• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • ‘‘گوہر ِ افشاں’’ایک فکری اور شعوری ارتقاء/پروفیسر عامر زرین

‘‘گوہر ِ افشاں’’ایک فکری اور شعوری ارتقاء/پروفیسر عامر زرین

مختلف اصنافِ ادب ذہنی، قلبی اور فکری سطح پر تجربوں کا تخلیقی اظہار ہوتی ہیں۔معیاری اورصحت مندتحریریں زندگی کے مترادف اثر رکھتی ہیں۔اُردو ادب میں مضمون نگاری کی صنف انفرادی اور اجتماعی تجربات کے روایتی اظہار کے لئے مستعمل ہے اور ادب میں روایت پسندی اہمیت کی حامل ہے۔ اِن اَصناف میں سے کوئی بھی صنف دراصل دو مختلف زمانوں،ماضی اور مستقبل کے درمیان تسلسل کی ایک کڑی ہے۔اُردو ادب کے حوالے سے مضمون نگاری ایک معتبر روایت رہی ہے۔
ڈاکٹر شاہد ایم شاہد ایک ایسے ہی نوجوان مضمون نگار ہیں۔ موصوف ایک پختہ شعور اَدیب ہیں اور اُن کی تحریریں ذوقِ مطالعہ کے حامل قارئین کی سوچ کو متحرک کرتی نظر آتی ہیں۔وہ اپنے خلوص، لگن اور محنت سے شاخ ِ ادب کی اس صنف کی آبیاری کررہے ہیں۔ تھوڑے عرصہ میں موصوف نے پرنٹ میڈیا اور الیکڑانک میڈیا پر اپنی معیاری سماجی، معاشرتی اور اخلاقی تحریروں سے ادبی حلقوں کے قارئین کو اپنی طرف متوجہ کرلیا ہے۔
قُدرت نے موصوف کے قلم کو وہ زورِ تحریر اور وصفِ اظہار بخشا ہے جس کی بدولت بہت کم عرصہ میں آپ ایک اعلٰی اور پختہ ساکھ کے لکھاری کی حیثیت سے جانے جاتے ہیں۔خُداوندِ کریم کے عنایت کردہ اسی خُدا داد ہنر کے باعث قومی اور بین الاقوامی قارئین ِاُردو آپ کی معیاری تحریروں کو سراہتے ہیں اوراِن کے مطالعہ سے فیض یاب ہو رہے ہیں۔ڈاکٹر صاحب نے بھی اس الٰہی ہُنر کو ایک دانش مند اور ذمہ دار نوکر کی طرح اپنے الٰہی مالک کی خوشنودی کے لئے موئثر طور پر استعمال کیا ہے۔
ڈاکٹر شاہد درس و تدریس کے پیشہ سے منسلک ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ انسانی صحت و نقص کے بارے بھی فہم رکھتے ہیں۔ ایک کثیر الجہت شخصیت ہونے کے ساتھ ساتھ بہتر سے بہتر معیار کے لئے ادب، تدریس اور صحت کے میدان میں ان کی محنت و لگن اور جدو جہد نے تھوڑے عرصہ میں انہیں ایک معتبر مقام پر لا کھڑا کیا ہے۔ یہ امر حقیقت پر مبنی ہے کہ کسی اعلٰی مقام کا حصول جہاں بہت قابلِ تحسین ہے وہیں اس سے بڑھ کر اس کامیابی اور مقامِ سرفرازی کو بحال رکھنا ہے۔
منتخب موضوعات پر مشتمل مضامین کے اس مجموعہ،‘‘گوہرِ افشاں’’ کے مطالعہ سے اندازہ ہوتا ہے کہ ڈاکٹر شاہد کا طرزِ تحریر معیاری اُردو اور خوبصورت الفاظ کا مرقعہ ہے۔ اور ان تحریروں میں ادبیات اور اَخلاقیات کے اَثرات کے باعث ان شاہکار تحریروں میں کائناتی رنگ اُبھر کر سامنے آتے ہیں۔شاملِ تصنیف مضامین اپنے موضوع کے اختصاری طرزِ بیان کی وجہ سے قارئین کی توجہ نہیں ہٹنے دیتے۔ ان مذکور خصوصیات ِ تحریر کے باعث اہلِ ذوق قارئین کا ان مضامین کی طرف متوجہ ہونا ایک قدرتی اَمر ہے۔
نامور امریکی شاعر، دانشور، ڈرامہ نگار، نقاد اور مدیر ‘‘ٹی ایس ایلیٹ’’کے خیال میں تخلیق کار کے لئے صرف سوچ کی بُلندی اور رفعت ہی ضروری نہیں بلکہ اس کے لئے یہ بھی ضروری کہ وہ اپنی تخلیق کو خامیوں سے پاک کرنے کی بھی پوری پوری کوشش کرے۔
نامور ادبی شخصیت، آسکر وائلڈ (نامور افسانہ نگار، ڈرامہ نگار اور شاعر) نے بھی ایسی ہی بات کی۔ اس کے خیال میں ایک اچھے لکھنے والا، اچھا نقاد بھی ہوتا ہے۔
اس کے مطابق،‘‘ہر مصنف خود شناس ہوتا ہے۔ اور ہر تخیلی تصنیف میں مصنف کا شعور نمایاں ہوتا ہے۔ شاعر اس لئے شعر نہیں کہتا کہ اسے کہنا ہے بلکہ وہ جو کچھ کہتا ہے اس کا شعور کہتا ہے۔’’ زیرِ نذر تصنیف،‘‘گوہر افشاں’’ کے حوالے سے یہ بات مشاہدہ میں آئی ہے کہ ڈاکٹر شاہد اپنی تحریروں میں جہاں اپنے موضوعات کے محور سے منسلک رہتے ہیں وہیں اپنے علم و فہم کے تحت اُردو لُغت و لسانیات اور املاء کے اعلٰی معیار کا بھی حتیٰ الوسع خیال رکھتے ہیں۔
ایک تخلیق کار کا اپنے خارجی اور داخلی حالات سے اثر لینا ایک یقینی اَمر ہے۔ اور یہی چیز اِس کے اسلوب پر بھی اثر انداز ہوتی ہے۔ کیونکہ ایک تخلیق کار اپنی تحریروں میں زندگی کے مشاہدات اور تجربات کی ترجمانی اور تشریح کرتا نظر آتا ہے۔
موصوف کی زیرِنظر تحریروں میں جہاں اخلاق اور پندو نصائح پائے جاتے ہیں وہیں وہ الٰہی و الہامی نسخوں کے اقتباسات کو انتہائی سلیس پیرائے میں بیان کرتے ہوئے اپنی موضوع کے ساتھ ہم آہنگ کرتے ہیں۔تخیلا ت کے بیان کا یہ عالم ہے کہ جیسے کوئی اک اک خیال کی کھوج میں سوچ کے وسیع و عریض دشت ِتمنا میں گھومتا ہے۔
ایک طرف بھارت جو کہ برائے نام سیکولرملک کی پہچان رکھتا ہے وہیں تاریخ گواہ ہے کہ لسانی تعصب کی بنیاد پر اُردو زبان کی مخالفت متحدہ ہندوستان کی تقسیم سے قبل ہی شروع ہو چکی تھی۔ اور یہ سلسلہ اب بھی منقسم ہندوستاں بلخصوص بھارت میں جاری ہے۔ اس حوالے سے اُردو کے روائتی رسم الخط کو دیونا گری رسم الخط سے تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی۔ اس کے باوجود اُردو اپنے روائتی رسم الخط کے ساتھ زندہ و جاوید ہے۔دراصل یہ کہنے میں مضائقہ نہیں کہ ہماری اُردوزبان ایسی سخت جان ہے، کہ اپنے وجود کو لاحق خطرات اورمنفی عزائم کے باوجود اب تک اپنا مقام بنائے ہوئے ہے۔ جہاں اور اُردو زبان کے جید نثر نگار اور شعراء اکرام کی تخلیقات منقسم ہندوستاں، پاک و ہند میں شائع ہو رہی ہیں وہیں یہ بات بھی انتہائی فخر سے کہی جاسکتی ہے کہ ڈاکٹر شاہد کی تحریریں اور مضامین بھی باقاعدگی سے پاک و ہند کی آن لائن اُردو سماجی ویب سائٹس کی زینت بن رہی ہیں۔ اور موصوف بھی اپنی معیاری تحریروں سے اُردو زبان کی ترویج و ترقی میں اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
ڈاکٹر شاہد کی تحریروں کا مطالعہ کرنے کے بعد راقم بابانگِ دُہل اس بات کا اقرار کرتا ہے کہ ان کی تخلیقات میں موضوعات کی وسعت اور عام فہم اسلوب کے ساتھ ساتھ ماخذ اور الفاظ و مرکبات کا استعمال بھی بر محل کیا گیا ہے۔
‘‘گوہر افشاں’’ شاہدؔ کے 32 منتخب موضوعات پرلکھے گئے مضامین پر مشتمل ہے اور ان مضامین میں دیگر نثری اصناف کی خوبیاں اور اوصاف کی جھلک نمایاں ہے۔کسی بھی تحریر سے مضمون نگار کے اپنے ارد گرد ماحول اور فضا کا رنگ واضح جھلکتا ہے اور یہی عوامل اُسے کچھ تخلیق کرنے کے لئے مہمیز کرتے ہیں۔ مضمون نگار کے مضامین وطن عزیز کے سماجی، اخلاقی اور معاشرتی مسائل کا پتہ دیتے ہیں۔ اِن مضامین کا مزاج مصنف کی وسیع القلبی، وسعت نظری، تحقیق و تنقید، منفرد طرزِ تحریر اور فکر و نظر کے رُحجانات و رجائیت کا آئینہ دار ہے۔
ڈاکٹر شاہد کا اپنی پہلی تصنیف سے تیسری تصنیف تک کا سفر اور تواتر سے مختلف جرائد و رسائل اور آن لائن ادبی ویب سائٹس پر ان کے مضامین کی اشاعت راقم کی نظر میں ہے اوربرملا اس حقیقت کو بیان کیا جاسکتا ہے کہ اس کا فنِ تحریر نہ صرف ارتقاء پذیر ہے بلکہ تیزی سے بلندی کی طرف رو اں دواں ہے۔ منتخب مضامین کا مجموعہ ‘‘گوہرِ افشاں’’ اپنے معیاری طرزِ بیان اور موضوعات و مواد کے حوالے سے اُردو ادب میں ایک خوب صورت و مستحسن اضافہ ہے۔میری دلی دُعا ہے اِن کی یہ کاوش‘‘ گوہرِ افشاں ’’علمی اور ادبی حلقوں میں شرف ِمقبولیت کی حقدار ٹھہرے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply