پیالی میں طوفان (41) ۔ کبوتر/وہاراامباکر

سن 1977 میں بیری فروسٹ نے ایک دلچسپ تجربہ کیا۔ انہوں نے ایک کبوتر کو treadmill پر رکھ کر چلایا۔ یہ اس قسم کا تجربہ تھا جو آپ کو ہنسا بھی دے اور سوچنے پر مجبور بھی کر دے۔ ٹریڈمِل نے آہستہ آہستہ پیچھے جانا شروع کیا جبکہ کبوتر اسی رفتار سے آگے چل رہا تھا۔ کبوتر نے جلد ہی اس کی عادت بنا لی لیکن اس میں ایک اور عجیب بات ہوئی۔

Advertisements
julia rana solicitors

۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر آپ نے کبھی کبوتروں کی چال کا مشاہدہ کیا ہو تو یہ نوٹ کیا ہو گا کہ چلتے وقت ان کا سر آگے پیچھے ہوتا ہے۔ دیکھنے میں لگتا ہے کہ یہ ان کے لئے آرام دہ نہیں ہو گا۔ اور شاید آپ کے ذہن میں سوال آیا ہو کہ اس کے لئے یہ اضافی محنت کیوں کرتے ہیں۔
ٹریڈ مل پر چلنے والا کبوتر اپنا سر آگے پیچھے نہیں کر رہا تھا۔ اس سے بیری نے اہم نتیجہ اخذ کیا۔ کبوتر کو چلنے کے لئے اپنے سر کو آگے پیچھے کرنے کی ضرورت نہیں ہے۔ اس لئے اس کا تعلق حرکت کی فزکس سے نہیں۔ اس کا تعلق اس بات سے ہے کہ کبوتر دیکھتا کیا ہے۔
ٹریڈ مل پر اگرچہ کبوتر چل رہا تھا لیکن اس کے اردگرد کی اشیا اپنی جگہ پر ہی تھیں۔ اگر کبوتر سر کو ایک جگہ پر مستقل رکے تو اس کو ایک ہی نظارہ ملے گا۔ اور اس سے اپنے آس پاس دیکھنے میں سہولت ہوتی ہے۔
لیکن جب کبوتر زمین پر چل رہا ہے تو منظر مسلسل بدل رہا ہے۔ یہ پرندے بدلتے منظر کا اتنی “تیزی” سے تعقب نہیں کر پاتے۔ کبوتر پہلے سر کو جلدی سے آگے کرتا ہے اور پھر ایک قدم لیتا ہے۔ اس کا جسم اس کے سر تک آن کر ملتا ہے اور پھر یہ اپنا سر پھر آگے کرتا ہے۔ ایک قدم کے وقت سر ایک ہی جگہ پر ٹکا رہتا ہے۔ اور یہ کبوتر کو زیادہ دیر تک منظر کا تجزیہ کرنے کا موقع فراہم کرتا ہے۔ ایک بار اس کا جائزہ لے لینے کے بعد جھٹکے سے سر دوبارہ آگے۔۔۔
کسی کو اس بات کا علم نہیں کہ ایسا کیوں ہے کہ کئی پرندے اپنی بصری انفارمیشن اکٹھا کر کہ اسکو پراسس کرنے میں اتنا سست رفتار کیوں ہیں کہ انہیں سر ہلانے کی ضرورت پڑتی ہے۔ جبکہ کئی ایسے ہیں جن کو اس کی ضرورت نہیں۔ لیکن انفارمیشن پراسس کرنے کی رفتار کو ایڈجسٹ کرنے کے لئے ان کے سر کی حرکت اس میں مدد کر دیتی ہے۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply