اردو کے ابتدائی قصّے کہانیاں…..فیصل عظیم

کتاب (پرائیویٹ) لمیٹڈ کا ’’گیٹز فارما  لائبریری اردو کلاسیکی ادب‘‘ سلسلہ – تعاون: Getz Pharma
اردو کا ابتدائی نثری سرمایہ جن قصّوں اور داستانوں پر مشتمل ہے ان میں سے بہت کچھ لائبریروں میں بند ہے اور ہم تک نہیں پہنچ پاتا۔ یہ الف لیلوی رنگ کی دلچسپ کہانیاں ہیں اور ان کی تصنیف کی تاریخ بھی دلچسپی سے خالی نہیں جو اردو زبان و ادب، خصوصاً نثر سے متعلّق بہت کچھ بتاتی ہے۔ ان سے برِّصغیر کی گنگا جمنی تہذیب کی وہ تصاویر سامنے آتی ہیں کہ آپ کہ نہیں سکتے کہ اردو کا یہ قصّہ کسی ہندو نے لکھا تھا یا مسلمان نے۔ ایک اور قابل غور نکتہ اس میں یہ ہے کہ یہ قصّے بچّوں (یا کم عمر بچّوں) کے لیے من و عن ہرگز نہیں ہیں بلکہ بالغ ذہنوں کے لیے ہیں اور یہ ہمیں اپنے گزرے ادوار کے ذہنوں اور گفتگو کی آزاد روی کا پتہ بھی دیتے ہیں جو بہت لوگوں کے لیے باعثِ حیرت بھی ہو سکتا ہے۔
’’قصّہ آذر شاہ و سمن رُخ بانو‘‘ میں عرضِ مصنّف میں ایک بڑی دلچسپ بات لکھی گئی ہے اور وہ یہ کہ ’’ہماری روایت میں قصّہ گوئی کو علاج اور نفسیاتی چارہ سازی کے لیے بھی استعمال کیا جاتا تھا اور اگر کسی کے پاس قصّوں کی کتاب ہو تو یوں سمجھیے کہ مجرّب نسخوں پر مشتمل کوئی مخزن الادویہ ہاتھ لگ گئی ہو‘‘۔ مرتّب مشرّف علی فاروقی صاحب نے عرضِ مرتّب میں آگے چل کر امیر خسرو اور حضرت نظام الدین اولیا کے حوالے سے اس کی ایک مثال بھی دی ہے۔
مشرّف علی فاروقی اور عبدالرّشید صاحبان کی ترتیب دی ہوئی یہ کہانیاں کتاب (پرائیویٹ) لمیٹڈ کے تحت گیٹز فارما Getz Pharma کے تعاون سے شائع ہوئی ہیں۔ سرورق اور اندر کے صفحات، کتابت اور آرائش، نہایت سادہ اور پروقار ہے۔ انتہائی سلیقے سے چھپے یہ قصّے سرورق سے ہی دل کو اچھے لگنے لگتے ہیں۔ ہر کتاب کے سرورق پر ابھرے ہوئے جلی حروف سے عنوان لکھا ہے، ہر قصّے کی مناسبت سے ایک چھوٹی سی تصویر اس کہانی کے عنوان کے ساتھ موجود ہے اور پس ورق پر اس قصّے کا مختصر تعارف لکھا ہے۔
گیٹز فارما جو ایک دواساز کمپنی ہے، اس نے اس سلسلے میں جو مالی معاونت کی ہے، وہ انتہائی خوش آئند ہے اور اسی اسپانسرشپ کی وجہ سے اس سلسلے کو ’’گیٹز فارما لائبریری اردو کلاسیکی ادب‘‘ کا نام دیا گیا ہے۔ یہ اس لیے زیادہ حیرت اور خوشی کا باعث ہے کہ آج کل کاروباری ادارے سنجیدہ ادبی کاموں کے لیے حقیر رقم بھی خرچ کرنے سے بھاگتے ہیں کہ انھیں صرف چمک دمک سے کام ہوتا ہے۔ ایسے میں کسی کاروباری ادارے کا ایسے تحقیقی کام (جو اصولاً یونیورسٹیوں میں ہونا چاہیے مگر نہیں ہو رہا) کے لیے خدمات پیش کرنا امید کی کرن سے کم نہیں۔ ان لوگوں کی تحسین اور تعریف لازمی ہے۔
یہ قصّے محض اٹھا کر چھاپ نہیں دیے گئے بلکہ اس سلسلے کے تحت ہر قصّے پر تحقیق بھی کی گئی ہے اور اس کے تعارف، ماخذ، مصنّف کے تعارف، اشاعت کی تاریخ، غلط فہمیوں کے ازالے، ضروری وضاحتوں، حاشیوں اور آخر میں کم مانوس اور نامانوس اصطلاحات اور الفاط کی مختصر فرہنگ (لغت) کو بھی ہر کتاب میں بقدر ضرورت شامل کیا گیا ہے۔ یہ کسی بھی طرح محض اشاعتِ نو نہیں ہے، اس میں عرق ریزی صاف نظر آتی ہے بلکہ ان کو مجموعی طور پہ باقاعدہ تحقیق کی صورت میں دیکھا جانا چاہیے۔ یہ کام وقتی نام و نمود والوں کا نہیں بلکہ ادب اور تحقیق سے سنجیدہ وابستگی رکھنے والے صاحبانِ علم کا ہے جو خود بول رہا ہے۔
اس سلسلے میں کتابیں اردو اور انگریزی دونوں میں شائع کی گئی ہیں۔ ہر قصّہ اردو میں الگ تصنیف اور اس کا انگریزی ترجمہ الگ کتاب کی صورت میں چھاپا گیا ہے۔ یوں اردو کے چھ قصّے (6 کتابیں) اور ان کے چھ انگریزی ترجمے (6 کتابیں) بنتے ہیں۔ میرے پاس ان میں سے اردو کی تمام چھ اور انگریزی کی پانچ کتابیں ہیں جو میری فرمائش پہ مشرّف علی فاروقی صاحب کی محبت اور خلوص کے راستے مجھ تک پہنچی ہیں۔ ان قصّوں کے عنوانات ہیں ’’قصّہ ایک عیّارہ کا‘‘، ’’قصّہ چھبیلی بھٹیاری‘‘، ’’قصّہ شہزادی فرخندہ کا‘‘، ’’قصّہ سپاہی زادہ‘‘، ’’قصّۂ مقتولِ جفا‘‘ اور ’’قصّہ آذر شاہ و سمن رُخ بانو‘‘۔ ان میں سے دو کے مرتّب جناب عبدالرشید صاحب ہیں اور چار کے مشرّف علی فاروقی جبکہ تمام انگریزی ترجموں کے مترجم مشرّف علی فاروقی صاحب ہیں۔ اس کے مشاورتی بورڈ میں شامل صاحبانِ علم کے اسمائے گرامی ہیں تحسین فراقی، عبدالرشید، افضال احمد سید، رفاقت علی شاہد اور آفتاب احمد جبکہ اس کے سیریز ایڈیٹر ہیں مشرّف علی فاروقی۔
یہ تعارف لکھتے وقت میں نے کتاب پر لکھی ویب سائٹ دیکھی تو اندازہ ہوا کہ یہ ادارہ تو اس کے علاوہ بھی بچّوں کے ادب اور کلاسیکی ادب پر کئی کام کر چکا ہے اور مزید کر رہا ہے۔ لنک ذیل میں لکھ رہا ہوں، اسے ضرور دیکھیے: http://urduclassics.com/

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply