کیا منیبہ مزاری ناراض ہیں ؟-ثاقب لقمان قریشی

منیبہ مزاری پاکستان کی واحد عالمی شہرت یافتہ خصوصی خاتون ہیں۔ منیبہ سوشل ورکر، موٹیویشنل سپیکر اور ملک کی پہلی ویل چیئر ماڈل بھی ہیں۔ میں نے منیبہ کے بہت سے لیکچرز سنے ہیں۔ انکے لیکچرز انسان کو زندگی کی حقیقت کے بارے میں سوچنے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ عالمی پلیٹ فارمز پر یہ جب ملک کی نمائندگی کرتی ہیں تو مزہ آجاتا ہے۔

منیبہ مزاری سے پہلے ہمارے معاشرے میں معذور لڑکیوں کو اہمیت نہیں دی جاتی تھی۔ معذور لڑکیوں کو بے کار اور ناکارہ تصور کیا جاتا تھا۔ 2015ء میں منیبہ کو اقوام متحدہ کی خواتین کے حقوق کیلئے کام کرنے والی تنظیم نے خواتین کے حقوق کا ایمبیسڈر مقرر کیا جبکہ 2016ء میں فاربس نے انھیں تیس سال سے کم عمر کے ابھرتے لیڈرز کی لسٹ میں شامل کیا۔منیبہ اپنی خوبصورت شخصیت کے ساتھ ہمیں پاکستان ٹیلی ویژن کی رمضان ٹرانسمیشن میں بھی نظر آتی ہیں۔ اسکے علاوہ ہم ٹی وی پر “میں نہیں ہم” کے نام سے ایک پروگرام کی میزبانی بھی کر چکی ہیں۔

منیبہ کی پیدائش 3 مارچ 1987 کو رحیم یار خان میں ہوئی۔ ان کا تعلق مشہور مزاری قبیلے سے ہے۔ ابتدائی تعلیم آرمی پبلک سکول سے حاصل کی۔ فائن آرٹس میں ڈگری کی۔ جس کے بعد انکی شادی ہوگئی۔ منیبہ کے شوہر پاک فضائیہ میں آفیسر تھے۔ 27 فروری 2008 کو منیبہ اپنے شوہر کے ساتھ کوئٹہ سے رحیم یار خان آرہی تھیں کہ انکی گاڑی حادثے کا شکار ہوگئی۔ حادثے کے نتیجے میں منیبہ کے ہاتھ، سینے اور ریڑھ کی ہڈی متعدد جگہ سے ٹوٹ گئیں۔ جگر اور پھیھڑوں پر بھی کٹ لگے۔ پہلے انھیں رحیم یار خان کے مقامی ہسپتال لے جایا گیا۔ جہاں آلات اور آگہی کی کمی کی وجہ سے کیس کو مزید خراب کر دیا گیا۔ پھر بڑے ہسپتال میں داخل کیا گیا۔ وہاں بھی بات نہ بنی تو انھیں کراچی کے آغا خان ہسپتال لے جایا گیا۔دو سال بیڈ پر رہیں اس دوران فیزیوتھراپی چلتی رہی۔ جس کے بعد منیبہ ویل چیئر چلانے کے قابل ہوگئیں۔حادثے کے چار سال بعد انھوں نے ایک بچہ گود لے لیا اور اسکے ساتھ مصروف ہوگئیں۔ منیبہ کو پہلی نوکری فیس بک پیج چلانے کی ملی۔ انھوں نے اپنے بچے کے سکول کے سٹارٹ اپ پراجیکٹ “دھیرے بلو” کے لیئے بھی کام کیا۔ پاکستان ٹیلی ویژن کے اس وقت کے ایم-ڈی محمد سلیم نے انکے بارے میں سنا تو انھیں پی-ٹی-وی میں نوکری دے دی۔ پونڈز کمپنی نے انھیں بہادر ترین خاتون کا خطاب دیا۔ ٹونی اینڈ گائے نے انھیں ایشیاء کی پہلی ویل چیئر ماڈل کے طور پر متعارف کروایا۔ منیبہ تیزی سے کامیابی کی منزلیں طے کر رہی تھیں۔ انکے شوہر انھیں طلاق دے چکے تھے۔ طلاق کا صدمہ بھی انکے حوصلے پست نہ کرسکا۔ پھر انکے سابق شوہر نے ان پر ہتک عزت کا مقدمہ کر دیا۔

ہمارے ملک میں معذور افراد کے حقوق پر بہت سی این-جی-اوز کام کر رہی ہیں۔ اسلام آباد، لاہور، ملتان، کراچی، کوئٹہ اور پشاور کی کچھ این-جی-اوز معذور افراد کے حقوق پر طویل عرصے سے کام کر رہی ہیں۔ سال کے ہر مہینے میں کم از کم ایک مرتبہ یہ چند این-جی-اوز اسلام آباد میں کسی میٹنگ یا سیمینار میں ضرور اکٹھے ہوتے ہیں۔ پانچ چھ این-جی-اوز کے اس نیٹ ورک کی خواہش ہوتی ہے کہ پاکستان میں معذور افراد کے حقوق کے نام پر جب بھی بات کی جائے تو انہی سے کی جائے۔ مقامی یا انٹرنیشل ایوارڈز انھیں ہی ملیں۔ باہر سے جتنی فنڈنگ آئے انہی کے ذریعے آگے تقسیم ہو۔ انکے فنکشنز فائیو سٹار ہوٹلز میں ہوتے ہیں۔ انکی میٹنگز اور سیمینار سے آج تک معذور افراد کی زندگی میں معمولی سی تبدیلی بھی نہیں آئی۔

این-جی-اوز کا یہ نیٹ ورک منیبہ کی شہرت سے خائف تھا۔ جیسے ہی منیبہ کے سابقہ شوہر نے ان پر مقدمہ کیا۔ اس نیٹ ورک نے ایک پریس کانفرس میں کہا کہ منیبہ کا ماڈل خیرات پر منبی ہے۔ اسکے برعکس ہم معذور افراد کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کے مشن پر کام کر رہے ہیں۔ ہم منیبہ مزاری کو معذور افراد کے حقوق کی تحریک کا حصہ نہیں سمجھتے اسلیئے انھیں اس تحریک سے باہر نکالتے ہیں۔ اس نیٹ ورک سے پوچھا جائے کہ معذور افراد کے نام کی جو تحریک آپ چلا رہے ہیں وہ کہاں ہے۔ کون سی تبدیلی ہے جو آپ لے کر آئے ہیں۔ پھر آپ کو کس نے یہ حق دیا کہ کسی معذور لڑکی کو تحریک سے الگ کریں۔

میں نے جب معذور افراد کے حقوق کیلئے آواز اٹھانا شروع کی تو میرے راستے کی رکاوٹ بھی یہی این-جی-اوز تھیں۔ کئی سالوں کی سوچ بچار کے بعد میں نے معذور افراد کو سوشل میڈیا پر اکٹھا کرنا شروع کر دیا۔ پھر کامیاب معذور افراد کے انٹریوز لینا شروع کر دیئے- جسکی وجہ سے بہت سے نوجوان لیڈرز کو سامنے آنے کا موقع ملا۔

میں معذور افراد کے حقوق پر ڈیڑھ سو سے زائد کالمز لکھ چکا ہوں۔ میٹنگز اور سیمنارز پر یقین نہیں رکھتا۔ مجھے میرے کام پر آج تک کوئی ایوارڈ نہیں ملا لیکن میں نے اپنا کام جاری رکھا ہوا ہے کیونکہ میں اللہ کی رضا کیلئے کام کر رہا ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

منیبہ مزاری ان واقعات کے بعد منظر سے غائب ہیں۔ نہ ہی معذور افراد کے حقوق پر اس طرح بات کرتیں جس طرح پہلے کرتیں تھیں۔ میں سمجھتا ہوں کہ منیبہ مزاری آج بھی معذور افراد کی مقبول ترین لیڈر ہیں۔ معذور افراد کے مسائل کو دنیا تک پہنچانے کی جو طاقت انکے پاس ہے کسی دوسرے میں نہیں ہے۔ ہمارے ملک کی بیس فیصد کے لگ بھگ آبادی کسی نہ کسی قسم کی ذہنی یا جسمانی معذوری کا شکار ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ منیبہ کو معذور افراد کے حقوق کی تحریک میں دوبارہ سرگرم ہونا چاہیئے۔ کیونکہ جتنی خوبصورتی سے منیبہ ہمارا پیغام دنیا تک پہنچا سکتی ہیں کوئی دوسرا نہیں پہنچا سکتا۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply