نکولاا سٹرجن کا استعفیٰ/ طاہر انعام شیخ

اسکاٹ لینڈ کی فرسٹ منسٹر نکولاا سٹرجن کا اچانک استعفیٰ سکاٹش سیاست میں کسی دھماکے کی طرح تھا جس کے برطانیہ بھر پر گہرے اثرات مرتب  ہوں گے لیکن یہ استعفیٰ اتنا غیر متوقع بھی نہ تھا۔

اپنے 8 سالہ دور اقتدار میں نکولااسٹرجن ایک نہایت مضبوط حکمران اور سیاست دان کے طور پر سامنے آئیں جنہوں نے بے پناہ انتخابی کامیابیاں سمیٹیں۔ 2014 کے ریفرنڈم میں اگرچہ آزادی کے حامیوں کو 45 کے مقابلے میں 55فیصد ووٹوں سے شکست ہوئی تھی لیکن حاصل کردہ 45فیصدووٹ بھی کچھ کم نہ تھے جس نے آزادی کے حامیوں کو ہار کے باوجود ایک نئی قوت بخشی اس نئے طرزعمل کا نتیجہ 2015میں برطانوی پارلیمنٹ کے الیکشن میں سامنے آیاجب اسکاٹش نیشنل پارٹی نے نئی لیڈر نکولا اسٹرجن کی قیادت میں 59میں سے 56 نشستیں حاصل کرکے ایک تاریخی کامیابی حاصل کی اور ہر ایک کو حیرت زدہ کر دیا۔

بعدازاں بھی اسکاٹش پارلیمنٹ اور دیگر الیکشن میں انہوں نے حیران کن کامیابیاں حاصل کیں۔ نکولااسٹرجن نے بریگزٹ کووجہ بتاتے ہوئے 2014کے ریفرنڈم کے نتائج کوتسلیم کرنے سے انکار کر دیا اور ان کی مکمل توجہ ایک نئے ریفرنڈم کے انعقادپر مبذول رہی۔ نکولاا سٹرجن سکاٹ لینڈ کو آزادی دلانے کے بعدیورپی یونین کا ممبربنانا چاہتی تھیں اوریورپی یونین میں ا سکاٹ لینڈ کو ممبر بنانے پر صرف اسی صورت غور کر سکتی تھی اگر آزادی کا نیا ریفرنڈم بھی 2014کےریفرنڈم کی طرح مکمل طور پر آئینی حیثیت رکھتا ہو، چنانچہ نکولااسٹرجن کسی بھی غیر قانونی اور غیرآئینی طریقے سے آزادی حاصل کرنے کے خلاف تھیں۔

لیکن مسئلہ یہ تھا کہ برطانوی پارلیمنٹ آزادی کے کسی بھی دوسرے ریفرنڈم کی اجازت دینے کوتیار نہ تھی۔ ان کا کہناتھا کہ 2014کا ریفرنڈم کم از کم ایک پوری نسل تک کے لئے ہے اور اب نیا ریفرنڈم 2040سے قبل ممکن نہیں۔ اور پھر برطانوی سپریم کورٹ نے یہ فیصلہ دیا  کہ آزادی کا ریفرنڈم کرانے کا اختیار صرف برطانوی پارلیمنٹ کے پاس ہے۔ نکولاا سٹرجن اور آزادی کے حامیوں کی امیدوں پر پانی پھیر دیا، اور اب ایسا لگ رہا ہے کہ جیسے عوامی حمایت حاصل ہونے کے باوجود آزادی کی تحریک ایک بند گلی کی طرف جا رہی ہے۔

نکولاا سٹرجن نے اپریل میں آزادی پر ایک خصوصی کانفرنس بھی بلا رکھی تھی، اور ساتھ ہی آئندہ جنرل الیکشن کے نتائج کو آزادی کے ایک دی فیکٹو ریفرنڈم کے برابر قرار دیا تھا لیکن حقیقت یہ ہے کہ اگر وہ ان الیکشن میں بھاری اکثریت بھی حاصل کر لیتی ہیں تو اس سے برطانوی حکومت پر شائد دباؤ تو پڑے لیکن وہ آزادی تو نہ حاصل کر سکتی تھی۔ پارٹی کے جیالے آزادی کے لئے بہت پُرجوش تھے اور نکولاا سٹرجن پر ان کا زبردست دباؤ تھا اور پارٹی پر ان کی گرفت کمزور پڑتی جا رہی تھی۔ نکولا کی قیادت میں سکاٹش نیشنل پارٹی اگرچہ ایک زبردست انتخابی مشین تھی۔ لیکن چند عملی مسائل ایسے تھے جو کہ مشکلات کا سبب بن رہے تھے۔ نیشنل ہیلتھ سروس زبردست دباؤ میں تھی، انتظار کی دو دو سال تک کی لسٹ تھی۔ انگلینڈ کے مقابلے میں سکولوں کا نظام تعلیم اتنا معیار ی نہ تھا، منشیات کی اموات کے سلسلہ میں سکاٹ لینڈ یورپ کا دارالحکومت بن چکا تھا۔ لیکن وہ معاملہ جو نکولاا سٹرجن کی حکومت کے لئے اونٹ کا آخری تنکا ثابت ہوا، پارلیمنٹ کی طرف سے صنفی شناخت کا اصلاحاتی بل پاس کرنا تھا۔ خصوصاً کسی بھی ٹرانس جینڈر کی طرف سے بغیر میڈیکل ٹیسٹ کے خود شناختی پر شدیداعتراض کئے جا رہے تھے۔ کمیونٹی منسٹر ایش ریگن نے اس بل کے خلاف احتجاج کرتے ہوئے اپنی وزارت سے استعفیٰ دے دیا تھا۔

Advertisements
julia rana solicitors

نکولاا سٹرجن دراصل ایک بڑی ترقی پسند لیڈر کے طور پر پیش ہونا چاہتی تھی۔ لیکن یہ معاملہ الٹا پڑ گیا خصوصاً ارسلا برائٹن کے ریپ سکینڈل نے لوگوں کو خاصا بد دل کیا۔ اور پھر برطانوی حکومت نے اس جینڈر بل کو پاس کرنے اور شاہی منظوری دلانے سے انکار کر دیا۔ جس پر نکولاا سٹرجن عدالت میں جانے کا سوچ رہی تھی بعض افراد کا خیال ہے کہ نکولااسٹرجن جیسی مضبوط لیڈر کے جانے سے سکاٹش نیشنل پارٹی اور آزادی کی تحریک پر منفی اثرات مرتب ہونگے، اور پارٹی اگلے الیکشن میں 20 کے قریب نشستیں  حاصل کر سکتی ہے۔ اس ساری صورتحال میں لیبر پارٹی جو کہ انس سرور کی قیادت میں پہلے ہی کئی کامیابیاں حاصل کر چکی ہے اس کو خاصا فائدہ ملے گا اور وہ دوبارہ اپنی ماضی کی مقبولیت حاصل کرنے کی کوشش کرے گی وہ پارٹی چھوڑ کر جانے والے قوم پرستوں اور یونیسٹ دونوں کا ووٹ واپس لا سکتی ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply