فارن سروس، آغا خان سے جمشید مارکر تک۔۔ راشد یوسفزئی

پاکستان کے اعلی ترین مقابلے کے امتحان سی ایس ایس پاس کرنے کے بعد فیڈرل پبلک سروس کمیشن نے ہمیں  نفسیاتی آزمائشوں اور انٹرویو کے شیڈول اور ہدایات کے  ساتھ فائنل پریفرنس فارم( Final Preference Form)کی تین عدد کاپیاں بھیج دیں کہ ان میں سول سروس کے تمام گروپس کو اپنی  ترجیحات کے مطابق لکھ لیں اور انٹرویو کے دن جمع کریں. ان ایام میں ہر امیدوار پر سول سروس گروپس کے تقابلی جائزے کا بھوت سوار ہوتا ہے، پولیس سروس آف پاکستان PSP میں اتھارٹی اور کر و فر زیادہ ہوتا  ہے ، ڈسٹرکٹ منیجمنٹ گروپ DMG( موجودہ پی اے ایس) میں ترقی تیز ہوتی ہے ، فارن سروسز آف پاکستان FSP میں باہر دنیا کے سیر کے مواقع میسر ہوں گے وغیرہ وغیرہ.

آخر الذکر گروپ میں امیدواروں کی عدم  دلچسپی راقم کے لئے حیران کن تھی، اور تعجب کی انتہا نہ رہی جب ایک کامیاب امیدوار ساتھی سے یہ سنا کہ میری تعیناتی اگر فارن سروس میں ہوئی تو میں نے پٹوار ٹریننگ لی  ہے اور میں پٹواری بننے کو ترجیح دوں گا  کہ اس طرح تحصیلدار اور شاید ڈپٹی کمشنر تک پہنچنے کی امید تو پیدا ہوگی! وزارت خارجہ کے سروس سٹرکچر میں اپنے بڑھتے ہوئے تجسس کو دور کرنے کے لئے  راقم ایک دو امیدوار ساتھیوں کے ساتھ فارن سروس کے ایک نووارد سول سرونٹ کے گھر ایسے وقت پہنچا  جب سفارت کار صاحب اپنے سرکاری گھر میں پانی کی ٹونٹی لگا رہے  تھے، تعارفی کلمات کے تبادلے کے دوران جب راقم نے کہا کہ ہم” سی ایس ایس” کے آدھے کامیاب امیدوار ہیں اور فارن سروس گروپ کے بارے  میں رہنمائی چاہتے ہیں تو ہاتھ میں  پکڑی  ٹونٹی  دکھاتے ہوئے کہا”پھر آپ بھی میری طرح گھر کی ٹونٹیاں لگاتے اور ٹھیک کرتے رہیں گے! “

پاکستانی وزارت خارجہ کے اعلی مناصب ریٹائرڈ آرمی افسران ان کے بیٹوں، سیاستدانوں کے رشتہ داروں، تعلق داروں اور چہیتوں کے کمانے اور بڑے بڑے سرمایہ داروں کی سیر و تفریح کے لئے ہیں، مقابلے کے امتحانات اور فارن سروسز کے کورسز میں کامیاب  ہونے والے فارن سروس کے ممبر ان کے منشی سے زیادہ کی حیثیت نہیں رکھتے، ایڑیاں رگڑتے ہوئےکسی کو قونصل جنرل یا نائب سفیر کی پوزیشن ملے تو ملے  ورنہ قناعت میں نوکری کرکے ‘ گمنامی میں سبکدوش ہوگئے.

مسلم لیگ کی بنیاد رکھنے والے سر سلطان محمد شاہ  آغاخان سوم نے لارڈ ماؤنٹ بیٹن سے قبل کے وائسرائے جنرل ریٹائرڈ ویول سے تقسیم ہند پر ان سے کراچی میں ایک اسماعیلی آغاخانی ریاست کی استدعا کی جسے حکومت برطانیہ نے مسلم لیگ کی ناراضگی کی بناء پر  مسترد کیا، فاطمین مصر کی احیاء کے خواب دیکھنے والے سر آغاخان دلبرداشتہ ہوکر سوئٹزرلینڈ میں مقیم ہوئے اور بچوں کو ڈانسنگ اور رنگ رلیوں کے علاوہ اور کوئی تربیت نہ دی، نتیجہ وہی نکلا، بیٹا علی سلمان خان اچھا ڈانسر اور ماہر خمریات قرار پایا، لارڈ چرسٹن کی حسین بیٹی جون چرسٹن سے(ازدواجی نام تاج الدولہ) شادی کی، جس کے بطن سے موجودہ امام کریم آغا خان شادی کے پانچویں مہینے  میں  پیدا ہوئے ، اس کو طلاق دے کر ہالی ووڈ کی  اداکارہ ریتا ہیورت سے شادی کی، رنگین مزاجی اور آورگی میں حد سے گزرنے پہ 1957ء  میں سر سلطان محمد شاہ نے اپنی وصیت میں پرنس علی کے بجائے اس کے بیٹے کریم آغا خان کو اپنا جانشین مقرر کیا، پیدائش کے وقت نوزائیدہ بچے کریم آغاخان کی ولدیت کو تسلیم نہ کرنے والے سلطان محمد شاہ سرآغاخان نے کسی لائق جانشین کی   عدم موجودگی میں بیس سال کی عمر میں1957 ء میں کریم کو بنیادی اسماعیلی روایات کے مکمل بر خلاف اسماعیلیوں کا امام مقرر کیا، اسی سال پاکستان کے صدر سکندر مرزا نے کریم آغاخان کے والد علی سلمان خان کو اقوام متحدہ میں پاکستان کا سفیر مقرر کیا!

حکومت پاکستان اس وقت جن مشکل حالات سے دوچار تھی اس  کا تقاضا تھا کہ کسی منجھے ہوئے سفارتکار یا امور خارجہ کے ماہر کا انتخاب ہوتا مگر پاکستان میں حالات کے تقاضے اور شخصی اوصاف کب قابل اعتناء رہے  ہیں. فارن پالیسی کے اس تشکیل دہندہ دور میں اقوام متحدہ میں آغاخان کے اس بیٹے کی تعیناتی ہوئی جسے والد نے امامت سے محروم کیا. پرنس علی سلمان خان مغرب کی آزاد دنیا میں بھی اتنا بدنام تھا کہ اس کی تعیناتی پر نیویارک ٹائمز کا اداریہ ان الفاظ میں ختم کیا گیا تھا کہ “پاکستان نے ایک ایسے آدمی کو دنیا کے سب بڑے ایوان میں نمائندگی کے لئے  منتخب کیا  جس کے منہ سے ابھی تک دنیا نے صرف دو ہی جملے سنے ہیں _
Where are the girls, and wine for everybody”

Advertisements
julia rana solicitors

ہر ایک کے لیے لڑکیاں اور شراب کہاں ہے؟!

Facebook Comments

رشید یوسفزئی
عربی، فارسی، انگریزی ، فرنچ زبان و ادب سے واقفیت رکھنے والے پشتون انٹلکچول اور نقاد رشید یوسفزئی کم عمری سے مختلف اخبارات، رسائل و جرائد میں مذہب، تاریخ، فلسفہ ، ادب و سماجیات پر لکھتے آئے ہیں۔ حفظِ قرآن و درس نظامی کے ساتھ انگریزی اور فرنچ زبان و ادب کے باقاعدہ طالب علم رہے ہیں۔ اپنی وسعتِ مطالعہ اور بے باک اندازِ تحریر کی وجہ سے سوشل میڈیا ، دنیائے درس و تدریس اور خصوصا ًاکیڈیمیا کے پشتون طلباء میں بے مثال مقبولیت رکھتے ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

براہ راست 2 تبصرے برائے تحریر ”فارن سروس، آغا خان سے جمشید مارکر تک۔۔ راشد یوسفزئی

Leave a Reply to اسما مغل Cancel reply