• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • میرا جسم میری مرضی اور خواتین کی محرومیاں/طفیل ہاشمی

میرا جسم میری مرضی اور خواتین کی محرومیاں/طفیل ہاشمی

خواتین کے کچھ سلوگن نا مناسب ہو جاتے ہیں اور ان پر شدید رد عمل کا اظہار کیا جاتا ہے۔

مسئلہ اس نوعیت کا نہیں ہے کہ اسے جذبات سے حل کیا جا سکے. مسئلہ مختلف، پیچ در پیچ اور تہہ در تہہ جہات کا حامل ہے۔
. میرا جسم میری مرضی
بظاہر بات معقول لگتی ہے، اگر ایک فرد اپنی دماغی صلاحیتوں، فطری یا فنی استعداد، ہاتھوں اور بدن کی طاقت کو اپنی آسودگی یا آمدنی میں اضافے کے لیے استعمال کرتا ہے تو کیا حرج ہے کہ دنیا اسی طرح چلتی ہے، بظاہر کوئی وجہ نہیں کہ کاٹن انڈسٹری میں کام کر کے روزی کمانا درست اور سیکس انڈسٹری میں خدمت انجام دے کر کمانا غلط ہو۔مارکٹ اکانومی کے تقاضے یہی ہیں اور دنیا کی بیشتر ریاستیں جائز اور نا جائز کے چکر میں الجھے بغیر اپنا ٹیکس وصول کر کے ان کاموں کے لئے بھی پرمٹ جاری کر دیتی ہیں لیکن کیا یہ فلسفہ اساسی طور پر درست ہے کہ میرا بچہ ہے، میں نے جنم دیا ہے۔چاہوں اسے زندہ رکھوں یا مار دوں۔ میری ٹانگ ہے، اسے کاٹ کر لنگڑا ہو جاؤں اور مانگ کر زیادہ مال کماؤں، میرا مکان ہے، میری دولت ہے جب چاہوں اسے دیا سلائی دکھا دوں۔ یہ رویہ ناقابل قبول ہے۔ اولا ًیوں کہ انسان بہت باعزت مخلوق ہے اسے یہ حق نہیں کہ وہ اپنی عزت، جان، مال کو نقصان پہنچائے دوسرے یہ کہ بحیثیت مسلمان قرآن ہمیں بتاتا ہے کہ ہم کسی شئے کے مالک نہیں، صرف کسٹوڈین ہیں اور مالک کی مرضی کو اختیار کرنے کے پابند۔

جہاں تک خواتین کا تعلق ہے تو نہ معلوم میرا یہ تاثر درست ہے یا غلط لیکن مجھے لگتا ہے کہ وصال نبوی کے بعد پہلی casualty خواتین کے حقوق کی ہوئی اور خلافت کے ملوکیت آسا ہونے کے بعد قدیم عرب جاہلی روایات کے احیا کی شعوری کوششیں بھی کی گئیں۔ سب سے پہلے خواتین کو مسجد بدر کیا گیا۔یہ کوئی عام واقعہ نہیں تھا  مسجد جو علم، تربیت اور تزکیہ کا مرکز تھی، دارالعلوم، یونیورسٹی،عدالت اور ہسپتال بھی تھی,سول سکریٹریٹ بھی تھا اور سوشل گیدرنگ کا پاکیزہ مرکز بھی, اس سے خاتون کو بیک بینی و دو گوش نکال کر اسے عملی زندگی کے تمام شعبوں سے بے دخل کر کے صرف کچن اور افزائش نسل کے لئے مختص کر دیا گیا. اس کا فطری نتیجہ یہ نکلا کہ تعلیم اور مہارت کے تمام شعبوں میں مردوں کی اجارہ داری قائم ہونے لگی۔ جب خاتون تعلیم اور مہارات میں پیچھے رہ جائے گی تو فطری طور پر مرد کی دست نگر ہو جائے گی اور خود کو دوسرے درجے کی مخلوق سمجھنے لگ جائے گی۔ آگے چل کر جب اسے جیون ساتھی کے انتخاب میں مکمل طور پر نظر انداز کر کے بے جوڑ بلکہ بعض حالات میں قابل نفرت فرد کو گلے لگانے پر مجبور کیا جائے گا تو اس کی مظلومیت مزید بڑھ جائے گی۔ جن معاشروں میں عورت کو نکاح کے وقت معقول مہر دے کر اس کا مالک بنا دیا جاتا ہے وہاں پھر بھی جذبات اور احساسات کی قربانی کی مادی قیمت دے کر کسی حد تک تلافی کی کوشش کی جاتی ہے لیکن ہمارے سماج میں تو لڑکے والوں کو دس ہزار مہر رکھنے پر بھی انگاروں پر لوٹتے دیکھا جا سکتا ہے۔اس کے بر عکس گھر کے استعمال کی سوئی دھاگے سے لے کر الیکٹرانک کے تمام سامان تک سب کچھ دلہن نے لا کر ان کنگال، اپاہج اور فالج زدہ سوچ کے افراد کا گھر بھرنا ہے۔

اگر خاتون کوئی جاب کرتی ہے تو اس کو گھر چلانے میں برابر حصہ ڈالنا پڑتا ہے اور اگر جاب نہیں کرتی تو واقعہ یہ ہے کہ اس نے گھر رہ کر شوہر کو روزگار کے لئے جد و جہد کی ہر ممکن سہولت فراہم کی ہے اور گھر اور شوہر کے اثاثوں میں اس کا بھی برابر کا حصہ ہے لیکن ہمارے سماج میں اگر کسی بات پر تلخی ہو جائے تو سرشام بیوی کو گالم گلوچ کر کے بلکہ مار پیٹ کر باہر نکال کر دروازہ بند کر دیا جاتا ہے۔ بعض حالات میں ان بیچاریوں کے پاس پیٹ بھرنے اور رات گزارنے کو بھی کچھ نہیں ہوتا دوسری طرف میاں اسی کے لائے ہوئے بستر پر آرام فرما ہوتا ہے اور گھر میں اسی کے برتنوں کی گونج سنائی دیتی ہے. طلاق یا خلع کی صورت میں اس کے لیے اپنا ملکیتی جہیز واپس لینا ممکن نہیں ہوتا جبکہ گھر بنانے میں تو وہ برابر کی بلکہ شوہر سے زیادہ شریک رہی تھی. قرآن کے حکم “متاع” کی مذہبی اجارہ داروں نے ایسی تشریحات کی ہیں جو اسلام کے چہرے کو بد نما بناتی ہیں. خلع جو عورت کا آزادانہ حق طلاق ہے اس کی ایسی تشریح کی گئی ہے جس سے کتاب اللہ، سنت دونوں ابا کرتے ہیں لیکن ہمارے دارالافتاء مردانہ بالادستی کے ہتھیار ہیں۔

میرے علم میں نہیں کہ ہمارے ملک میں ایک فی ہزار کیسز میں بھی بہنوں اور بیٹیوں کو وراثت میں حصہ دیا جاتا ہو۔کوئی بہن، بیٹی بات کرنے کی ہمت نہیں کرتی کہ مبادا بابل کے گھر کے کواڑ اِس پر ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں یا بھائی جان کو دل کا دورہ پڑ جائے۔

میں نے بے شمار لوگوں سے سنا کہ بیویوں کو مارنے کا قرآن میں حکم ہے۔ ہر شوہر مفسر قرآن بنا ہوا ہے، شوہر کو جب بھی مستی چڑھی ہوئی ہو بیوی نزع کے عالم میں ہو تب بھی “نہ” نہیں کہہ سکتی ورنہ فرشتے اس پر لعنت بھیجتے رہیں گے۔ صرف ظالم شوہر ہی ایسی پاک پوتر مخلوق ہے جسے فرشتے ہر دم سلام کرتے ہیں۔ لگاتار بچوں کی پیدائش اور ناکافی غذا کے باعث بیوی موت کے دہانے پر بھی کھڑی ہو تب بھی خاندانی منصوبہ بندی حرام ہے۔

کیا یہ سب حقائق نہیں ہیں؟ اور اس پر اگر کچھ عورتیں کہتی ہیں کہ “میرا جسم میری مرضی” تو میں یہ نہیں کہتا کہ وہ درست کہتی ہیں لیکن یہاں تک کہنے پر انہیں کس نے مجبور کیا؟

اسلام نے عورت کو جو حقوق اور عزت دی تھی جب اس سے چھین لی گئی تو دوسری طرف سرمایہ دارانہ نظام کے لئے کھلا میدان تھا کہ وہ عورت کو گھر سے نکال کر کھیت کھلیان اور کارخانے میں لے آئے تاکہ صنعت کار کو زیادہ محنت کش میسر آ سکیں اور وہ زیادہ دولت کما سکے۔ اس کے ساتھ ہی اپنے مال کی فروخت اور خریداروں میں اضافہ کے لئے لوگوں کے جنسی جذبات کو بھڑکانے کے لیے عورت کو اشتہارات میں استعمال کر کے انجام کار اسے سیکس ورکر بنا دیا گیا۔

سوال یہ بھی ہے کہ اگر شوہر کے گھربھی اس کی حیثیت اس گھر کی مالکن کی نہیں بلکہ سیکس ورکر کی ہے تو وہ سماج میں آزادانہ بطور سیکس ورکر کام کر کے بلاشرکت غیرے دولت کیوں نہ کمائے اور بیماریوں کی صورت میں مردوں کے ظالمانہ معاشرے سے انتقام کیوں نہ لے؟

آپ دم سے پکڑ کر ہاتھی کو کنوئیں سے نہیں نکال سکتے۔ محض متبادل سلوگن دینے یا جلوس نکالنے سے کسی کے زخم مندمل نہیں ہوتے اس کا علاج ایک مکمل پیکج ہے کہ
بیٹوں کو بیٹیوں پر ترجیح نہ دیں،
ان کی تعلیم، تربیت مساویانہ طور پر کریں،
ان کی شادی میں ان کی پسند کو آخری سند قرار دیں،
ان کا مہر معقول رکھیں اور وصول کر کے ان کی ملکیت میں دینے کی ضمانت حاصل کریں،
جہیز صرف اور صرف ان کی ملکیت ہو،
خاتون کے حق طلاق پر کوئی کمپرومائز نہ کریں،
وراثت میں انہیں حصہ ملنے کو یقینی بنائیں،

Advertisements
julia rana solicitors

اگر ہم اپنی بیٹیوں کی empowerment کا مکمل اہتمام کر دیں تو کسی کو کبھی جلوس نکالنے کی ضرورت ہو گی نہ حوصلہ۔
چمن میں تلخ نوائی مری گوارا کر
کہ زہر بھی کبھی کرتا ہے کارِ تریاقی

Facebook Comments

ڈاکٹر طفیل ہاشمی
استاد، ماہر علوم اسلامی، محبتوںکا امین

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply