پیالی میں طوفان (35) ۔ فرش پر دودھ /وہارا امباکر

فرش پر دودھ گر گیا ہے۔ اب کیا کیا جائے؟ دودھ پھسلنا بھی ہے اور چپکتا بھی ہے۔ اس کو جھاڑو سے صاف نہیں کیا جا سکتا یا اٹھایا نہیں جا سکتا۔ لیکن مائع کو اکٹھا کرنے کے لئے ہمارے پاس ایک اوزار ہے۔ اس کو تولیہ کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جیسے ہی تولیے نے دودھ کو چھوا، مائع کو چھیڑنے کے لئے نئی فورسز میدان میں آ گئیں۔ تولیے کاٹن کے بنے ہیں اور کاٹن پانی کو کھینچتی ہے۔ اس چھوٹے سے سکیل پر پانی کے مالیکیول کاٹن کے روشوں سے چپک جاتے ہیں اور ہر ریشے کی سطح پر رینگ رہے ہیں۔ پانی کے مالیکیول آپس میں بڑی مضبوط کشش رکھتے ہیں۔ ایسا نہیں کہ کوئی ایک مالیکیول اوپر جائے تو باقیوں کو ساتھ نہ لے جائے۔ جب یہ اوپر کی طرف جائے گا تو اپنے ساتھ والے کو بھی کھینچ کر لے جائے گا۔ اور اس وجہ سے پانی ریشے کے اوپر جا رہا ہے اور ساتھ ہی دودھ کی باقی چیزوں کو بھی لے کر۔
تولیے کے ریشے کی پانی سے کشش اتنی مضبوط ہے کہ منحنی سی گریویٹی، جو اسے نیچے کھینچ رہی ہے، غیرمتعلقہ ہو گئی ہے۔ اور جو نیچے گر گیا تھا، وہ اوپر جا رہا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
لیکن یہ نصف کہانی ہے۔ تولیہ کی اصل چالاکی اس کے پھولے ہوئے روئیں ہیں۔ یہ fluff ہے جس کی وجہ سے تولیے میں بہت سی ہوا کی پاکٹ اور تنگ چینل موجود ہیں۔ اس کے بغیر یہ پانی نہ چوس سکتا۔
اگر پانی کو تنگ راستے میں اپنی جگہ مل جائے تو یہ ہر طرف سے اوپر کی طرف کھینچا جاتا ہے اور درمیان کا پانی بھی ساتھ ہی۔ جتنا یہ چینل تنگ ہو گا، اتنی ہی یہ پانی کو زیادہ موقع مل جائے گا۔ زیادہ روئیں والے تولیوں میں یہ سطح بہت زیادہ ہے اور ریشوں کے درمیان کی خلا کم ہے، اس لئے یہ بہت سا پانی چوس لیتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
فرش پر گرا دودھ غائب ہو رہا ہے۔ پانی کے مالیکیولز کا رش تولیے کے ریشوں پر لگ رہا ہے۔ جو کاٹن کو چھو رہے ہیں، وہ ایک طرف سے کاٹن اور دوسری طرف سے پانی کے دوسرے مالیکیول کو پکڑے ہوئے ہیں۔ خشک حصے پر پہنچ رہے ہیں اور نئی جگہ بن رہی ہے جس پر پانی کے دوسرے مالیکیول آ رہے ہیں۔ سٹرکچر سے خلا ختم ہو رہی ہے۔ سطح والے زیادہ سے زیادہ مالیکیول اپنے ساتھ ملا رہے ہیں۔ اور اس کا نتیجہ پانی کے اوپر جانے کی صورت میں نکلتا ہے۔ اس کو capillary action کہا جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
گریویٹی تمام دودھ کو نیچے کھینچ رہی تھی لیکن یہ دوسری فورسز کا مقابلہ نہ کر سکی جو کہ اوپر کی سمت کو تھیں، جہاں پر ہوا کے لاکھوں پاکٹس کے اندر دودھ خشک کاٹن کو چھو رہا تھا۔
اب تولیے کو الٹا کر فرش پر رکھ کر پھرا ہے تو تولیے کے دوسرے حصے اسی طرح بھر گئے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
یہ اس وقت تک ہو گا جب تک دونوں سمت سے توازن برابر نہیں ہو جاتا۔ اگر تولیے کا کونہ پانی میں ڈالیں تو پانی اس پر فوراً چڑھ کر دو انچ تک پھیل جائے گا۔ اور پھر رک جائے گا۔ یہ وہ مقام ہے جہاں پر پانی کے وزن کی وجہ سے نیچے کی سمت کو لگنے والی فورس سرفس ٹینشن کی وجہ سے اوپر کی طرف لگنے والی فورس کے برابر ہو گئی۔ جتنے تنگ چینل ہوں گے، اتنی ہی سطح زیادہ ہو گی اور سرفیس ٹینشن میں حصہ زیادہ ہو گا۔ پانی اتنا اوپر آئے گا۔ اگر یہ ریشے موٹے ہوتے تو پانی کو خشک نہ کر سکتے۔ لیکن اگر ان کو مزید تنگ کر لیا جائے تو پانی چوسنے کی صلاحیت میں مزید اضافہ ہو جائے گا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اور اس کا بہترین حصہ ۔۔۔ اگر تولیے کو خشک ہونے کے لئے لٹکا دیں گے تو پانی ان پاکٹس میں سے بخارات بن کر اڑ جائے گا اور ہوا کا حصہ بن جائے گا۔ مسئلے کو حل کرنے کا اس سے اچھا طریقہ اور کیا ہو سکتا تھا۔ تولیہ مائع کو اکٹھا کر لیتا ہے اور پھر یہ اپنے وقت پر ہوا میں اڑ جاتا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جس وجہ سے تولیے کاٹن سے بنائے جاتے ہیں، وہ یہ کہ کاٹن زیادہ تر سیلولوز ہے۔ یہ شوگر کے لمبی زنجیریں ہیں جن کے ساتھ پانی بہت آسانی سے چپک جاتا ہے۔ سستا کاغذ ہو یا ٹشو پیپر، یہ سب اس لئے پانی کو اچھا جذب کرتے ہیں کہ یہ سیلولوز سے بنے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔
اب اگلا سوال یہ ہے اس کی حد کیا ہے؟ اگر ان کو بہت بہت بہت چھوٹا بنایا جا سکے تو یہ کہاں تک جا سکتے ہیں۔
قدرت یہ کام ہم سے کہیں پہلے اور کہیں بہتر طریقے سے کر چکی ہے۔ اور اس کی سب سے شاندار مثال ہمارے سیارے کے سب سے لمبے جاندار ہیں۔ یہ بلند و بالا درخت ہیں۔
درخت زمین کے نیچے سے پانی چوس کر بغیر کسی “موٹر” کے کئی منزلہ عمارت جتنی بلندی پر پتوں تک اسی طریقے کو استعمال کرتے ہوئے پہنچاتے ہیں۔
(جاری ہے)

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply