گرفتاری سے ڈرنے کی اصل وجہ؟-محمد اسدشاہ

جمعہ 13 جولائی 2018 کو سابق وزیراعظم میاں محمد نواز شریف اور ان کی صاحب زادی محترمہ مریم نواز شریف خود اپنی مرضی سے گرفتار ہونے کے لیے لندن سے لاہور ایئر پورٹ پہنچ گئے۔ مخالفین ان کی اس جرات اور بہادری پر خاموشی اختیار کرنے کے سوا آج تک کچھ نہیں کر سکے۔ اس سے ایک ہفتہ قبل نیب عدالت نے میاں صاحب کو 11 سال، اور محترمہ کو مجموعی طور پر 8 سال قید کی سزا اس وقت سنائی تھی جب وہ دونوں  محترمہ کلثوم نواز کی تیمارداری کے لیے لندن میں تھے۔ ان دونوں  باپ بیٹی نے کسی وارنٹ یا انٹرپول کے نوٹس کا انتظار نہیں کیا، بلکہ خود اعلان کر دیا کہ وہ اپنی زندگیوں کی  عزیز ترین ہستی کو بسترِ  مرگ پر چھوڑ کر پاکستان جائیں گے اور گرفتاری پیش کریں گے۔ میاں صاحب تین مرتبہ پاکستان کے منتخب وزیراعظم رہ چکے ہیں۔ ملکی و بین الاقوامی سطح پر ان کے ذاتی و سیاسی تعلقات کسی سے ڈھکے چھپے نہیں۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے ان کے پاس بہت راستے تھے ۔ وہ سات سمندر پار تھے، جہاں پاکستان کے ریاستی اداروں کا حکم نہیں چلتا۔ پھر عدالتوں سے رعایت لینے کے لیے وہ اپنی اہلیہ کی علالت اور نازک حالت کو بھی جواز بنا سکتے تھے۔ لیکن انھوں نے ایسا نہ کیا اور اپنی بیٹی کا ہاتھ تھام کر خود ٹکٹس خرید کر وطن واپس آنے اور مخالفین کے ہاتھوں قید ہونے کا فیصلہ کیا۔

اس وقت کی اسٹیبلشمنٹ ان کے ساتھ کھلم کھلا معاندانہ رویہ اپنائے ہوئے تھی ۔ نگران حکومتیں بھی اسٹیبلشمنٹ کے ہاتھوں کھیل رہی تھیں اور میاں صاحب کو سیاست سے حتی المقدور باہر کرنے کی کھلم کھلا سازشیں جاری تھیں۔ پنجاب میں نگران وزیر اعلیٰ حسن عسکری تھے جنھیں عمران خان کے کہنے پر الیکشن کمیشن نے تعینات کیا تھا۔ اس عہدے پر عسکری صاحب کی تعیناتی کی واحد وجہ ان کی “نواز شریف دشمنی” تھی۔ وہ میاں صاحب کے خلاف سالہا سال سے لکھتے، اور عمران خان کو لیڈر بنانے کے مشن پر کام کرتے آ رہے تھے۔ نگران وزیر اعلیٰ کو غیر جانب دار ہونا چاہیے ، لیکن انھوں نے ن لیگ کی انتخابی مہم کے راستے میں جتنا ہو سکا، روڑے اٹکائے۔

لکھنا یہ ہے کہ حقیقی سیاست دان گرفتاری کو اعزاز سمجھا کرتے ہیں۔ لیکن اگر جرائم پیشہ افراد سیاست میں گھس آئیں تو وہ گرفتاری سے خوف زدہ رہتے ہیں۔ قائد عوام ذوالفقار علی بھٹو نے تو انتہائی جرأت کے ساتھ تختہ دار بھی قبول کر لیا۔ شیخ مجیب الرحمٰن، مولانا مفتی محمود، سید ابوالاعلیٰ مودودی، مولانا غلام غوث ہزاروی، پیر سید عطاء اللّہ شاہ بخاری، نواب زادہ نصر اللّہ خان، عبدالولی خان، نسیم ولی خان، نصرت بھٹو، بے نظیر بھٹو، آصف علی زرداری، میر مرتضیٰ بھٹو، میاں محمد شریف مرحوم، میاں محمد نواز شریف، محترمہ مریم نواز شریف، محترمہ کلثوم نواز، میاں شہباز شریف، حمزہ شہباز، کپتان محمد صفدر اعوان، سید یوسف رضا گیلانی، محمد حنیف عباسی، راجہ قمر الاسلام، شاہد خاقان عباسی، اسحاق ڈار، خواجہ محمد آصف، خواجہ سعد رفیق، خواجہ سلمان رفیق، رانا ثناء اللّٰہ خان، مفتاح اسماعیل، مخدوم محمد جاوید ہاشمی، سینٹر نہال ہاشمی، صدیق الفاروق، علی وزیر اور سید خورشید احمد شاہ سمیت حقیقی سیاست دانوں کی ایک بہت طویل فہرست ہے جنھیں سیاسی بغض، ذاتی انتقام اور جعلی مقدمات میں گرفتار اور قید کیا جاتا رہا۔ ان سب کے چاہنے والے بھی بے شمار ہیں۔ لیکن انھوں نے کبھی گرفتاری کے ڈر سے اپنے کارکنوں کو ڈھال نہیں بنایا۔ ان میں سے کبھی کوئی عدالتوں اور کچہریوں میں روتا نظر نہیں آیا۔ عدالتوں میں پیشی کے وقت بھی کبھی جلوس لے کر جانے جیسی بھونڈی اور غیر قانونی حرکت ان میں سے کسی نے کبھی نہیں کی ۔

میاں محمد نواز شریف نے تو خود وزیراعظم ہوتے ہوئے صرف ایک سال کے اندر 200 سے زائد بار اپنے ہی ماتحت ملازمین کے سامنے پیشیاں بھگتنے کا عالمی ریکارڈ بنایا۔ ان کی بیٹی اور بیٹے کو بھی اس دوران پیشیاں بھگتنا پڑیں۔ سب جانتے ہیں کہ یہ پیشیاں کسی جرم کی وجہ سے نہیں، بلکہ اسٹیبلشمنٹ میں موجود بعض طاقت ور عناصر کی ذاتی دشمنی کا منظم اظہار تھیں۔ اس کے برعکس ہم نے دیکھا کہ “پراجیکٹ عمران” کے نتیجے میں ایجاد ہونے والے سیاست دان جب جیل جاتے ہیں تو روتے ہیں اور انھیں ضمانتیں بھی فوری مل جاتی ہیں۔ شہباز گل، اعظم سواتی، فواد چودھری اور شیخ رشید کے آنسو تو عوام ٹی وی اسکرینز پر دیکھ چکے ہیں۔ ہم نے تین سیاست دان ایسے بھی دیکھے جو قانون سے فرار اختیار کرنے کے لیے اپنے حامیوں یا کارکنوں کو بطور ڈھال استعمال کرتے ہیں اور اس پر کسی شرمندگی کا اظہار بھی نہیں کرتے۔ یہ کام انھی تین سیاست دانوں نے کیا، جو میاں صاحب کے خلاف چلائے گئے “پراجیکٹ عمران” کے ظاہری چہرے تھے، یعنی عمران خان، طاہر القادری اور شیخ رشید احمد۔

2014 میں جب عدالت نے مبینہ طور پر طاہر القادری کے زیر قبضہ سرکاری زمین، سڑک اور چلڈرن پارک کو واگزار کروانے کی کوشش کی تو قادری صاحب نے سوشل میڈیا کے ذریعے اپنے کارکنوں کو مشتعل کیا اور انھیں پولیس کے ساتھ مقابلہ کرنے پر اُکسایا۔ اس افسوس ناک واقعے میں پولیس ملازمین اور قادری کے کارکنوں سمیت چند افراد جان سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ بعد میں انھی مرحوم کارکنوں کی لاشوں پر اس وقت تک سیاست جاری رکھی گئی، جب تک کہ وفاق اور پنجاب میں عمران خان کی حکومت نہ آ گئی۔ جیسے ہی عمران خان کی حکومتیں قائم کروائی گئیں، ان مقتولین کی برسیاں اور جلسے ختم کر دیئے گئے۔ کارکنوں کو اُکسا کر قانون کی گرفت سے بچنے کی شرم ناک کوشش گزشتہ ماہ شیخ رشید احمد نے بھی کی۔ لیکن آخرکار انھیں گرفتار ہونا ہی پڑا۔ پھر وہ کچہری کے احاطے میں ایک پولیس کانسٹیبل کے کندھے سے سر ٹکا کر عورتوں کی طرح دھاڑیں مار مار کر روتے ہوئے نظر آئے۔

عمران خان تو اس سلسلے میں اپنے دونوں  ساتھیوں سے بہت آگے نکل گئے۔ گرفتاری سے بچنے کے لیے کون کون سے حربے انھوں نے نہیں آزمائے۔ تحریک عدم اعتماد کے بعد الیکشن کروانے کا فوری مطالبہ دراصل گرفتاری سے بچنے ہی کی کوششوں کا آغاز تھا۔

عمران خان کو اچھی طرح معلوم ہے کہ چار سالہ دورِ حکومت میں وہ خود، اور ان کے قریبی تمام خواتین و حضرات سرکاری اختیارات اور غریب عوام کے وسائل کی بہتی گنگا میں کس بے رحمی سے ہاتھ دھوتے، بلکہ نہاتے رہے۔ عوام کو سائیکل پر دفتر جانے کی کہانیاں سنانے والوں نے سرکاری جہازوں اور ہیلی کاپٹروں کو ہی سائیکل بنا کر دن رات ذاتی کاموں کے لیے اندھا دھند استعمال کیا۔ توشہ خانہ، برطانیہ سے آئے اربوں روپے قومی خزانے کی بجائے اپنے ذاتی فنانسر کے اکاؤنٹ میں جمع کروا کر بدلے میں زمینیں وصول کرنے، لینڈ مافیا کے ساتھ گٹھ جوڑ، فارن فنڈنگ، تبادلوں اور تعیناتیوں تک کی رشوتیں وصول کرنے جیسے بےشمار معاملات کون نہیں جانتا۔ پھر چار سالہ دورِ حکومت میں سیاسی مخالفین، خصوصاً مسلم لیگ نواز کے خلاف مسلسل مقدمات اور گرفتاریوں کی جو تاریخ رقم کی گئی، وہ بھی عمران خان کو اچھی طرح یاد ہے۔

چنانچہ گرفتاری تو لازمی نظر آ رہی تھی۔ البتہ ریاستی و آئینی اداروں میں موجود بعض طاقت ور افراد کی پشت پناہی کی وجہ سے ملک سے باہر جانے کی ضرورت پیش نہیں آئی۔ پھر بھی گرفتاری سے بچنے کے لیے بہت پاپڑ بیلے گئے اور یہ سلسلہ اب بھی جاری ہے۔ وقت سے پہلے الیکشن کا مطالبہ، لانگ مارچ، دن رات جلسے، بدترین سیلاب کے دوران بھی جلسے، فوج اور الیکشن کمیشن پر طعنہ زنی، وزیر آباد سانحہ، کسی میڈیکو لیگل سرٹیفکیٹ کے بغیر کینسر ہسپتال میں طویل پناہ گزینی، چار ماہ سے جاری پلستر، لاہور میں مرضی کا سی سی پی او، اسمبلیاں توڑنا، کارکنوں کو دن رات زمان پارک کے باہر موجود رکھنا، سکیورٹی تھریٹس کے بہانے بنا بنا کر عدالتوں میں پیش ہونے سے مسلسل انکار، اور اگر کبھی عدالت میں پیش ہونا بھی پڑے تو سوشل میڈیا کے ذریعے ہزاروں افراد کا جتھہ اپنے گرد جمع کر کے پیش ہونا  ۔۔۔ اگر آپ غور کریں تو صاف ظاہر ہو گا کہ یہ سب گرفتاری سے بچنے کے ہی حربے ہیں۔

عمران خان توشہ خانہ کرپشن کیس میں فرد جرم عائد ہونے سے بچنے کے لیے مسلسل غیر حاضر ہیں۔ عدالت نے آخر کار ان کی گرفتاری کا حکم جاری کر دیا۔ 6 مارچ 2023 کو جب اسلام آباد پولیس کے ایک ایس پی صاحب اپنے عملے کے ساتھ زمان پارک (جسے مخالفین ضمانت پارک کہتے ہیں) پہنچے تو عمران خان کو گرفتاری سے بچانے کے لیے بلوائے گئے ہزاروں افراد رکاوٹ بن گئے۔ عمران خان کی موجودگی کے باوجود شبلی فراز نے پولیس کو اپنے ہاتھ سے لکھ کر دیا کہ عمران خان دستیاب نہیں۔ اس پر جب میڈیا نے پوچھا کہ جھوٹ کیوں لکھا تو شبلی فراز نے دھڑلے سے کہہ دیا کہ وہ اپنے لکھے ہوئے الفاظ پر قائم ہیں، اور اگر یہ جرم ہے تو جو چاہیں کارروائی کر لیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جو لوگ عمران کو “اکیلا” کہتے تھے وہ دیکھ چکے کہ وہ اکیلے کبھی نہیں ہوئے، بلکہ اسٹیبلشمنٹ اور دیگر آئینی اداروں میں موجود ان کے سرپرست عناصر ہر قدم پر انھیں راہ نمائی، مشاورت اور “فوری قانونی تحفظ” فراہم کرتے ہیں۔ اور جو لوگ انھیں بہادر کہا کرتے تھے، وہ ان کے طویل ترین پلستر، دو عدد پیشیوں کے مناظر اور “ضمانت پارک” کے باہر مقرر کیے گئے ہزاروں افراد کی دن رات موجودگی پر غور فرمائیں ۔  بہادری کی تاریخ میں کہاں کھڑے ہیں بھٹو، نواز شریف، بے نظیر، آصف زرداری، مریم نواز  ۔۔ اور کہاں کھڑا ہے عمران خان !

Facebook Comments

محمد اسد شاہ
محمد اسد شاہ کالم نگاری اور تعلیم و تدریس سے وابستہ ہیں - پاکستانی سیاست ، انگریزی و اردو ادب ، تقابل ادیان اور سماجی مسائل ان کے موضوعات ہیں

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply