقیق میرا خاصہ اور شوق ہے اور میرا یہی شوق ہی میرا مشغلہ ہے۔ انسانی معاشرے سے متعلقہ تمام امور ہی میرے دلچسپی کے موضوعات ہیں مگر مذہبی وقومی مسائل اور امور ایک درجہ فضیلت رکھتے ہیں۔شاعری سے بھی شغف رکھتا ہوں اور شعرا میں اقبال سے بے حد متاثر ہوں اور غالب بھی پسندیدہ شعرا میں سے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply