یہ ہے ہماری ثقافت/حسان عالمگیر عباسی

میں اکثر سوچتا تھا کہ ہمارے علاقے کی ثقافت ہے تو کہاں ہے؟ اور ثقافت ہے کیا؟ پہلے زمانے کی باتیں ہی الگ تھیں! وہاں سے ثقافتی رنگ باآسانی کشید کیے جا سکتے ہیں لیکن حال میں زندہ رہنا چاہیے پہ ایمان لانے والوں کو کھوج ہوتی ہے اور ہونی بھی چاہیے اور ہر سانس کی قیمت بھی تو ہونی چاہیے۔ ہماری ثقافت دراصل موسم بہار ہے۔

مہینوں بعد گاؤں آیا تو بدلا بدلا لگا چونکہ درختوں پہ سیب، آلوچوں، خوبانیوں کے پھول تتلا رہے تھے۔ اسے دسمبر کی ویرانیوں، برفباری کا انتظار کرتی پہاڑیوں کے سپرد کر کے گیا تھا۔ ہمارے ہاں ویرانیاں ہیں۔ یہ ویرانیاں خاموشیاں بھی بہت زبردست ثقافت ہے۔ ایک تنہائی آپ کے اندر ہوتی ہے جو قاتل ہوتی ہے لیکن یہاں کی تنہائیاں زندگی دیتی ہیں۔ جب گاڑیوں کی پیپنیوں کی آوازیں نہ ہوں یا مدہم ہوں، جب شور و غوغا نہ ہو اور اس حد تک خاموشی ہو کہ اونچا بولو تو وہی آواز اگلے پہاڑ سے ٹکرا کر واپس سنائی دے، پہاڑ ہوں، سورج کا نکلنا ڈوبنا ہو، پہاڑیوں پہ دھند کا راج ہو، آسمان پہ نیلا رنگ شعوری رنگ سے بھرا نظر آئے، درخت ہوں، نالیوں میں بہتے پانی سے انفرادیت کا شعور پیدا ہوتا ہو، میدان ہو اور پہاڑیوں کے کنارے بھی ہوں، مختلف اور منفرد بچے ہوں، جی دار بھی ہوں، مایوسیوں سے دور پرامید بچیاں ہوں تو یہ بھی ایک زبردست رنگ ہے اور یہی رنگ ہی تو ہماری ثقافت ہے۔ یہاں یقیناً بہت مختلف اور اعلی نسل کی وائبز ہیں!

ہمارے یہاں تنہائی ہے لیکن خوف نہیں ہے۔ کئی بار رات کے تین چار بجے بھی پہاڑوں کو چیرتے ہوئے جنگلات سے ہوتے ہوئے گھر کو آجایا کرتے ہیں۔ بزرگوں کی بہادری کے قصے ایک بالکل الگ موضوع ہے۔ یہاں کے رسم و رواج، معاملات، تجارت نوعیت کے اعتبار سے انتہائی مختلف ہیں۔ باہر سے آنے والا پہاڑ کی تصویر یا پھولوں کے ساتھ سیلفی ضرور لے سکتا ہے لیکن شعوری اعتبار سے جاننے کے لیے یہاں پیدا ہونا پڑنا ہے۔ چونکہ ویرانیاں ہیں۔ آبادی کم ہے۔ البتہ سیزن میں یہاں بھی جگ مگ جگ مگ والا معاملہ ہے لیکن اختلاف لیل و نہار کی حقیقت سے ہٹ کر بیشتر اوقات اندھیرے ہی ہیں۔ راتیں بہت طویل ہیں۔ چونکہ ایسا ہے تو ثقافتی پہلو بھی ہیں۔ جن، بلائیں، بھوت، چڑیل، کوڑاڈینچ، پریاں، اور کالے دانتوں والیوں کی کہانیاں بھی عام ہیں۔ بہادری اپنی جگہ لیکن یہ کہانیاں بھی اپنی جگہ ایگزسٹ کرتی ہیں۔ کئی بار جن بھوت کا روپ دھار کر ڈرانے دھمکانے والی حقیقی کہانیاں بھی ہیں۔ لوگ کہتے ہیں کہ ہم فلاں فلاں جگہ سے گزر رہے تھے تو وہاں سے چاولوں کے پکنے کی خوشبو آرہی تھی۔ فلاں فلاں جگہ پہ چیڑ کے درختوں پہ آشیانے بنانے والی باہر کی مخلوقات نے سنگ باری کی تھی۔

کل بڑا شغل ہوا تھا۔ رات مجھے ایک بندہ ملا۔ میں اور میرا لاہوری دوست گشت پہ تھے۔ سڑک پہ گھوم رہے تھے اور پرسپیکٹوز ڈسکس کر رہے تھے۔ جہاں لنک روڈ ختم ہوتی ہے سے واپس مڑے تو حبیبی کا راستے میں گھر پڑتا ہے وہ رک گیا۔ میں اکیلا تھا۔ چلتا گیا۔ چلتا گیا۔ ایک جگہ رکا اور پھر چلتا ہوا۔ چلتے چلتے ایک روشنی نظر آئی جو بنیادی طور پہ ایک ثقافتی رنگ ہے۔ یہ ٹارچ ہوتی ہے۔ یہاں کے بسنے والے خاص طور باہر ممالک سے منگواتے ہیں۔ رات کے گیارہ بج رہے تھے۔ آج کل کے حساب سے گیارہ بجنا رات دو تین کے برابر ہے۔ وہ رکے اور علیک سلیک کے بعد پوچھا کہ کہاں سے آرہے ہو۔ میں نے بہکی بہکی کہیں۔ ازراہ مذاق پوچھا اسلحہ کہاں ہے؟ میں نے کہا یہ اسلحہ ہی تو ہے۔ دراصل ہاتھ میں گورمے کی بوتل تھی جو بازار سے خریدی تھی اور وقفے وقفے سے گھونٹ گھونٹ لے رہا تھا۔ وہ چلے گئے اور میں بھی چلا گیا۔

آج پھر شغل ہوا ہے۔ وہی صاحب دھوپ دھوپ میں مل گئے۔ میں بائیک پہ مری شہر سے پہنچا ہی تھا۔ کہتے ہیں رات آپ وہاں کیا کر رہے تھے؟ میں نے کہا کہاں؟ میرا کیا کام ہے رات کے بارہ بجے قبرستان کے پاس؟ میں تو آج ہی پنڈی سے پہنچا ہوں وغیرہ وغیرہ۔ بلکہ ابھی پنڈی سے ہی آرہا ہوں۔ آپ ایک انسان ہیں اور انسان بھول چوک کر جاتا ہے۔ کوئی ملا ہی نہیں ہونا یا کوئی اور ہوا ہونا ہے وغیرہ وغیرہ۔ وہ تلملائے اور خوف کی کیفیت میں نکل گئے۔ آگے جاکر رکے۔ واپس آئے اور کہا بخدا قسم سے رات آپ سے ہی ملا تھا۔ وہ ملاقات آپ ہی سے ہوئی تھی۔ آپ کے ہاتھ میں ایک بوتل تھی جو آپ وقفے وقفے سے پی رہے تھے۔ میں نے بھی کہہ دیا کہ پچھلے چار ماہ سے میں نے تو بوتل کا گھونٹ تک نہیں لیا۔ میں کب کا چھوڑ چکا ہوں۔ وہ ہکے بکے رہ گئے۔ وہ سوچ میں پڑ گئے کہ اگر وہ آپ نہیں تھے تو آخر کون تھا اور یہاں میں اندر ہی اندر ہنس رہا تھا لوٹ پوٹ ہو رہا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

آخر کہنے لگے کہ یرا تو میکی بڑی مشکل وچ بائی سٹیا۔ ان کی سبزی کی دکان ہے۔ وہ روز وہاں سے بارہ بجے گزرتے ہیں۔ انھیں لگا کہ اگر وہ میں نہیں تھا تو کون تھا وہ؟ اسی کشمکش میں وہ چلے گئے۔ میں نے پہلے سوچا ڈر رہے ہیں تو ڈرتے ہی رہیں کیونکہ ڈر کے آگے ہی تو جیت ہے وغیرہ وغیرہ۔ میں بائیک پہ تھا۔ ان کا پیچھا کیا اور بتا دیا کہ اللہ نے بندیو کیاں ڈرنے ہو؟ او میں ای ایساں۔ وہ میں ہی تھا۔ یہ ہے ہماری ثقافت۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply