ماریہ بی بمقابلہ خواجہ سرا کمیونٹی/ثاقب لقمان قریشی

میں نے نوّے کی دہائی سے سیاست میں دلچسپی لینا شروع کی۔ اس زمانے کو کالم نویسوں کا دور کہا جاسکتا ہے۔ ارشاد احمد حقانی صاحب اگر اپنے کالم میں وزیراعظم اور حکومت کی پالیسیوں پر اختلاف کرتے تو اس وقت کے وزیراعظم حقانی صاحب کو خط لکھ کر جواب دیا کرتے تھے۔ سیاست میں جتنی گندگی آج ہے شاید اس سے پہلے کبھی نہ تھی۔

سیاست کی یہ گندگی ہمیں ہر شعبے میں نظر آ رہی ہے۔ علما، کھلاڑی، شوبز انڈسٹری کے لوگ جسے دیکھیں ایک دوسرے پر الزام لگا رہا ہے اور تعفّن زدہ ماحول کو مزید آلودہ کر رہا ہے۔
ہمارے چھوٹے بھائی صاحب دنیا گھومے ہوئے ہیں۔ مطالعے کا اتنا شوق ہے کہ جس ٹاپک پر بولنا شروع کردیں تو دل کرتا ہے سنتے ہی چلے جائیں۔ ملک یا بیرون ملک جہاں کہیں بھی لیکچر دینے جاتے ہیں تو انکے لیکچر کے بعد سننے والے ان سے پڑھنے کیلئے کتابوں کے نام لکھواتے ہیں۔

بھائی صاحب کچھ عرصے سے انجینئر علی مرزا کے لیکچر سن رہے ہیں۔ میں نے انھیں بتایا کہ انجینئر صاحب دوسرے علما پر تنقید کرتے ہیں وہ ان پر کرتے ہیں اس سے دین کو کیا فائدہ ہُوا۔ کافی بحث کے بعد بھائی کو بات سمجھ آگئی۔

معروف شخصیات کے الزامات اور تنقید معاشرتی بگاڑ میں مزید اضافے کا سبب بن رہے ہیں۔ میں ایسے معاشرے کے قیام کیلئے جدوجہد کر رہا ہوں جہاں مذہبی فرقے ایک دوسرے کے عقائد کا احترام کرتے ہوں۔ دنیا کے تمام مذاہب اخلاقیات کا درس دیتے ہیں ،ہماری خواہش ہے کہ ہمارے ملک کی اقلیتی برادری کی عبادت گاہیں ہماری عبادت گاہوں کی طرح محفوظ ہوں۔ کوئی مسلمان زبردستی ہندو یا عیسائی لڑکیوں کا مذہب تبدیل کرکے ان سے شادی نہ کرے۔ خواتین، معذور افراد، خواجہ سراء اور محروم طبقات کو تعلیم، صحت اور روزگا  ر کے یکساں مواقع میسر ہوں۔ ایسا متوازن معاشرہ اسی صورت قائم ہوسکتا ہے جب ہم ایک دوسرے کے موقف کو تحمل سے سنیں گے اور اختلاف رائے کو برداشت کرنا سیکھیں گے۔

ماریہ بی پاکستان کی عالمی شہرت یافتہ فیشن ڈیزائنر ہیں۔ ماریہ سے پہلے فیشن ڈیزائننگ میں دلچسپی رکھنے والے ڈیزائن چوری کر کے ڈیزائنر بن جاتے تھے۔ ماریہ کہتی ہیں یہ ملک کی پہلی فیشن ڈایزائنر تھیں جنھوں نے فیشن کی باقاعدہ تعلیم حاصل کی اور اپنے کام میں نت نئے تجربات کر کے اسے دوسروں سے منفرد بنایا ہے۔

جن دِنوں کرونا وائرس کی لہر عروج پر تھی۔ ماریہ کا ایک ملازم کرونا وائرس کا شکار ہوا۔ ماریہ کے شوہر نے اسکا علاج کروانے کے بجائے اسے پیسے دیکر گاؤں بھیج دیا۔ جس کی وجہ سے انھیں شدید تنقید کا سامنا کرنا پڑا۔ انکے گھر پر چھاپہ پڑا۔ انکے شوہر کو جیل جانا پڑا۔ ماریہ نے جھوٹے الزامات پر مبنی ایک ویڈیو بنائی جس پر عوام نے شدید غصے کا اظہار کیا۔

میں نے تھوڑا بہت سیفٹی کا مضمون پڑھا ہے۔ میں سمجھتا ہوں کہ ہم اپنی قوم کو انسانی جان کی اہمیت اور سیفٹی کی تعلیم دینا شروع کر دیں تو بہت سے حادثات سے بچا جاسکتا ہے۔ ماریہ نے بھی یہ آگہی کی کمی کی وجہ سے کیا ہوگا۔

گزشتہ برس معروف خواجہ سراء ڈاکٹر معیز اعوان کو لاہور کے مشہور نجی سکول نے مدعو کیا۔ شاید ماریہ کو بھی مدعو کیا گیا تھا۔ ڈاکٹر معیز کو خواجہ سراء کمیونٹی کی متنازع ترین شخصیت ہونے کی وجہ سے خطاب سے روک دیا گیا۔ ماریہ نے سکول انتظامیہ کو تنقید کا نشانہ بنایا اور خواجہ سراء کمیونٹی کے پیچھے پڑ گئیں۔ اس معاملے کو یہاں ختم ہو جانا چاہیے تھا۔ لیکن ماریہ نے خواجہ سراء کمیونٹی کے خلاف نفرت بھری مہم شروع کر رکھی ہے۔ کبھی خواتین کو مشورہ دیتی ہیں کہ اپنے شوہروں کو خواجہ سراؤں سے دور رکھیں۔ کبھی جوائے لینڈ فلم پر تنقید کرتی ہیں۔ چند روز قبل جوائے لینڈ فلم کا کلپ ایک ڈرامے میں ٹی-وی پر چل رہا تھا تو ماریہ نے اس پر بھی تنقید کی۔ خواجہ سراؤں سے نفرت میں ماریہ اتنی آگے نکل چکی ہیں کہ اپنی تنقید میں مذہب کا سہارا بھی لے رہی ہیں۔

دوسری طرف ڈاکٹر محرب معیز کی شخصیت کا جائزہ لیں تو یہ کشمیر کے باعزت گھرانے کے چشم و چراغ ہیں۔ کبھی ایل-جی-بی-ٹی کو سپورٹ تو کبھی نشہ کرتے نظر آتے ہیں۔ ڈاکٹر محرب کی خواجہ سراء کمیونٹی کیلئے بھی کوئی قابل ذکر خدمات نہیں ہیں۔ لیکن چونکہ ہمارے میڈیا کیلئے انسانی حقوق سے زیاہ ریٹنگ اہمیت رکھتی  ہے، اس لیے ڈاکٹر معیز کو دوسرے پڑھے لکھے خواجہ سراؤں کی نسبت زیادہ مدعو کیا جاتا ہے۔ جسکی وجہ سے خواجہ سراء کمیونٹی کیخلاف نفرت میں مزید اضافہ ہو رہا ہے۔

میں خواجہ سراء کمیونٹی کے کچھ فنکشنز میں شرکت کر چکا ہوں۔ سینکڑوں میں کوئی ایک پڑھا لکھا نظر آتا ہے۔ اس کمیونٹی میں غربت اتنی ہے کہ بڑے بڑے ایوارڈز لینے والے خواجہ سراؤں کے پاس اکثر گھروں کے کرائے تک کے پیسے نہیں ہوتے۔ میں ایسے خواجہ سراؤں کو بھی جانتا ہوں جو ایم-اے کر کے بھی ڈانس فنکشنز سے گزر بسر کر رہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان کو اپنے پیروں پر کھڑا کرنے کیلئے ہمیں سب سے پہلے انسانی حقوق میں تفریق کو ختم کرنا ہوگا۔ سینیٹر مشتاق اور ماریہ بی جیسے لوگوں کا راستہ روکنا ہوگا۔ ہمارا ماریہ بی پر تنقید کا مقصد شہرت حاصل کرنا نہیں بلکہ تنقید برائے اصلاح ہے۔ ان کو یہ بتانا ہے کہ انکی خواجہ سراء کمیونٹی کے خلاف نفرت انگیز مہم سے معاشرے میں انکے خلاف نفرت میں اضافہ ہو رہا ہے۔ اس وقت ہمارے ملک کو برداشت اور محبت کی ضرورت ہیں۔ اپنے دل کے اندر پائے جانے والے بغض کو ایک طرف رکھ کر اس کمیونٹی کی بہتری کیلئے کام کریں۔ آئیں اپنی آنے والی نسلوں کیلئے ایسا معاشرہ تشکیل دیں کہ وہ ہم پر فخر کر سکیں۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply