• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • گوشہ ہند
  • /
  • اروندھتی را ئے کی خصوصی تحریر — آج کے وقت میں دوسروں کے لیے بولنا اور بھی ضروری ہے/حصّہ اوّل

اروندھتی را ئے کی خصوصی تحریر — آج کے وقت میں دوسروں کے لیے بولنا اور بھی ضروری ہے/حصّہ اوّل

 ایک مسلمان وہ نہیں کہہ سکتا جو ایک ہندو کہہ سکتا ہے؟ ایک کشمیری وہ نہیں کہہ سکتاہے جو دوسرے لوگ کہہ سکتے ہیں۔آج یکجہتی، بھائی چارہ اور دوسروں کے حقوق کے لیے آواز اٹھانا پہلے سے کہیں زیادہ ضروری ہوگیا ہے ،لیکن ایسا کرنا نہایت خطرناک اور جان جوکھم میں ڈالنے کی طرح ہے ۔ 

(ارندھتی رائے کے اسٹوارٹ ہال میموریل لیکچر کامکمل متن جو30ستمبر 2022 کو لندن کے کون وے ہال میں منعقد جلسے میں دیاگیا تھا۔)

اسٹوارٹ ہال میموریل لیکچر کے لیے مدعو کرنے کے لیے میں آپ کی مشکور وممنون ہوں۔ایسا محسوس ہو رہا ہے کہ جیسےعرصہ سے ہم لوگ اس کےمنتظرتھے۔شاید میں کبھی  اس خوشی اور مسرت کو بھلا نہیں پاؤں  گی جومجھے اس وقت یہاں اپنے ہی جیسے لوگوں کے درمیان محسوس ہورہی ہے۔

وبا کا قہر کسی حد تک کم تو ہوا ہے لیکن ابھی تک ہم میں سے بہت سے لوگ اس سے ملے اندوہ ناک دردوغم سے ابھرنے کی کوشش کر رہے ہیں۔مجھے یہ یقین ہی نہیں ہوتا ہے کہ میں اسٹوارٹ ہال سے کبھی ملی ہی نہیں،بلکہ مجھے تو انہیں پڑھنے کے بعد ایسا محسوس ہوتا ہے کہ جیسے ہم دونوں نے ایک طویل عرصہ ہنستے بولتے ایک ساتھ گزارا ہے۔

اس لیکچر کا موضوع’تھنگس دیٹ کین ایند کین ناٹ بی سیڈ‘میری ایک مختصر سی کتاب کانام ہے جو میں نے ایکٹر جان کیوسک کے ساتھ مل کرلکھی ۔یہ روس میں کیے گئے ایک سفر کے متعلق ہے جو 2013 میں ہم دونوں نے ماسکومیں موجودایڈورڈ اسنوڈین سے ملاقات کے لیے کیا تھا۔اس سفر میں ہمارے ساتھ ڈینیئل ایلسبرگ بھی تھے۔

ان لوگوں کے لیے یہ واضح کردوں جو شاید اس وقت کافی چھوٹے رہے ہوں گے کہ اسنوڈین جرائم کو بے نقاب کرنے والے وہ صحافی تھے جنھوں نے امریکی وزارت دفاع کی ویتنام جنگ کے دوران،تواتر سے کی گئی، دروغ گوئی کو  دستاویزی ثبوتوں کے ساتھ دنیا کے سامنے اجاگر کیا تھا۔

اسنوڈین جس نے ہم کو سالوں پہلے خبردار کر دیا تھا کہ ہم بالکل بے خبری کی حالت میں،جیسے کوئی نیند میں چل رہا ہو، آہستہ آہستہ قیدوبند اور جبر و قہر کے ساتھ نگرانی کرنے والی حکومتوں کے دور میں اپنے ایک نہایت عزیز چھوٹے  سے دوست، فون کے ساتھ داخل ہورہے ہیں۔یہ چھوٹا سا ہمارا دوست اب ہمارے جسم کے ایک اہم عضو کی طرح، ہماری زندگی کا ایک حصہ بن گیا ہے۔

وہ ہر وقت ہماری نگرانی کرتا رہتا ہے اور ہماری پل پل کی نہایت ذاتی قسم کی حرکات و سکنات ریکارڈ کر کے ترسیل کرتا رہتا ہے تاکہ ہر وقت ہماری نگرانی کی جاسکے اور بہ آسانی ہمارا تعاقب کیا جاسکے، ا ور اس طرح ہم پر مکمل قابو حاصل کر کے ہم کو ایک معیاری قسم کا ‘فرماں بردار’ پالتوبنایا جاسکے۔ یہ صرف حکومتیں ہی نہیں کر رہی ہیں بلکہ ہم سب بھی ایک دوسرے کے ساتھ کر رہے ہیں۔

تصور کیجیے کہ  اگر آپ کا جگر یا پِتّاصحیح کام نہیں کر رہا ہے تو ڈاکٹر آپ سے یہی کہے گا کہ آپ ایک موذی مرض میں مبتلا ہیں۔ بس سمجھ لیجیے کہ  ہماری یہی حالت ہے، اب ہم اپنے اس دوست نمادشمن ‘فون’ کے بغیر کچھ نہیں کر سکتے، لیکن یہ ستم گر ہمارے اندر سب کچھ کر رہا ہے۔ میں آج اپنی بات ‘کہی جاسکنے اور نہ کہی جاسکنے’والی باتوں سے شروع کروں گی اور اُس کے بعد اپنی اس نہایت جانی پہچانی خوبصورت دنیا کے بکھرنے کا ذکر کروں گی۔

یہ سال اُن لوگوں کے لیے بدتر تھا، جنھوں نے وہ باتیں کہی تھیں یا کی تھیں،جن کا کہنا یا کرنا منع تھا۔ ایران میں 22سالہ مہسا امینی کو اس وقت قتل کر دیا گیا جب وہ ‘گشت ارشاد’ یعنی اخلاقی پولیس کی حراست میں  تھی، اس کا گناہ یہ تھا کہ اس نے حکومت کی ہدایت کے مطابق اسکارف نہیں پہنا تھا۔ اس کے بعد جو احتجاجی مظاہرہ  ہوا اور جو اس وقت  جاری ہے اس میں بہت سے لوگ مارے گئے۔

دریں اثنا،  ہندوستان کی جنوبی ریاست کرناٹک میں اسکول میں پڑھنے والی مسلم بچیوں نے اپنی مسلم شناخت کو واضح کرنے کے لیے جب اپنے کلاس روم میں حجاب پہنا تو دائیں بازو کےشدت پسند ہندوؤں نے اُن کو جسمانی  طور پرہراساں کرنے کی کوشش کی۔ حالانکہ یہ وہ جگہ ہے جہاں ہندو اور مسلمان صدیوں سے مل جل کر رہتے چلے آرہے ہیں، لیکن حال ہی میں انتہائی  خطرناک حد تک پولرائز ہوچکے ہیں۔

دونوں واقعات — کہ ایران میں حجاب کی پابندی اور ہندوستان اور دوسرے ممالک میں حجاب کی ممانعت—دو متضاد باتیں نظر آتی ہیں،لیکن اصل میں ایسا ہےنہیں، عورتوں کو زبردستی حجاب پہننے پر مجبور کرنا،یا نہ پہننے پر مجبور کرنا دراصل دونوں ہی جبر و استبداد کے مترادف ہیں۔ان کے کپڑے اتارو، ان کو کپڑے پہناؤ،یہ تو عورت کے اوپر تسلط جمانے اور اس کو اپنا تابع بنانے کا صدیوں پرانا مشغلہ ہے۔

اگست میں، سلمان رشدی پر نیویارک میں ایک مسلم شدت پسند کے ذریعےان کی کتاب ‘شیطانی آیات’ کی و جہ سے وحشیانہ حملہ کیاگیا۔ان کی یہ کتاب 1988 میں پہلی بار شائع ہوئی تھی۔1989 میں آیت اللہ خمینی نے جو ایران میں انقلاب کے بعد، اسلامک ری پبلک آف ایران کے پہلے سربراہ تھے،رشدی کی موت کا فتویٰ صادر کیا تھا۔ اتناعرصہ گزر جانے کے بعد اب جبکہ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ اس کتاب کی وجہ سے جو جذبات مشتعل ہوئے تھے اور غم و غصہ پیدا ہوا تھا وہ اب ٹھنڈا ہوچکا ہوگا،اور اس کی وجہ سے آہستہ آہستہ رشدی روپوشی سے باہر نکلے تھےکہ ان پریہ حملہ ہوگیا۔

رشدی کے اس حملہ میں بچ جانےاور ان کے اچھے ہونے کی ابتدائی خبروں کے بعد ،مجموعی طور پران کے بارے میں کوئی خبر نہیں ہے۔ ہم توصرف یہ امید ہی کرسکتے ہیں کہ وہ صحت یاب ہورہے ہیں اور دوبارہ صحیح و سالم ادب کی دنیا میں واپس لوٹیں گے۔ امریکہ اور یورپ کے سربراہان مملکت  نے پورے طور پر رشدی کی حمایت کی  اور بعض نے تو اس موقع سے فائدہ ا ٹھاتے ہوئے یہ تک کہا ہے کہ ،’ان کی لڑائی ہماری  لڑائی ہے۔’

اسی دوران جولین اسانژ،جس نے ان ممالک کے اُن فوجیوں کے خوفناک جرائم کا پردہ فاش کیا تھا— جنھوں نے جنگوں میں لاکھوں افراد کو موت کے گھاٹ اتار دیاتھا،وہ اب تشویشناک حد تک خرابی صحت اور بیماری کی حالت میں بیلمارش جیل میں قید ہیں۔اور امریکہ کو حوالے کیے جانے  کا انتظار کر رہے ہیں  جہاں ان کو موت کی سزا یا عمر قید ہوسکتی ہے۔

لہٰذا ہم کو رشدی پر اس خوفناک حملے کو ‘تہذیبوں کے تصادم’یا’جمہوریت بمقابلہ تاریکی’ جیسی فرسودہ  اصطلاحات میں ڈھالنے  سے پہلے توقف اور تحمل سے کام لینا ہوگا،کیوں کہ’آزادی اظہار’کے نام نہاد اماموں کی سربراہی میں کیے گئے حملوں میں لاکھوں افراد ہلاک ہوچکے ہیں اور اِن لاکھوں میں ہزاروں ادیب و شاعر اور دوسرے فنکار بھی شامل  ہیں۔

جہاں تک ہندوستان سے خبروں کا تعلق ہے،جون میں، ہندوستان کی برسر اقتدار ہندو نیشنلسٹ پارٹی،بی جےپی کی ترجمان نُوپور شرما نے،جوکبھی  ٹی وی کے ٹاک شو ز میں مستقل اپنے تحکمانہ اوردھمکانے والے انداز کے ساتھ نظر آتی تھیں، انھوں نےپیغمبر اسلام کے خلاف نہایت ہی غیرمناسب تبصرے کیے تھے،جن کا واحدمقصد صرف جذبات کو بھڑکانا ہی نظر آتا تھا، جس پر بین الاقوامی طور پر کافی واویلا مچا  اور جان سے مارنے کی دھمکیاں بھی انھیں ملیں۔

جس کے بعد وہ تو پبلک لائف سے غائب ہوگئیں، لیکن دوسرے  ہندو جنھوں نے نُوپور شرما کے الفاظ دہرائے تھے انھیں دن دہاڑے،بے رحمی سے سر قلم کر کے قتل کر دیاگیا،اور اس کے بعد کچھ شدت پسند متعصب مسلمانوں نے ‘سر تن سے جدا’کے نعرے لگائے اور حکومت سے’اہانت رسول’کے سلسلےمیں قانون پاس کرنے کی مانگ شروع کر دی ،شاید ان مذہبی جیالوں کو اس بات کا قطعی احساس نہیں تھا کہ حکومت کے لیے ان کی یہ حیوانی متعصب شدت پسندی کس قدر خوشی کا باعث ہوسکتی ہے۔

صر ف یہی لوگ، قتل و غارت گری اور سینسر شپ کا مقابلہ نہیں کر رہے ہیں۔اس مہینے کے شروع میں،میں بنگلور میں تھی،میں وہاں اپنی دوست گوری لنکیش کے قتل کی پانچویں برسی پر اپنے تاثرات کا اظہار کرنے کے لیے گئی تھی۔وہ ایک صحافی تھیں جن کو ان کے گھر کے باہر،ہندو شدت پسندوں نے گولی مار کر ہلاک کر دیا تھا۔ان کا قتل،ان متعدد ہلاکتوں میں سے ایک تھا،جوغالباً ایک ہی بدنام گروہ نے انجام دیے تھے۔

ڈاکٹر نریندر دابھولکر جو ایک ڈاکٹر ہونے کے ساتھ ہی مشہور و معروف (عقلیت پسند)مفکر بھی تھے، ان کو2013 میں گولی مار کر ہلاک کیاگیا تھا۔کامریڈ گووند پانسرے،جو ایک ادیب تھے اور کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ممبر تھے ان کو2015 میں گولی مار ی گئی تھی اور کنّڑزبان کے عالم پروفیسر ایم ایم کلبرگی کو اسی سال اگست میں گولی ماری گئی تھی۔

صرف قتل کرنا ہی سینسر شپ کا واحد ایک طریقہ نہیں ہے، جس کا ہم سامنا کر رہے ہیں۔ 2022 میں ورلڈپریس فریڈم انڈیکس کی 180 ملکوں کی فہرست میں ہندوستان 150ویں نمبر پر تھا،یعنی پاکستان، سری لنکا اور میانمار سے بھی نیچے۔ ہمیں صرف حکومت کی طرف سے ہی نہیں  بلکہ سڑکوں پر ہجوم کے ذریعے، سوشل میڈیا پرٹرول کے ذریعے اور ستم ظریفی یہ کہ خود میڈیا کے ذریعے نشانہ بنایا جاتاہے۔

سینکڑوں 24×7 ٹی وی نیوزچینل جن کو ہم اکثر’ریڈیو روانڈا’کہتے ہیں،ہمارے بے لگام ٹی وی اینکرزمسلمانوں اور ‘اینٹی نیشنل’ لوگوں کے خلاف نہایت غصے میں چِلاتے نظر آتے ہیں اور سوال کرنے یا کسی طرح کا اختلاف کرنے والوں کو برطرف کرنے، گرفتار کرنے اور سزا دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔

انھوں نے بغیر کسی جوابدہی کے، بعض لوگوں کی زندگی کو اور ان کی ساکھ کو پوری طرح سے تباہ وبرباد کر دیا ہے۔سماجی کارکن،شاعر، ادیب، دانشور، صحافی،  وکیل اور طلبہ تقریباً ہرروز گرفتار کیے جارہے ہیں۔جہاں تک کشمیر کا سوال  ہے،وادی سے کوئی خبر نہیں آسکتی۔وہ ایک وسیع و عریض جیل کی مانند ہے۔ جلد ہی وہاں شہریوں سے زیادہ فوجی نظر آسکتے ہیں۔

کشمیریوں کی کوئی بھی مواصلت،چاہے وہ نجی ہو یا عوامی، یہاں تک کہ ان کی سانسوں پر پہرے بٹھا دیے گئے ہیں۔وہاں اسکولوں میں گاندھی کے محبت کے پیغام کی آڑ میں،مسلمان بچوں کو ہندو دھارمک بھجن گانے کی تعلیم دی جارہی ہے۔

آج کل جب کبھی میں کشمیر کے بارے میں سوچتی ہوں تو نہ جانے کیوں، مجھ کو یاد آتا ہے کہ بہت سی جگہوں پر تربوز کو چوکور سانچوں میں  اگانے کے لیے تیار کیا جا رہا ہے تاکہ وہ گول ہونے کے بجائے چوکور ہوں، جن کا ڈھیر لگانے میں آسانی ہو۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ کشمیر میں ہندوستانی حکومت، بندوق کی نوک پر یہی تجربہ تربوزوں کے بجائے انسانوں پر کر رہی ہے۔

شمالی ہندوستان،یعنی گنگا کی وادی میں،تلوار دھاری ہندوؤں کی بھیڑ، سادھو ؤں کی قیادت میں،جن کو میڈیا مصلحتاً ‘دھرم گُرو’ کہتا ہے، مسلمانوں کی نسل کشی اورمسلم خواتین کےریپ کی اپیل کررہے ہیں۔

ہم نے دن دہاڑے لنچنگ کا مشاہدہ کیاہے، اور اس کے ساتھ ہی تقریباً ایک ہزار مسلمانوں کا قتل عام (غیر سرکاری اندازے کے مطابق مرنے والوں کی تعداد دو ہزار کے قریب تھی)2002 میں گجرات میں اور2013 میں مظفر نگر میں سینکڑوں لوگوں کی ہلاکت۔ حیرت کی بات نہیں کہ دونوں قتل عام انتخابات سے عین قبل ہوئے تھے۔

ہم نے دیکھا  کہ جس شخص کی چیف منسٹر شپ کے دوران گجرات میں قتل عام ہواتھا،وہ نریندر مودی،اپنی پوزیشن کو ایک ہندو سمراٹ کے بطور مستحکم کرنے کے بعد ملک کا اعلیٰ ترین عہدہ سنبھالنے کے لیے اٹھ کھڑے ہوئے ۔ انھوں نے، جو کچھ ہواتھا، اس کے لیے کبھی  کوئی اظہارافسوس نہیں کیا،نہ ہی کوئی معذرت چاہی، ہم نے تو ہمیشہ انہیں خطرناک قسم کے طنزیہ مسلم مخالف جملوں اور بیانات سےاپنی سیاسی حیثیت کو چمکاتے ہوئے دیکھا ہے۔

ہم نے یہ بھی دیکھا ہے کہ ملک کی سب سے اعلیٰ عدالت نے انھیں،ہر طرح کی ذمہ داری سے قطعی طور پر بری الذمہ کر دیا ہے۔ ہمیں یہ دیکھ کر شرمندگی ہوتی ہے کہ،نام نہاد آزاددنیا کے رہنما، انھیں ایک جمہوریت پسند سیاست داں کے بطور گلے لگاتے ہیں۔

پچھلے مہینے ہی ہندوستان نے، برٹش راج سے اپنی آزادی کی 75ویں سالگرہ منائی تھی، اس موقع پر مودی،دہلی کے لال قلعہ سے دیے گئے اپنے لیکچر میں، عورتوں کو با اختیار بنانے کے سلسلے میں خوب گرجے تھے، وہ نہایت جوش وخروش کے ساتھ مٹھیاں بند کر کے بول رہے تھے۔انھوں نے قومی پرچم والے تین رنگوں کی پگڑی باندھ رکھی تھی۔

ذات پات کے فلسفہ پر تشکیل دیے گئے ہمارے اس ہندوستانی سماج میں،خواتین کو با اختیار بنانے کی بات کی جارہی ہے،جہاں صدیوں سے اعلیٰ ذات کے افراد دلت اور آدی باسی عورتوں کے جسموں پر اپنا پیدائشی حق سمجھتے ہیں اور اس حق کو پابندی سے استعمال کرتے رہتے ہیں۔ یہ صرف ایک پالیسی کا مسئلہ نہیں ہے۔یہ توہمارے پورے سماج کے طور طریقوں اور ہمارے عقیدے اور اس کے نظام کا مسئلہ ہے۔

ہندوستان میں عورتوں کے خلاف جرائم کا گراف بڑھ رہا ہے جس کی وجہ سے دنیا کے نقشہ میں ہندوستان، عورتوں کے لیے نہایت غیرمحفوظ جگہ بن گیا ہے۔یہ دیکھ کر کسی کو کوئی تعجب نہیں ہوتا ہے کہ اکثر مجرم یا تو خود اہل اقتدار پارٹی سے یا ان سے متعلق لوگوں میں سے ہی ہوتے ہیں۔ اور اس طرح کے معاملات میں،ہم نے ریپ کرنے والوں کے حق میں بڑی بڑی ریلیاں دیکھی ہیں۔

ابھی حال میں ایک 19سالہ لڑکی کے ریپ اور قتل کرنے کے معاملہ میں دیکھا کہ، ایک مقامی لیڈر نے اس لڑکی کے باپ کو خطا وار ٹھہرانے کی کوشش کی کہ اس کا یہ عمل (یعنی جوان بیٹی کو نوکری کروانے کا عمل) ’بھوکی بلیو ں کے آگے کچا دودھ پیش کرنے‘ کے مصداق تھا۔

یہی نہیں بلکہ جب مودی یوم آزادی پر تقریر کر رہے تھے تو اسی دوران،گجرات میں، بی جے پی کی گورنمنٹ نے، ان گیارہ لوگوں کے لیے خصوصی معافی کا اعلان کیا تھا جو 2002میں 19سالہ بلقیس بانو کے گینگ ریپ اور ان کے خاندان کے چودہ افراد کو قتل کرنے کے جرم میں عمر قید کی سزا کاٹ رہے تھے۔قتل کیے جانے والے لوگوں میں بلقیس بانو کی ماں، چھوٹا بھائی، چچا اور چچی اور ان کی بیٹیاں اور ایک چچا زاد بہن کا ایک دن کا بچہ اور بلقیس بانو کی اپنی تین سال کی بیٹی صالحہ شامل تھی جس کا سر ایک پتھر پر پٹک کر پھوڑا گیا تھا۔

یہ بھیانک جرم،اسی نوعیت کے اُن دوسرے متعدد جرائم میں سے ایک تھا، جو 2002 میں گجرات کے مسلم مخالف قتل عام کے دوران کیے گئے تھے اور جن کا میں نے اوپر ذکر کیا ہے۔ جس پینل نے ان کی رہائی کی منظوری دی تھی اس کے زیادہ تر اراکین،بی جے پی کے تھے۔

ان میں سے ایک رکن نے،جوممبر اسمبلی بھی ہیں،ریکارڈ پر کہاتھا کہ چونکہ اِن میں سے کچھ مجرم ‘اچھے سنسکار’ والے برہمن ہیں،اس لیے ان کے قصور وار ہونے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا ۔

جن معاملات میں سی بی آئی تفتیش کرتی ہے جیسا کہ اس کیس میں بھی ہوا تھا، ان معاملات میں قانونی طور پر یہ ضروری ہوتا ہے کہ مجرموں کو کسی قسم کی رعایت دینے کے لیے سینٹرل گورنمنٹ کی منظوری ضروری ہوتی ہے۔ظاہر ہے سینٹر میں نریندر مودی جی کی حکومت ہے اس لیے یہ فرض کیا جانا چاہیے کہ سینٹرل گورنمنٹ نے یہ منظوری دی تھی۔

جیل سے باہر آتے ہی ان مجرموں کا، ایک ہیرو کی طرح،خیر مقدم کیاگیا تھا۔ ان کے گلے میں ہار ڈالے گئے تھے،ان کومٹھائیاں کھلائی گئی تھیں اور عقیدت سے ان کے پیر چھوئے گئے تھے۔یہ سب اُن ہندو گروپ کے ممبران کی طرف سے کیاگیا تھا جو ایک سوتیلے رشتہ دار کی مانند،سنگھ پریوار سے جڑے ہوئے ہیں۔’سوتیلے رشتہ دار کے مانند’اس لیے کہ ضرورت پڑے تو انھیں’بیگانہ’کہہ کر اپنائیت سے انکار کیا جاسکے۔ اور کچھ ہی مہینوں بعد گجرات میں الیکشن ہونے والے ہیں۔

ہندوستان میں،ہمارے آزادانہ، صاف و شفاف انتخابات سے پہلے عجیب و غریب واقعات رونماہوتے ہیں۔ یہ ہمیشہ ہی نہایت خطرناک وقت ہوتا ہے۔

 جہاں ایک طرف ریپسٹ اور قتل عام کرنے والے رِہا ہو کر سماج کے باعزت شہری بن گئے ہیں،وہیں دوسری طرف،تیستا سیتلواڑجیسی سماجی کارکن کی تنظیم سٹیزن فار جسٹس اینڈ پیس نے نہایت چھان بین کے بعد 2002 کے قتل عام کے سلسلے میں ان دستاویزی ثبوتوں کا انبار لگا دیا تھا جو عام طور پر گجرات گورنمنٹ اور خاص طور پر نریندر مودی کے اس میں ملوث ہونے کے واضح اشارے فراہم کرتےہیں،اُن  کو (تیستا سیتلواڑ کو)جعلسازی ، گواہوں  کو تربیت دینے اور معاملے کو گرم رکھنے کوشش کرنے کے الزام میں گرفتار کیا گیا۔

یہ ہیں وہ حالات جن کے درمیان ہم کا م کر رہے ہیں اور وہ سب کچھ کہہ رہے ہیں جو کہا نہیں جاسکتا ۔ دوسری تمام چیزوں کی طرح،بولنے پر بھی، ذات، مذہب اور جنس کے امتیازات کے ساتھ قانون لاگو کیا جاتا ہے۔

ایک مسلمان وہ نہیں کہہ سکتا جو ایک ہندو کہہ سکتا ہے؟ ایک کشمیری وہ نہیں کہہ سکتاہے جو دوسرے لوگ کہہ سکتے ہیں۔ آج یکجہتی، بھائی چارہ اور دوسروں کے لیے حقوق کی آواز اٹھانا پہلے سے کہیں زیادہ اہم اور ضروری ہوگیا ہے لیکن ایسا کرنا نہایت خطرناک اور جان جوکھم میں ڈالنے کا عمل بن گیا ہے۔

دوسرے ممالک ہی کی طرح ہندوستان میں بھی،پہچان  کی ہتھیار بندی کے عمل نے، جس  میں پہچان کوالگ الگ کر دیاگیا ہےاور چھوٹے چھوٹے زمروں میں تقسیم کردیا گیا ہے،جس نے پورے ماحول کو مذہب کی توہین کی سزا دینے والی ایک خود کار مشین میں تبدیل کردیا ہے اور ان ایٹمی پہچان نے بھی اپنی طاقت کی درجہ بندی کر لی ہے۔

اپنی کتاب ایلیٹ کیپچر میں فلسفی اولوفیمی اوتائیوو بیان کرتے ہیں کہ کس طرح سے ان گروپوں میں سے چند افراد جو نہایت نمایاں ہوجاتے ہیں،یعنی وہ افراد جو کسی بڑے ملک میں، یا کسی بڑے شہر میں، یا پھر کسی بڑی یونیورسٹی میں رہتے ہیں یا وہ جو انٹرنیٹ پر ایک سماجی حیثیت رکھتے ہیں،ان سب لوگوں کومختلف فاؤنڈیشن اور میڈیا کے ذریعے اپنی پوری برادری کی طرف سے بات کرنے اور فیصلے کرنے کے لیے پلیٹ فارم مہیا کروایا جاتا ہے۔

یہ تاریخی درداور ذلت کا قابل فہم رد عمل ہوسکتا ہے، لیکن یہ کوئی انقلابی رد عمل نہیں ہے۔ مائیکرو ایلیٹ کیپچر میکرو ایلیٹ کیپچر کا واحد جواب نہیں ہو سکتا۔ جیسا کہ بعض  تجرباتی تحقیق سے پتہ چلا ہے کہ جب ہم تندہی سے سینسر شپ کے کلچر کو اپناتے ہیں تو حتمی طور پر، اُس سے دائیں بازو کی طاقتوں کو بے پناہ تقویت ملتی ہے اور فائدہ پہنچتا ہے۔ اسکولوں کی ممنوعہ نصابی کتابوں کے سلسلے میں پین امریکہ کے ایک حالیہ مطالعے سے پتہ چلا ہے کہ ممنوعہ نصابی کتابوں کی اکثریت صنف او ر نسل سے متعلق ترقی پسند متن پر مشتمل تھیں۔

کسی کمیونٹی کوخوف و ہراس میں مبتلا کرنا، یا ڈراکر رکھنا،اس کی پہچان  کو ختم کر کے اسے چارے محفوظ کرنے جیسے ڈھیر میں تبدیل کرنا،ایک خطرناک عمل ہوتا ہے جو یکجہتی کے یکسر منافی ہوتا ہے۔ بدقسمتی سے ہندوستان میں یہی ‘جات پات’کا اصل مقصد تھااور ہے۔ یعنی لوگوں کو ناقابل تسخیر حد تک مختلف خانوں میں تقسیم کرنا، تاکہ کوئی بھی برادری،دوسری برادری کے دکھ درد کو محسوس نہ کرسکے، بلکہ وہ ہمیشہ ایک دوسرے سے برسر پیکار رہیں۔

یہ ایک نہایت عمدہ،مختلف انتظامات اور چاق و چوبند نگرانی کی ایک خودکار مشین کی طرح سے کام کرتی ہے جس میں سماج خود ہی اپنے انتظامات اور اپنی نگرانی کرتا ہے اور یہ کوشش کرتارہتا ہے کہ جبر و استبداد کا وسیع ڈھانچہ مضبوطی سے اپنی جگہ پر قائم رہے۔ ہر ایک شخص، یا تو کسی پر ظلم کرتا ہے یا کسی کا ظلم سہتا ہے،سوائے ان کے جو سب سے اوپر ہیں، یا جو سب سے نیچے ہیں (اور یہ درجہ بندی بھی نہایت باریک بینی سے کی جاتی ہے)۔

اگر ایک بار یہ بھول بھلیوں جیسا جال بچھا دیا جائے تو اس کے بعد کوئی بھی صحیح،صاف اور شفاف ہونے کے امتحان میں پاس نہیں ہوسکتا ہے۔پھر وہ سب چیزیں جو کبھی صاف شفاف یا عمدہ اورعظیم سمجھی جاتی تھیں،وہ سب یک لخت بے معنی سی ہوجاتی ہیں، ان کے اس معیار کے مطابق ان کا کوئی وجود ہی نہیں رہتا ہے۔

وہ ادب جو کبھی اعلیٰ اور عظیم سمجھا جاتا تھا، بے معنی ہو کر رہ جاتا ہے، وہ شیکسپیئر ہو یا ٹالسٹائی (جو ایک عورت ایناکرینیناکے ذہن تک کو سمجھ سکتا تھا یاد ستووسکی جو بوڑھی عورتوں کو ہمیشہ ایک چڑیل کہتا تھا اور شاید اس کے معیار کے مطابق میں بھی ایک’چڑیل’ کہلانے کی اہل ٹھہرائی جاؤں گی۔لیکن اس کے باوجود میں چاہوں گی کہ لوگ اس کو پڑھیں۔ حالانکہ یہ کہنے کی ضرورت نہیں ہے کہ ان لوگوں کے اس معیار پر کسی بھی مذہب کی کوئی بھی مقدس کتاب پوری نہیں اترے گی۔

عوامی اظہار خیال کے شوروغل کے درمیان، ایسا محسوس ہورہا ہے کہ ہم بہت تیزی کے ساتھ ایک طرح کے دانشورانہ اور فکری ‘ٹریفک جام’کی حالت میں پھنس کر رہ گئے ہیں۔یکجہتی کبھی بنی بنائی،بالکل چمکتی ہوئی نہیں ہوتی ہے اس کے لیے ہمیشہ لڑتے رہنا پڑتا ہے،بحث و مباحثہ کرتے رہنا پڑتا ہے،دلائل دیے جاتے ہیں،بہت سی چیزوں کی تصحیح کی جاتی ہے اور اس عمل کو روکنے کا مطلب ہے کہ ہم بھی وہی کر رہے ہیں جس کے خلاف ہم نے لڑنے کا دعویٰ کیاتھا۔

جاری ہے

Advertisements
julia rana solicitors london

بشکریہ دی وائر

Facebook Comments

مہمان تحریر
وہ تحاریر جو ہمیں نا بھیجی جائیں مگر اچھی ہوں، مہمان تحریر کے طور پہ لگائی جاتی ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply