جارج بر کلے/مبشر حسن

جارج برکلے کی پیدائش ہوئی 12 مارچ1685 عیسوی میں اور
وفات ہوئی 14 جنوری1753 عیسوی کو آئرلینڈ سے اس کا تعلق تھا
اہم کام ’’انسانی علم کے اصول‘‘
آئرش فلسفی اور کلیسیائی آدمی جارج بر کلے کو عینیت (ldealism) کے جدید مکتبۂ فکر کا بانی قرار دیا جا تا ہے۔ اس نے کہا کہ مادے کو ذہن سے الگ موجود تصورنہیں کیا جاسکتا ؛ کہ حسیاتی مظاہر کی صرف ایک دیوتا کو فرض کر کے ہی وضاحت کی جاسکتی ہے۔۔۔ ایسا دیوتا یا معبود جوانسانی ذہن میں متواتر تفہیم کی اہلیت پیدا کرتا رہتا ہے۔
برکلے 12 مارچ1685ءکو آئرلینڈ کی Kilkenny کاؤنٹی میں پیدا ہوا ٹرینٹی کالج ڈبلن سے تعلیم حاصل کی جہاں 1707ء میں ایک فیلو بنا۔ 1710ء میں اس نے ’’انسانی علم کے اصول‘‘ نامی مقالہ شائع کیا۔لوگوں کو اپنی تھیوری کا قائل کرنے میں نا کام ہونے پر اس نے مقالے کا ایک نسبتاً زیادہ عوامی ورژن ’’ ہائلاس اور فیلونوس کے درمیان تین مکالمات‘‘ (1713ء) جاری کیا۔ ہم عصروں نے ان دونوں کو ہی احمقانہ قرار دیا۔ دریں اثناء وہ اینگلیکن کلیسیا ( آئرلینڈ) میں ڈیکون نامزد ہو گیا اور ایک کلیسیائی آدمی کے طور پر تیزی سے اہمیت حاصل کر نے لگا۔ 1728 ء میں وہ برمودا میں ایک مشنری قائم کرنے کی غرض سے امریکہ گیا۔ 1732ء میں اپنا منصوبہ ترک کر دینے کے باوجود برکلے نے امریکہ میں اعلی تعلیم پر گہرا اثر ڈالا اور Yale کولمبیا یونیورسٹیوں کے علاوہ متعددسکولوں کو ترقی دینے میں ہاتھ بٹایا۔ 1734ء میں وہ Cloyne کا بشپ بنا اور 14 جنوری 1753 ءکو وفات پائی ۔
بر کلے کی فلسفیانہ تھیوری تشکیکیت اور ملحدیت کے جواب میں تشکیل پذیر ہوئی۔اس نے کہا کہ تشکیکیت اس وقت پیدا ہوتی ہے جب تجربے یا احساسات کو چیزوں سے الگ کر دیا جائے ۔ایک مرتبہ ایسا ہو جانے پر تصورات کے سوا کسی بھی اور ذریعے سے چیزوں کے متعلق جانا ممکن نہیں رہتا۔ اس مشکل پر قابو پانے کے لیے آپ کو یہ تسلیم کرنا لازمی ہے کہ قابل ادراک چیز کا’’ جوہر‘‘ (being) اس کے ادراک کردہ جوہر میں ہی ہے۔ ہر ادراک کی گئی چیز
حقیقی ہے اور صرف ادراک کی جا سکنے والی چیز میں ہی وجود رکھتی ہیں۔ لیکن کیا چیز میں صرف ادراک کیے جانے پر ہی موجود ہوتی ہیں؟ اس سوال کے جواب میں اس نے کہا کہ چیزیں ذہن میں تصورات کے طور پر وجود رکھتی ہیں ۔ تاہم وہ اصرار کرتا ہے کہ چیز میں انسانی ذہن اور ادراک سے باہر وجود رکھتی ہیں کیونکہ لوگ اپنے ذہن میں موجود تصورات پر کنٹرول نہیں رکھتے۔ چنانچہ لازماً کوئی ایسا ذہن ایک لامحدود ہر جگہ موجود روح یعنی علیم و خبیر خدا موجود ہے
جس میں تمام تصورات و جود رکھتے ہیں ۔
برکلے کا مشہور اصول ہے:’’ قابل ادراک ہونا ہی ہونا ہے ۔‘‘ وہ ایک عینیت پسند تھا۔ اس نے کہا کہ عام اشیا محض تصورات کا مجموعہ ہیں جن کا ذہن پر انحصار ہے۔ بر کلے ایک غیر مادیت پسند تھا۔ اس نے کہا کہ کوئی مادی جوہر موجود نہیں: صرف محدود ذہنی جواہر اور ایک غیر محدودذ ہن یعنی خداوجود رکھتا ہے۔
بر کلے کے مطابق ’’ تصورات‘‘ ( محسوسات ) مجہول ہیں ۔ ان کا ادراک ایک
غیر مادی جوہر یعنی روح کے ذریعہ ہوتا ہے جو فعال اور تصورات پیدا کر نے کی اہل ہے۔ فلسفہ خودی (Solipsism) سے گریز کرنے کی کوشش میں اس نے روحانی جوہروں کی کثرت کو تسلیم کیا اور اس کے علاوہ کائناتی ذہن’’خدا‘‘ کو بھی موجود قرار دیا۔ وہ کہتا ہے کہ تصورات قوائی طور پر (Potentially) صرف خدا کے ذہن میں لیکن واقعی طور پر انسانی ذہن میں ہوتے ہیں۔ بعد میں اس نے نو فلاطونیوں سے ملتا جلتا معروضی عینیت پسندی والا نقطۂ نظر اختیار کر لیا اور خدا کے ذہن میں تصورات کی ازلی موجودگی کا قائل ہو گیا۔ الحاد پرستی اور مادیت پسندی کو مسترد کرنے کی کوشش میں اس نے اس نظریے سے انکار کیا کہ مادہ داخلی تضادات سے لبریز اور علم کی جستجو میں بے کار ہے۔ مادے پر تنقید کی بنیاد عینیت پرستانہ اسمیت Nominalism پر تھی برکلے نے لاک کا بنیادی اور ثانوی اوصاف کا نظریہ مسترد کیا اور کہا کہ تمام اوصاف موضوعی ہیں۔ دنیا کا بحیثیت مجموعی ادراک کرنے میں سائنس کی اہلیت سے انکار کرتے ہوئے اس نے سائنس دان کے کام کو فطرت کے مصنف کی زبان کو سمجھنے کی کوشش
قرار دیا۔ اس نے انہی بنیادوں پر نیوٹن کے نظریہ مطلق مکان (Space) کومسترد کیا اور نظریہ کشش ثقل کو تنقید کا نشانہ بنایا کیونکہ وہ صرف روحانی جوہر کو فعال سمجھتا ہے۔
بر کلے کے فلسفہ کو درحقیقت کسی بھی دور کے فیشن کے مطابق نئی صورت دی جاسکتی ہے۔ آسٹریائی ماہر طبیعیات اور فلسفی ارنسٹ مارچ سے شروع ہونے اور آئن سٹائن تک پہنچنے والی جدید سائنس نے خود ثابت کیا کہ وہ احمق نہیں تھا۔ اسے احمق سمجھنے والوں نے شاید اس اقتباس پر توجہ نہیں دی: ’’ واحد چیز جس کے وجود سے ہم انکار کرتے ہیں— مادہ یا عارضی نوعیت کا جوہر ہے۔۔۔اگر کوئی یہ سمجھے کہ یہ بات چیزوں کی حقیقت سے توجہ ہٹا دیتی ہے تو وہ نافہم ہے۔۔۔ ہم فطرت میں کسی ایک چیز سے بھی محروم نہیں ہیں۔‘‘ لہذا بر کلے کے کہنے کا مقصد تھا کہ ہم حقیقت میں محسوس کرتے دیکھتے سنتے درد سہتے اور خوشی مناتے نہیں ہیں۔
برکلے کا فلسفہ کافی مشہور ہو گیا تھا، لیکن انگلینڈ میں چند ایک افراد نے ہی اس دور میں اسے سنجیدگی سے لیا۔ بنیادی طور پر یہ اس وقت کے غالب سائنسی نقطہء نظر کے خلاف ردعمل تھا۔ تعلیم یافتہ لوگوں کی اکثریت کا نقطۂ نظر تھا کہ دنیا ایٹموں پر مشتمل ہے جنہیں خدا نے مشینی انداز میں چلایا۔ مادے کی ’بنیادی‘‘خصوصیات اس کا وزن، شکل اور حرکت تھیں اور یہ مادے میں خلقی طور پر موجود تھیں ۔ ثانوی خصوصیات یعنی ذائقہ رنگ وغیرہ کا تعلق مادے کے بجائے ہمارے اپنے ساتھ تھا۔
فرانسیسی روشن خیالی کے ارکان مثلاً وولٹیئر نے لاک کے نظریات کو غیر تنقیدی انداز میں اخذ کر لیا۔ بر کلے نے فہم عامہ کی بنیادوں پر ان کے خلاف حملہ کیا۔ درحقیقت بر کلے نے چیزوں کے حقیقی اور قابل ادراک روپ میں اختلاف کا مسئلہ حل کرنے کے لیے چیزوں کے وجودکو ہی ماننے سے انکار کر دیا۔ اس نے کہا’’ پہلے ہم نے گرد اڑائی اور پھر کچھ نظر نہ آنے کی شکایت کرنے لگے۔‘‘ اس نے محض یہ سوال اٹھایا تھا کہ کیا کائنات اور اس کی تمام چیز میں ایک ذہن کے بغیر موجود ہوسکتی ہیں؟ وہ اس سوال کو منطقی انجام تک لے گیا۔ دراصل برکلے کہہ رہا تھا کہ قابل ادراک ہونا ہی موجود ہونا ہے۔
انیسویں صدی کے بعد سے بر کلے کے فلسفہ کو دوبارہ زندہ کرنے کی متعدد کوششیں ہوئیں اور متعدد عینیت پسند مکتبۂ ہائے فکر نے اس سے تصورات مستعار لیے مثلا نتائجیت کے حامیوں نے۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply