میں تو چلی چین / شہر ممنوعہ سے ملاقات(قسط19) -سلمیٰ اعوان

صبح ہی کچن میں ناشتہ کرتے ہوئے فوجی نے اعلان کردیا تھا۔ سامان شامان تیار کرلیں۔پیٹ پوجا کے لیے مزیدار چیزیں ساتھ چلنا ضروری ہیں۔کڑا امتحان ہے تمہارا۔’’
اس نے بیوی کو سُنایا۔180ایکڑ کی پیمائش کرنی ہے آج۔
‘‘نہیں بھئی بازو بیلنے میں نہیں آیا ہوا ہے۔بس ہمیں تو جو اچھا لگے گا وہی دیکھیں گے۔’’
اب میرے ہونٹوں پر اِس شکوے کا آنا تو بنتا تھا نا۔‘‘کیا تھا جو جوانی میں آنا مقدر کردیتا ۔تیری دنیا کو جی بھر کر تو روندتی۔’’
ساتھ ہی اندر سے لتاڑ پڑی۔‘‘واہ نی ماں صدقے تیرے۔اتنی تیری اوقات کہ اُس کی کائنات کو روندنے چلی ہے۔’’
سچی بات ہے بہت سے ملکوں کے بادشاہوں کے مشہور اور شاندار محل دیکھ بیٹھی ہوں۔پراُن کا پسار ا اور کھلارا اتنا تو نہ تھا۔جتنا ان منگ بادشاہوں کے محلوں کا ہے۔چلو میرے تو گھٹے گوڈے بیمار شیمار ہیں۔پراِس آٹھ کلومیٹر کے لمبے چوڑے رقبے پر پھیلے محل کو
دیکھنا تو جوانوں کے لیے ممکن نہیں۔’’
‘‘میرے اللہ اندر کوئی ویل چیئر یا کارٹ کریج کا بندوبست ہو۔’’
اب اسے کیا کہوں کہ اندر ایسا کچھ انتظام نہ تھا۔ عمران تو یونہی طفل تسلیاں دے رہا تھا۔اندر جانے کا واحد راستہ جنوبی سمت سے ہے۔یہ میریڈئین Meridionگیٹ کے نام سے جانا جاتا ہے۔ٹکٹوں کا بکھیڑا نہیں تھا کہ عمران نے منگا لیے تھے۔خلقت ہی خلقت۔مولا ابھی تو شکر ہے ویک اینڈ نہیں تھا۔
اور جب اندر جانے کے لیے فصیل کے پہلو میں بنے کشادہ کھلے راستے پر چلنے لگے تو خیال آیا یہ بادشاہ بھی کتنے ذلیل ہوتے تھے۔یہاں آنے کی عام لوگوں کو کب اجازت تھی۔خاص لوگ آتے تھے۔یہ خاص عام کے چکر بھی تھے اور آج بھی اسی شدت سے کارفرما ہیں۔
تو آج میریڈئین Meridian گیٹ کے سامنے کھڑی کہیں اس بڑے جثّے والی عمارت، کہیں اس کے پہلو میں تمکنت سے بیٹھی اسی حال حلیے والی بس ذرا قدوقامت میں کچھ مانو جیسے اس کی دو چھوٹی بہنیں ہوں،ان کے ساتھ ارغوانی رنگی دیوار میں بنے محرابی دروازوں کو دیکھتے ہوئے خود سے کہتی تھی۔
‘‘ دیکھو نا کیسی خوبصورت ہوائی طشتریاں لگتی ہیں جیسے کہ بس ابھی اڑ پڑجائیں گی۔’’
بیرئیرکے تنگ سے راستے میں ایک دوسرے کے آگے پیچھے چلتے ہوئے میں نے خود سے کہا تھا۔
‘‘ارے ہاں مجھے تو اندر بیچ والے دروازے سے جانا ہے کہ چینی بادشاہ اسی سے جاتے تھے۔پر یاد آیا کہ چینی بادشاہ تو خود کو جنت کے بیٹے خیال کرتے تھے۔اسی لیے انہیں
ہمیشہ دُنیا کی ہر چیز کے مرکز میں رہنا پسند تھا۔ شاید کیا یقینا اسی لیے اِس شہر ِ ممنوعہ کا تعمیری ڈھانچہ اسی خیال کی بنیاد پر کھڑا ہے۔ہاں ایک رعایت اُس خصوصی دن اُس شہزادی کو حاصل ہوتی تھی جو صرف دلہن بن کر اپنی شادی والے دن یہاں سے گزرتی تھی۔پر میں نہ کہیں کی شہزادی،نہ راجکماری نہ ملکہ ایک مزدور عورت،اللہ کی گنہگار بندی جسے اپنے دوزخی ہونے کا پورا یقین ہے۔بہتر ہے اپنی اوقات میں رہوں۔
یوں یہ اور بات ہے کہ شاہوں والے دروازے سے اندر داخل ہونے کی تو اجازت ہی نہیں تھی۔کہ وہ دروازہ ممنوعہ تھا۔حیرت ہوئی۔کیا آج بھی وہ خاص لوگوں کے لیے ہے یا ایسا وقتی طور پر تھا۔ہاں جب رُک رُک کر ہجوم کا خیال رکھتے ہوئے کہیں اس کے اندر کے حُسن اور کہیں اس کے عامیانہ پن کو جذب کرتی تھی تو سوال اور جواب کے سلسلے بھی ساتھ ساتھ ہم رکاب تھے۔
ہمیشہ کی طرح مزدور آدمی کی اِس بیٹی کی سوئی اِس بات پر اٹک جاتی ہے کہ ہائے ان محل باڑیوں کو بنانے میں لوگوں نے کیسے دیوہیکل پتھروں کو ڈھویا ہوگا۔ برف سے اٹے پڑے پھسلوان راستوں پر شدید سردیوں میں کِن کِن اذیتوں سے گزرتے ہوں گے۔
اب پھر خود سے کہتی ہوں ‘‘ٹھیک ہے بھئی گزرے ہوں گے۔پر یہ میرا ہمہ وقت شاہوں کو لعن طعن کرنا بھی کچھ ٹھیک نہیں ۔ہماری تمہاری اور دنیا کی موجودہ حکومتوں کے عوامی سربراہوں یا ذرہ بکتر والے وہ اور اُن کی آج کی محل باڑیاں کسی طرح بھی اِن محلوں سے کم ہیں کیا؟بندہ پرتو مارکر دیکھے ان کے شاہی دروازوں پر۔مُنڈی نہ مروڑ کر رکھ دیں محافظ۔آج کے یہ بیچارے بے بس لوگ بھی اِن ایکڑوں میں پھیلے گھروں میں ایسے ہی کہیں برفیلے اور کہیں تپتے دنوں میں اپنا خون پسینہ بہاتے ہیں۔تو واویلا مچانے کی قطعی ضرورت نہیں۔’’
پھر ایک اور سوچ نے دروازہ کھو ل لیا تھا۔
مگر یہ احساسات شاید کہیں میرے تعصب کی بنیاد پر تو نہیں ہیں کہ ہمارے پاس کوئی ایسا محفوظ اور شاندار اثاثہ نہیں ۔لاہور قلعہ ضرور ہے پر کس شکستگی سے دوچار ہے۔
اب ایک اور پھٹکار پڑی۔‘‘جاہلوں والی باتیں کرتی ہو اتنا بہت کچھ ہے۔مگر سنبھالنے کا سلیقہ نہیں ۔ان کی نقاب کشائی کا طریقہ نہیں۔چینی اس پر نازاں تو ہیں نا۔ہمیں تو اِس کی بھی تمیز نہیں۔دیوارِ چین کے بعد یہ انہیں دُنیا بھر میں ممتاز کیئے ہوئے ہے کہ یہ دنیا کا سب سے بڑا محل ہے۔اس کا متاثر کن طرزِتعمیر اور رنگا رنگ ہائے مجموعہ جات چین کے امیرانہ ثقافتی،تہذیبی اور تاریخی خوشبو کو سنبھالنے کی زندہ گواہی ہیں۔’’
تو Mardian gateسے جب اندر داخلہ ہوا تو مجھے خود کو کسی خوبصورت اور دلکش سے وسیع و عریض قطعہِ زمین میں کھڑے ہونے کا احساس ہوا۔دھوپ اگر چنگھاڑتی تھی تو ہواؤں کی تیزی اور اس کے سراٹے اس سے بھی تیز تھے۔چلنا تھا۔ پیدل چلنا تھا۔قہر درویش برجا ن درویش والا معاملہ تھا۔
پختہ فرش ،تاحد نظر پھیلی ہوئی زمینی وسعتیں جن کے اطراف میں چھوٹے چھوٹے رنگوں کے پگوڈا یونٹ بنے ہوئے۔پھر جیسے گولڈن واٹر برجGolden Water Bridgesکسی صحرا میں کھلے جنگلی گلاب جیسے یا کسی نخلستان کی طرح نمودار ہوا۔اس کے سفید ماربل کے ٹیڑھے میڑھے بل کھاتے پلوں کے نیچے ندی نالے بہتے تھے۔
بڑا موہ لینے والا منظر تھا۔ لوگوں کے پُرے،نیلا آسمان،ٹھنڈی ہوائیں،میٹھی سی دھوپ اور تاحدِنظر پھیلا ہواخاکستری افق،زمینی وسعتیں اور اُن میں جگ مگ کرتی چھجے دار ارغوانی عمارت جوایک طرح دوسرا گیٹ تھا۔ایسے حسین اور موہ لینے والے منظر نمودار ہورہے تھے کہ آنکھوں کی پتلیاں ساکت ہوگئی تھیں۔چند لمحوں کی اِس دید نے آنکھوں کو بند کردیا تھا۔لمبی سانس سینے سے نکلی تھی۔
اف تو یہاں تک آکر ہی ہانپ گئی تھی۔ہائے آگے کیسے جانا ہوگا؟اب وہیں ڈھلان سی جگہ پر پھسکڑا مارکر بیٹھ گئی ۔‘‘دیکھو تو !ہے کہیں بیٹھنے کے لیے کوئی سنگی یا چوبی بینچ۔ توبہ سنگ دلی کی ہے نا انتہا۔’’
پانی پیا۔ بادام کھائے۔کچھ توانائی بحال ہوئی ۔اٹھی اور آگے چلی۔اب کسی کٹیا میں جلتے چراغ کی روشنی کی طرح ایک سرخ عمارت ٹمٹمائی ۔یہ The Hall of Suprem Harmonyتھی۔قدم اس کی جانب اٹھتے چلے جاتے تھے۔دھیرے دھیرے چلتی تھی اور گالیاں بھی نکالتی تھی چین کی وزارت سیاحت کو۔کم بختو کچھ تو بوڑھے بابوں اور بابیوں کا خیال کرو۔یہاں اِن ررڑے میدانوں میں شٹل سروس یا کارٹ کیرج کا بندوبست ہونا کتنا ضروری تھا؟ایک دفعہ پھر پہلا کام منزل پر پہنچنے کے بعد بیٹھنے کا تھا۔
سعدیہ نے فلاسک سے چائے کا کپ دیا۔یہ کپ تھا یا آبِ حیات تھا۔ کیسے مزے سے گھونٹ گھونٹ پیتے اپنے اردگرد بکھری رعنائیاں دیکھتی تھی۔سامنے ماربل کی سیڑھیاں نظرآرہی ہیں۔لوگ دھڑا دھڑ چڑھتے چلے جارہے ہیں۔بھئی جوان ہیں نا۔سچی بات ہے 30میٹر کی اس بلندی پر چڑھنا ان کے لیے تو گویا کھیل تماشے والا کام ہے۔ہاں البتہ ہم جیسوں کے لیے عشوہ طرازیاں اور ناز و ادائیں دکھانے والے کسی محبوب جیسا ہی ہے۔
چائے ختم ہوئی تو اردگرد کے منظروں پر حاشیہ آرائیوں کی بجائے شاہوں کی تواضع ہونے لگی تھی۔میری تو عقل قاصر ہے کہ ان منگ اور چھینگ Qingبادشاہوں کے گٹے گوڈے کیا چینی کشتوں کے مرہون منت تھے یاپھر ڈنڈے ڈولی والے کہار منتظر رہتے تھے۔بھئی آخر کچھ تو ہوگا۔آخر یہ ہر روز کا اُترنا چڑھنا کارے دارد۔
اب اٹھنا تو تھا۔ اٹھی۔سیڑھیوں کا پل صراط پار کیا۔برآمدے کے سرخ ستون اور
ان کے چھجے سانپوں اور حشرات الارض کے جانے کون کون سے نمونوں کی آرائش و زیبائش سے سجے تھے۔بندہ تو سوچنے پر مجبور ہوجائے کہ پروردگار یہ تو نے اِس ناشکرے بندے کو کیسے کیسے ہنر اور تخلیقی جدتوں بھرے ذہن دیئے ہیں۔یہ جو سامنے دیکھ رہی ہوں اگر رنگوں کے خوبصورت امتزاج کو ہی سراہنے لگوں تو سانس بھی رک جائے اور اگر خالق کائنات کی ان تخلیقات کی پیدائش کے اسباب و علل پر غور کروں تو جیسے حیرتوں میں گم ہوجاؤں۔سچی بات ہے یہ کریہہ اور خوفناک تصویریں خون رگوں میں جیسے منجمند کررہی تھیں۔
بعض کمروں میں جانے کی ممانعت تھی۔بس کھلے دروازوں اور کھڑکیوں کے شیشوں سے اندر کے منظروں کو دیکھ لیں جتنا دیکھ سکتے ہیں۔
تخت و تاج والے ہال میں جو چھ ستون تھے وہ سب کے سب طلائی تھے۔اف میرے خدایا اُن کی چمک دمک اوپر سے ساری جگہ ڈریگون Motifsسے گھری ہوئی ہے۔رنگوں کا حسن اور ان کی آمیزیش کا ایسا شاندار اور خوبصورت ملاپ مجھے یہیں نظرآیا تھا۔ان کی شوخی اور چلبلا پن کہیں سرسوں پھوٹتی محسوس ہو،کہیں سبز پتوں کی تازگی،کہیں بیر بہوٹی جیسی سرخی،کہیں خاکستری ۔تخت شاہی کے بارے کہا جاتا ہے کہ صندل کی لکڑی کا بنا ہوا ہے۔جی چاہ رہا تھا قریب جاکر سونگھوں۔
سچ تو یہ ہے کہ یہ سطوت شاہی کی طاقت و عظمت کا مظہر و مرکز ہے۔یہ چین کا ابھی تک محفوظ چوبی فن تعمیر کا شاہکار ہے۔
اب کیا کہوں کہ یہ کیسی طلسمی پُرسرار دُنیا تھی۔ہر تھوڑے فاصلے پر سرخ پٹوں اور پیتل کی جہازی سائز میخوں جڑی دروازوں والی پکوڈا عمارتیں اپنے من موہنے رنگوں اور نقش و نگاری سے قلب و نظر کو سحر زدہ کرتی تھیں ۔تب کھل جا سم سم کی طرح ایک نیا جہاں وا ہوجاتا ۔ سچ تو یہ تھا کہ مجھے کچھ یہی محسوس ہورہا تھا جیسے کہیں عالمِ خواب ہے۔وسیع و عریض
قطعہِ زمین یا ایلس ان ونڈرلینڈ کی دنیا ہے جس میں داخل ہوگئی ہوں۔جس کے چاروں طرف سرخ اور کیسری چھوٹے بڑے پگوڈا گھر حیرتوں میں گم کرتے تھے۔
مسرت بھری کلکاری آنکھوں سے نکلی۔ہونٹوں سے نکلی۔جی چاہا تھا جھوم جاؤں کیوں کہ عالم سارا مستی میں ہے۔شہرِ ممنوعہ کی سب سے اہم سب سے بڑی عمارت دعوت دیتی تھی کہ آگے بڑھو ،مجھے دیکھو اور جانو میں کیسے کیسے اسرار ،کیسی کیسی کہانیاں اپنے اندر لیے ہوئے ہوں۔یہ جو تمہاری نئی نسل کی لڑکیاں بالیاں جو ماڈرن ڈریس پہنتی ہیں۔میری شہزادیاں اور ملکائیں ایسے ہی لباس زیب تن کرتی تھیں۔اِن وسیع و عریض صحنوں میں شاہی تقریبات ہوتی تھیں اور کیا سماں ہوتا تھاتم تو اس کا تصور بھی نہیں کرسکتی ہو۔
منظروں نے طبیعت میں چونچالی تو پیدا کردی تھی مگر منیر نیازی بھی بے طرح یاد آرہا تھا کہ ایک کے بعد ایک نیا دریا میرے سامنے آتا تھا جسے تیر کے پار کرنا تھا۔
چھتوں والے محل کے سامنے وسیع و عریض سفید ماربل کے ٹیرس تھے ۔لوگوں کے ہجوم ماربل کی ان سیڑھیوں پر بکھرے ہوئے تھے۔سرخ ستونوں کے گرد کھڑے انہیں بہ نظر غائر تکتے تھے۔برآمدوں میں گھومتے پھرتے اُوپر چڑھ گئی تھی مگر پھر وہیں بیٹھ ہی گئی تھی۔
سچی بات ہے کوئی ان رنگوں اور اُن کی خوبصورتی کا سوچ نہیں سکتا کہ اُن کا اطلاق کِس کِس انداز میں کیا گیا ہے۔سُرخ تو قدیم چین سے ہی شاہانہ طاقت اور خوشی کے اظہار کا عکاس ہے۔پیلا اور سُرخ دونوں کی آمیزش ہی سارے شہرِ ممنوعہ میں پردانی کررہی تھی۔
تو یہی وہ ہال تھا جہاں بادشاہ شاندار تقریبات میں شرکت کرتا تھا۔جہاں معاملاتِ سلطنت سلجھائے جاتے تھے۔سب سے بڑا، سب سے شاندار، سب سے خوبصورت اور اہم۔یہیں بادشاہ کا ڈریگون تخت موجود ہے۔
تو پھر اسے ہی دیکھ لینا کافی تھا۔
سچ تو یہ ہے کہ محسوس ہورہا تھا جیسے کسی نگار خانے میں قدم رکھ دیا ہے۔چمکتی ہوئی سونے رنگی چھتوں کی ٹائلیں اور سرخ چمکتی دیواریں اور جابجا کھڑے ستون جو یوں لگتا تھا جیسے چھت کو تھامے ہوئے ہیں۔
یہاں کیا نہیں تھا۔پینٹنگ ،برتن،خطاطی،کانسی Bronze wareاور دستاویزات۔یہاں جو کچھ تھا اس کی کوئی قیمت نہیں تھی۔ہر چیز بول رہی تھی۔اپنی تاریخی کہانی سُنا رہی تھی۔اپنے قدوقامت اور اپنے بارے بتارہی تھی۔یہاں خزانہ تھا۔بندہ تو فنّی مہارت کے ہاتھوں ہی دم گرفتہ تھا۔گولڈن کپ کی اپنی ہی کہانی تھی۔نسل درنسل پھیلی ہوئی۔
دروازے ،روشن دان ،شاہی کرسی اِس پر سایہ فگن ڈریگون ۔کس کس بات کی تفصیل سناؤں۔سارا شہر ممنوعہ تو بادشاہوں کی کہانیوں سے بھرا پڑا ہے،اِن عمارتوں کی کہانیاں ،یہاں بسنے والے شاہی اور غیر شاہی لوگوں کی کہانیاں وہ کہانیاں جو جغرافیائی فاصلوں،آب وہوا اور تمدنی تبدیلیوں کے باوجود پوری دنیا میں کم و بیش ایک جیسی ہی ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply