• صفحہ اول
  • /
  • کالم
  • /
  • اب امریکی سفیر کی واپسی کے سوا چارہ نہیں ۔۔سید عارف مصطفٰی

اب امریکی سفیر کی واپسی کے سوا چارہ نہیں ۔۔سید عارف مصطفٰی

 چلیے جناب دو خوشیاں منا لیتے ہیں ایک بڑی اور ایک چھوٹی ، پہلے بڑی خوشی کی باری ہے اور وہ یہ کہ   21 دسمبر کو اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں امریکہ  کو زبردست مات ہوئی ہے کیونکہ صدر ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس کو اسرائیلی دارالحکومت تسلیم کرنے اور اپنا سفارتخانہ وہاں منتقل کرنے کے اعلان کو عالمی برادری کی بھاری اکثریت نے مسترد کردیا ہے اور وہاں ا س کے خلاف 128 ووٹ پڑے ہیں جبکہ 35 ممالک نے ووٹ نہ ڈالنے اور غیرجانبدار رہنے کو ترجیح دی اور امریکہ کو حمایت میں محض 9 ووٹ مل پائے ہیں اورجن میں ایک تو خود امریکہ  کا اپنا ووٹ ہے اور دوسرا اس کے لے پالک اسرائیل کا ہے اور باقی سات تو اتنے چھوٹے ممالک ہیں کہ دنیا کے پڑھے لوگوں میں بھی شاید ایک فیصد لوگ ہی ان کے ناموں سے آشنا ہوں جیسے کہ  مارشل آئی لینڈ ، میکرونیسیا ، ٹوگو نورو ، پاؤلو وغیرہ وغیرہ۔

دوسری خوشی جو کہ  کسی  قدر  چھوٹی ہے وہ اس بات کی ہے کہ امریکہ  کی حمایت میں ووٹ ڈالنے والے یا پھر غیر حاضر رہ کے غیر جانبداری کا ڈھونگ رچانے والے ممالک میں کوئی بھی مسلمان ملک شامل نہیں ہے لیکن میں نے یہ خوشی اس لیے  چھوٹی کہی ہے کہ جب امریکہ  کی مخالفت میں آواز بلند کرنے والے غیر مسلم ممالک کی تعداد 71 تھی تو پھر 57 مسلم ممالک کے پاس کوئی اور کوئی دوسرا رستہ ہی نہ بچا تھا اس لیے سعودی عرب اور امارات جیسے امریکہ کے خوشامدی اتحادی کے لیے بھی کوئی جائے فرارہی نہ بچی تھی اور ایسا نہ کرتا تو خادم حرمین شریفین کا یہ جعلی امیج بھی یکسر ختم ہوجاتا اور لے دے کے عالم اسلام میں اس کا سارا وزن اور اہمیت اسی تقدس کی مجبوری کے صدقے میں ہے ۔

یو این او میں امریکہ  کےخلاف قرارداد کی منظوری کوئی پہلا واقعہ نہیں لیکن اس کی مخالفت اور حمایت میں سامنے آنے والے اعداد و شمار کا اتنا بڑا فرق پہلے کبھی شاید نہیں دیکھا گیا ہو اور اسی لیے  اس شرمناک استرداد کے بعد ٹرمپ کی جو سبکی ہوئی ہے وہ بھی مثالی ہے خصوصاً اس تناظر میں کہ  اس بار یہ نئی بات بھی ہوئی تھی کہ اس قرارداد پہ رائے شماری سے پہلے امریکہ نے حفاظتی اقدام کے طور پہ دنیا بھر کے ایسے ممالک کو سنگین نتائج کی کھلی دھمکیاں بھی دی تھیں کہ  جن سے اسے اپنے خلاف  ووٹ دیے  جانے کا خطرہ تھا  اور اس سے قبل اسے ایک شرمناک صورتحال کا سامنا یہ بھی کرنا پڑ گیا تھا کہ جب یہ قرارداد سلامتی کونسل میں لائی گئی تھی تو اس کے 15 ارکان میں سوائے امریکہ  کے سب نے ہی اس کی حمایت کی تھی اور بالآخر امریکہ  کو ویٹو کا سہارا لے کے اس قرارداد کا رستہ روکنا پڑا تھا لیکن تاریخی طور پہ یہ کوئی نئی بات نہیں کیونکہ امریکہ  بہادر کو کئی بار سلامتی کونسل میں ہزیمت اٹھا کے ویٹو کی لاٹھی گھمانی پڑی ہے لیکن ایسا بھی شاید پہلے کبھی نہیں ہوا کہ وہ کسی معاملے میں یوں اکیلا رہ گیا ہو۔ اس کو باقی کے سارے14  ارکان میں سے کسی کی تائید نہ مل پائی ہو –

لیکن اب کی بار  یوں لگتا ہے کہ اس خرابے میں کوئی نہ کوئی خیرمستور ہے کیونکہ یہ ٹرمپ جیسا کوئی خردماغ ہی ہوسکتا تھا کہ یوں ساری دنیا میں سے بیشتر کو اپنا مخالف بنالے اورجنرل اسمبلی میں اپنی اس شرمناک شکست کے باوجود اس نے اپنے رنگ ڈھنگ نہیں بدلے اور بڑی بے شرمی سے اپنے مؤقف پہ قائم رہنے کے عزم کا اظہار کیا ہے۔ٴ ویسے گو تاریخی  طور پہ ڈھٹائی تو سبھی امریکی صدور کی فطرت کا حصہ رہی ہے کیونکہ وہ ایک طویل عرصہ سے دنیا کی سب سے بڑی سپر پاور چلا آرہا ہے لیکن اگر ٹرمپ کی جانب سے بیت المقدس میں سفارتخانے کی منتقلی کا اعلان واپس نہ لیا گیا تو یہ بلاشبہ صدر ٹرومین کی جانب سے جاپان میں ایٹم بم گرانے اور بش کی جانب سے ایک فرضی الزام پہ عراق کو روند ڈالنے کے بعد کسی امریکی صدر کی طرف سے اس درجہ کی احمقانہ خود سری کا یہ تیسرا بڑا واقعہ ثابت ہوگا اور اس انتہائی درجے کی منہ زوری ٹرمپ کے سوا کسی اور کے بس کی بات نہ تھی اور یہ وہ وقت ہے کہ جس میں ایک بار مسلم ممالک یکجان ہوکے کوئی بڑا قدم اٹھالیں وگرنہ یوں سمجھیے  کہ اب پھر ملت اسلامیہ پہ نائن الیون جیسا ایک اور بہت بڑا اور طویل بحران کسی نہ کسی بہانے سے سر منڈھا جانے والا ہے اور یہی وہ وقت ہے کہ جب اوآئی سی  کی جانب سے یہ متفقہ اعلان سامنے لانے کی کوشش کی جائے کہ جب تک امریکہ  بہادر اپنے اس فیصلے کو واپس نہیں لیتا مسلم دنیا مجبور ہوگی کہ وہ اس سفارتکار کی سطح کے تعلقات گھٹا کے قونصل کے درجہ پہ لےآئے اور جب تک امریکی سفیر کو واشنگٹن بھجوا دیا جائے۔

Advertisements
julia rana solicitors

مجھے  اندازہ  ہے کہ کچھ جذباتی لوگوں کو یہ مطالبہ اصل سے بہت کم معلوم ہورہا ہوگا اور وہ تو امریکہ  سے سفارتخاتی تعلقات ختم کرنے کے مطالبے سے کم پہ راضی نہیں ہوں گے لیکن مجھے برسرزمین حقائق کا کافی حد تک ادراک ہے اور بخوبی جانتا ہوں کہ  عالم اسلام کی حکومتوں میں کتنا دم خم ہے اس لیے  میرا تو یہ کمتر مطالبہ بھی ان کی روح فنا کرنے کا موجب ہوسکتا ہے ۔ مجھے امید ہے اس ضمن میں کوئی  آگے بڑھے نہ بڑھے شاید یہ جسارت بھی ترکی کے اردگان ہی کے نصیب میں ہو اور اگر کوئی میری اس گزارش کو ان تک پہنچاسکے تو یہ امر میرے لیے  باعث از حد ممنونیت و شکر گزاری ہوگا کہ میں اب چاہتا ہوں کہ بات رونے پیٹنے اور نالہ و شیون سے آگے بڑھے وگرنہ عالم اسلام کا مقدر ہمیشہ کی ماتم گساری کے سوا کچھ اور نہیں  ہے۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply