مقدمہ; فیمنزم : ایک جوابی بیانیہ/اعزاز کیانی

سماج کی تاریخ کا مطالعہ یہ بتاتا ہے کہ نئے رجحانات, نئی فکر یا کوئی نئی تحریک ہمیشہ کسی ایک مخصوص خطے میں پیدا ہوتی ہے اور بعد از رفتہ رفتہ دوسروں معاشرے بھی اس سے متعارف ہوتے ہیں۔ آج جو کچھ علم ہمارے پاس موجود ہے وہ سارا علم کم و بیش اسی قاعدے سے ہم تک پہنچا ہے۔
ایک نئی فکر جب کس ایک ملک یا معاشرے میں کامرانی حاصل کر لیتی ہے یا مقبول عام رجحان بن جاتی ہے تو دوسرے معاشروں کا اس سے متاثر ہونا فطری امر ہے۔ کوئی بھی فکر نظریہ جب کسی دوسرے معاشرے میں متعارف ہوتا ہے تو وہ وہاں کی تمدنی روایت, سماجی حالات اور علمی افکار کے تحت نہ صرف نئے مباحث پیدا کرتا ہے بلکہ نئی تعبیرات بھی وجود پاتی ہیں۔ یہ واقع نہ صرف یونانی فلسفے کے ساتھ بھی پیش آیا بلکہ جدید سائنس, اشتراکیت اور فیمنزم کے ساتھ بھی پیش آیا ہے۔
فیمنزم دراصل انسان کی سماجی تاریخ کے خلاف ایک رد عمل ہے۔ فیمنزم اپنے آغاز میں تو عام انسان حقوق کے حصول کی تحریک تھی لیکن بعد ازاں اس کا دائرہ وسیع ہوتا چلا گیا یہاں تک کہ یہ مباحث پیدا ہوگئے :
کیا وجود زن قائم بالذات ہے?
یا
کیا عورت ہونا حیاتیاتی امر ہے یا ایک تمدنی امر ہے?
ان اساسی مباحث کے باوجود فیمنزم کے نظریے نے بھی تحت بالا اصول مختلف معاشروں میں مختلف تعبیرات اختیار کی ہیں۔ ریڈیکل فیمنزم, لبرل فیمنزم, کمیونسٹ فیمنزم اور اسلامی فمینزم اس کی چند نمایاں مثالیں ہیں۔
ہمارے ہاں بھی اس وقت فیمنزم ایک عام موضوع بحث ہے۔ پاکستان میں فمینزم بحثیت ایک نظریہ کے تو کافی عرصے سے متعارف ہو چکا تھا لیکن اس نظریے نے مقامی سطح پر کسی تحریک کی شکل اختیار نہیں کی تھی۔ فمینزم بحثیت ایک باقاعدہ تحریک کی بابت بجا طور پر یہ کہا جا سکتا ہے کہ گزشتہ سالوں سے شروع ہونے والے عورت مارچ نے اسے ایک تحریک کی شکل دی ہے۔
عورت مارچ کی بابت میرا احساس یہ ہے یہ عورچ مارچ کسی باقاعدہ منصوبہ بندی و تیاری کے ساتھ نہیں شروع کیا گیا تھا بلکہ یہ ایک فوری ردعمل کا نتیجہ تھا۔ ردعمل کی نفسیات کی بابت میری رائے یہ ہے کہ ردعمل کی نفسیات ہمیشہ انتہا پسند ہوتی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ عورت مارچ اپنی ابتدا میں کوئی واضح منشور و ہدف اور تعبیر نہیں رکھتا تھا بلکہ وہ مجرد ردعمل تھا۔ جو لوگ بھی اس وقت اس مارچ میں شریک ہوئے وہ سب اس اساسی نفسیات کے ساتھ مگر منفرد و ذاتی خیال و فکر کے ساتھ شریک ہوئے تھے۔ عورت مارچ میں لگائے جانے والے کچھ متنازع نعرے بھی اس انفرادی خیال و فکر کا اظہار تھے۔ البتہ ازاں بعد عورت مارچ پر جب تنقیدات ہوئیں تو منتظمین کی توجہ اس جانب مبذول ہوئی اور کچھ بہتری کی سعی بھی کی گئی ہے۔
پاکستان میں جہاں کچھ لوگ اس فمینزم کے حامی ہیں وہاں کچھ لوگ اس فمینزم کے شدید ناقد بھی ہیں۔ ناقدین کی بابت میرا احساس یہ ہے وہ ان نتائج یا تبدیلیوں سے خوفزدہ ہیں جو اس تحریک سے مغرب میں پیدا ہوئی ہیں۔ فمینزم کے چند نمایاں نتائج انہدام خاندان, مرد و زن کا آزادانہ اختلاط اور اسقاط حمل وغیرہ ہیں۔ میرے نزدیک یہ خدشات نہ صرف درست ہیں بلکہ میرا ذاتی احساس یہ ہے کہ اگر فمینزم کی مناسب تعبیر اختیار نہ کی جائے تو یہ مرد و زن میں مقابلہ و مسابقت یا باالفاظ دیگر رقابت کو جنم دے گی۔
اس بات میں بھی کوئی شبہ نہیں ہے کہ پاکستان میں خواتین کے حقوق فی الواقع محدود ہیں اور بسااوقات عورت کی زندگی رسل کے الفاظ میں ‘گھریلو جانور’ کی سی ہو جاتی ہے۔
عورت کے چند نمایاں مسائل جبری شادی, حق وراثت سے محرومی, سن ضغیر میں شادی, گھریلو تشدد, حق تعلیم سے محرومی, اور سماجی سطح پر عدم مساوات و امتیازی سلوک ہیں۔
میرے نزدیک ضروری ہے کہ عورت کے مندرجہ بالا مسائل کے انسداد کے لیے تاثینیت کی متبادل تعبیر اختیار کی جائے۔
1) مرد و عورت معاشرے کے دو بنیادی ارکان ہیں۔ کوئی معاشرہ اس وقت بہتر نتائج پیدا کر سکتا ہے جب اسکے ارکان کے مابین تعاون و رفاقت کا رشتہ قائم ہو۔ لہذا ضروری ہے سب سے اول مرد و زن کے مابین تعاون و اشرراک کا رشتہ قائم کیا جائے نہ کہ مرد و زن کو باہم مقابل کھڑا کیا جائے جو ایک نئے معاشرتی مسئلے کو جنم دے گا۔
2) دوم عورت کو اسکی عملی زندگی میں اسکے حقوق دلاوائے جائیں۔
الف) اس کے لیے عوامی سطح پر تربیت و تعلیم کا موثر انتظام کیا جائے تاکہ عوام میں حقوق نسواں, مسائل نسواں کا شعور بیدار ہو اور خواتین کے متعلق موجود امتیازی رویے اور صنفی تعصب کا خاتمہ ہو سکے۔
ب) حقوق نسواں سے متعلق جہاں جہاں قوانین میں اسقام ہیں وہاں قانونی ترامیم کی جائیں اور جہاں نئے قوانین کی ضرورت ہے نئی قانون سازی جائے اور قانون شکن افراد کو فوری سزا دی جائے۔
ج) ریاستی و نجی سطح پر ایسے ادارے و تنظیمیں قائم کی جائیں جو پسماندہ علاقوں کے خواتین کے مدد و معاونت اور تعلیم و تربیت کا انتظام کریں۔
3) معاشرے میں عورت کے عام کردار کو قابل قبول بنایا جائے۔
میرے نزدیک مندرجہ بالا تعبیر ہی سے حقوق نسواں کا حصول اور مسائل نسواں کا سدباب ممکن ہے اور فیمنزم کی انتہائی تعبیر کے نتائج سے بھی محفوظ ہوا جا سکتا ہے۔

Facebook Comments

اعزاز کیانی
میرا نام اعزاز احمد کیانی ہے میرا تعلق پانیولہ (ضلع پونچھ) آزاد کشمیر سے ہے۔ میں آی ٹی کا طالب علم ہوں اور اسی سلسلے میں راولپنڈی میں قیام پذیر ہوں۔ روزنامہ پرنٹاس میں مستقل کالم نگار ہوں ۔ذاتی طور پر قدامت پسند ہوں اور بنیادی طور نظریاتی آدمی ہوں اور نئے افکار کے اظہار کا قائل اور علمبردار ہوں ۔ جستجو حق اور تحقیق میرا خاصہ اور شوق ہے اور میرا یہی شوق ہی میرا مشغلہ ہے۔ انسانی معاشرے سے متعلقہ تمام امور ہی میرے دلچسپی کے موضوعات ہیں مگر مذہبی وقومی مسائل اور امور ایک درجہ فضیلت رکھتے ہیں۔شاعری سے بھی شغف رکھتا ہوں اور شعرا میں اقبال سے بے حد متاثر ہوں اور غالب بھی پسندیدہ شعرا میں سے ہیں ۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply