• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • یوم خواتین قابل نفرت کیوں ہے ؟- محمود اصغر چوہدری

یوم خواتین قابل نفرت کیوں ہے ؟- محمود اصغر چوہدری

عقل کی کھڑکی کھولنی ہوتو مخالف نظریات والوں کو سننا چاہیے ۔ اس بات کا اندازہ ہمیں اس دن ہُوا جب ہم نے خواتین کی ایک تقریب میں ایک فیمنیسٹ مغربی خاتون کو مہمانِ  خصوصی بنالیا۔ہم نے تقریب میں نیلام گھر طرز کا ایک سیشن رکھاہُوا تھا یعنی سوالوں کے جواب دینے والی ہر خاتون کو استری ،جوسر مشین ،پریشر ککروغیرہ کا انعام دیا جاتا ۔ہمارا خیال تھا کہ ہماری مہمان ہمیں شاباش دیں گی کہ آپ نے تو کمال کر دیا ۔ لیکن ہماری ساری خوشی اس وقت ہَوا ہوگئی جب ان محترمہ نے یہ کہہ کر ہمیں پریشان کر دیا کہ آپ لوگ کتنے غلامی پسند ہو۔ ہم نے حیرت سے پوچھا وہ کیسے ؟

وہ بولیں تم ان خواتین کوانعامات نہیں دے رہے بلکہ انہیں یاد دلا رہے ہو کہ تمہارا کام یہی ہے ۔ استری کرنا، جھاڑو لگانا، جوس نکالنا، کھانا بنانا وغیرہ وغیرہ۔ تم نے ایک لمحے کیلئے بھی نہیں سوچا کہ کوئی پرفیوم ،کوئی موبائل فون ، کوئی نیا سوٹ بھی ایک خاتون کےلئے انعام ہوسکتا تھا ۔

یہ الفاظ روشنی کی کرن بن کر میرے ذہن کی کھڑکیاں کھول گئے اور میرا زاویہ نظر بدل گئے۔

میں ہمیشہ اپنے مخالف نظریات والو ں سے سیکھتا ہوں ۔کیونکہ صرف ایک ہی نکتہ نظر کو پڑھنے والا کبھی تصویر کا دوسرا رُخ نہیں دیکھ سکتا ۔ یومِ  خواتین آتے ہی ہمارے جغادریوں کی ایک ہی تکرار ملتی ہے کہ ہمارا مذہب خواتین کو بہت زیادہ حقوق دیتا ہے اس لئے حقوقِ  نسواں کی بات کرنے والے سب مغربی نظریات کے پرچار ک ہیں ۔ حیرت ہے آپ مزدوروں کے حقوق کی بات کرلیں ، آپ سرکاری و پرائیویٹ ملازمین سے لیکرججوں اورجرنیلوں تک کی تنخواہوں میں اضافے کامطالبہ کرلیں آپ کو یہ دلیل کبھی سننے کو نہیں ملے گی کہ اسلام مزدوروں کو حقوق دیتا ہے اس لئے زیادہ مغربی ہونے کی ضرورت نہیں لیکن حقوقِ  نسواں کا معاملہ مختلف ہے یہاں سب کا ایکا ہے کہ بات کرنے والوں کا منہ بند کرادیا جائے ۔ کوئی یہ نہیں کہتا کہ اگر اسلام نے خواتین کو حقوق دئیے ہیں تو پھران حقوق کا مطالبہ کرنا غیر اسلامی کیسے ہوگیا ؟ ان کے اطلاق کا مطالبہ غلط کیسے ہوگیا ؟ اگر حضرت عمر ؓ کے دربار میں کھڑی ہوکر اپنے حق کی حفاظت کرنے والی خاتون عین اسلامی طرز عمل پر تھی تو آج کے دور میں حقوقِ  نسواں پر بات کرنے والی غیر اسلامی کیسے ہوگئی ؟

تاریخ دانوں کی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ انسانی معاشرہ سدا سے ایسا نہیں تھا ۔ مردوں نے کئی ہزار سال کی محنت سے یہ طرز ِفکر عام کی ہے کہ خواتین مردوں سے کم ترمخلوق ہیں ۔ایک زمانہ تھا جب عورت بھی ایک انسان ہی سمجھی جاتی تھی نہ مر دسے کم تر نہ برتر۔ انسان جب غاروں سے نکل کر میدانوں میں آیا تو اس دنیا کی پہلی کسان اور پہلی کاشتکار عورت تھی جس نے کھیتی باڑی ایجاد کی ۔ مرد کی جانب سے شکار کر کے کھائی جانے والی خوراک گوشت کے مقابلے میں عورت ایک ایسی خوراک یعنی گندم تیار کرنے میں کامیاب ہوگئی تھی جسے کئی مہینوں تک محفوظ رکھا جا سکتا تھا ۔لیکن عورت کی اس ایجاد کا اسے خود ہی خمیازہ بھگتنا پڑا وہ اس طرح کہ انسان کے ذہن میں ذخیرہ کرنے اور کاشتکاری کےلئے زمین ہتھیانے کا مقابلہ شروع ہوا۔ اس کے بعد وراثت چھوڑنے کا تصور ابھرا ۔جو عورت کے بغیر ناممکن تھا ۔ وراثت کا تصور عورت پر ملکیت اور پھر ملکیت سے حاکمیت کی سوچ ابھری۔ ایسے میں ضرورت تھی کہ ایسے تصورات کو بڑھاوا دیا جائے کہ عورت کسی اور معاملے میں دخل اندازی نہ کرسکے ۔اسی لئے یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ عورت کمزور ہے ، ناقص العقل ہے تاکہ اس کا کردارصرف بچے پیدا کرنے اورنسل بڑھانے تک محدود ہو کر رہ جائے ۔

معاشرتی اخلاقیات کی تعریف متعین کرتے ہوئے اس تصور کو مضبوط کرنے کی ضرورت تھی کہ عورت اور بے حیائی ، عورت اور فحاشی ، عورت اور فتنہ ، عورت اور شر ، عورت اور فساد ہم معنی قرار پا جائیں تاکہ اس پر علم وہنر ، عقل و شعور کے تمام دروازے بند رہیں اوروہ عملی زندگی سے ہر ممکن باہر رہے ۔ مختلف زبانوں میں اس مخلوق کو پکارنے کےلئے جو لفظ استعما ل ہوئے انہیں خا ص طور پر عیب دار چنا گیا جیسے کچھ زبانوں میں عورت کا مطلب داغ ،دھبہ، ناقص ، نامکمل ہے اسی طرح مستورات کالفظ ستر سے لیا گیا ۔اسی طرح اگر عورت کے زیور کو دیکھیں تو ایک عام فہم میں بھی یہ بات آجاتی ہے کہ عورت کا سارے کا سارا زیور جسے وہ اپنی خوبصورتی کی علامت سمجھتی ہے غلامی کی تربیت سکھانے کے لئے ایجاد ہوئے تھے کنگن اور چوڑیاں ہتھ  کڑی کی علامت ہیں، پازیب پاؤں کی بیڑی ، گلوبند گلے کا طوق تھے اور نیکلیس کو تو ویسے ہی اردو میں زنجیری کہتے ہیں ۔صدیوں سے انسان مویشیوں کو قابو کرنے کے لئے ناک میں نکیل ڈالتا تھا ۔ لیکن اسی نکیل پر عورتیں اتنا فخر کرتی ہیں کہ اپنی شادی والے دن پہنتی ہیں ۔ اتنی زیادہ محنت کا نتیجہ یہ نکلا ہے کہ اب عورت بھی یہ سمجھتی ہے کہ وہ انسانوں کی فہرست میں کم تر درجے پر ہے اور وہ مرد کی داسی یا غلام بن کر رہ گئی ہے ۔

Advertisements
julia rana solicitors

صدیوں سے جاری اسی سوچ کا اثر ہے کہ ہمارے ہاں بھی جیسے ہی کوئی بھی لکھاری بھلے وہ عورت ہی کیوں نہ ہولکھتے ہوئے کسی عورت کو بہت زیادہ مقام دینے لگے تو لکھتے ہیں کہ عورت کسی کی ماں ، کسی کی بہن اور کسی کی بیٹی ہوتی ہے ۔ یعنی یہ تصور عام کیا گیا کہ وہ ہمیشہ کسی کی ہی کچھ ہوتی ہیں اس کی نہ تو اپنی کوئی حیثیت ہے ، نہ اپنا کوئی مقام ہے نہ اپنا کوئی نام ہے ، نہ اپنی کوئی پہچان ہے ۔ نہ وہ عائشہ ہے نہ حفصہ ہے ۔ نہ خدیجہ ہے نہ حنیفہ ہے نہ مارگریٹ تھیچر ہے ، نہ بے نظیر ہے نہ پروین شاکر ہے نہ کشور ناہید ۔یہی وجہ ہے کہ آج بہت سی عورتیں بھی یوم خواتین پر حقوق کی بات کرنے والے کو مغربی ایجنٹ سمجھتی ہیں ۔ حالانکہ پاکستان خواتین کے حقوق کے معاملے میں بین الاقوامی انڈیکس کے لحاظ سے 156ممالک میں سے 153ویں نمبر پر آتا ہے ۔کاروکاری سے لیکر جبری شادی تک تیزاب گردی سے لیکر ہراسگی تک سارے کے سارے چارٹ اور خاکے کچھ اور ہی منظر دکھاتے ہیں لیکن ہر سال یہ کہہ کر چپ کرا دیا جاتا ہے کہ یہ چند مغرب زدہ آنٹیوں کا مسئلہ ہے ورنہ ہماری مشرقی اقدار کے مقابلہ دنیا میں کسی ملک کے ساتھ نہیں کیا جا سکتا۔

Facebook Comments

محمود چوہدری
فری لانس صحافی ، کالم نگار ، ایک کتاب فوارہ کےنام سے مارکیٹ میں آچکی ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply