• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • مایوسی اور خوش فہمی کا شکار نہ ہوں’ سچائی کا سامنا کریں۔صاحبزادہ امانت رسول

مایوسی اور خوش فہمی کا شکار نہ ہوں’ سچائی کا سامنا کریں۔صاحبزادہ امانت رسول

ہمارے ہاں یہ رجحان اور رویہ پختہ تر ہو چکا ہے کہ وہ شخص حریت پسند اور جمہوری ہے جو حکومت اور حکمرانوں کے خلاف علم بغاوت بلند کیے رکھے ،وہی حق پرست ہے جو حکومت اور حکمرانوں کی پالیسیوں کا نقّاد رہے۔ایسے ماحول میں کالم نگاروں،تجزیہ نگاروں اور مبصروں میں بھی ایک بھیڑ چال شروع ہو جاتی ہے کہ کون حکومت کا زیادہ نقّادہے اور کون زیادہRating دیتا ہے۔ایسے ماحول میں متوازن بات کہنا ازحد مشکل ہو جاتا ہے۔آپ حکومت کے اچھے کاموں اور ملکی مفاد کے لیے بنائی گئی پالیسیوں پر بھی کوئی تعریفی رائے دیتے ہوئے گھبراتے ہیں، کہیں ایسا نہ ہو کہ آپ پر بھی حکومت کے حامی ہونے کا الزام لگ جائے۔یہ الزام اتنا سنگین نہیں جتنا سنگین یہ ہے کہ آپ سے پوچھا جائے کہ آپ کو کتنے میں حکومت نے خریدا ہے؟یا آپ نے نواز شریف سے اس کی کیا قیمت وصول کی ہے؟

ایک پہلو یہ ہے کہ حکومت کوئی اچھا کام کرتی ہے جو اس نے عوام سے وعدے کیے،ان وعدوں میں سے کچھ وعدے وفا کیے اور بہت سے وعدے رہ گئے۔دوسرا پہلو بہتری کا یہ بھی ہوتا ہے کہ معاشرہ عمل ردّعمل کے اصول پر خود ہی بہتری کا سفر جاری رکھتا ہے۔
مجھے پاکستان دونوں پہلوؤں سے بہتری کی طرف جاتا دکھائی دیتا ہے۔پرویز مشرف کے بعد یہ دوسری جمہوری حکومت ہے جو اپنی مدت پوری کرنے جارہی ہے۔گزشتہ دورِ حکومت سے اس حکومت نے کچھ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے۔پاکستان گزشتہ ادوار سے زیادہ پرامن اور دہشتگردی سے پاک ہے۔اس کا سہرا جہاں موجودہ حکومت کے سر ہے وہاں فوج کی کارکردگی بھی قابل تحسین ہے۔یہ کام گزشتہ دور میں اشفاق پرویز کیانی اور صدر پاکستان آصف علی زرداری نہ کرسکے یا ان کے لئے معروضی حالات مختلف تھے۔اس بحث سے صرفِ نظر کرتے ہوئے آگے بڑھتے ہیں ،موجودہ حکومت نے بجلی بحران پر کسی حد تک قابو پایا ہے۔ہم حکومتی دعوؤں کو بھی مکمل سچ نہیں مانتے اور نہ سیاسی مخالفین کی تنقید کو مکمل جھوٹ قرار دیتے ہیں۔حکومت اور مخالفین کی اپنی سیاسی مجبوریاں ہوتی ہیں اس لیے دونوں نہ مکمل سچ بولتے ہیں اور نہ مکمل جھوٹ۔ان دونوں کے کلام و بیان سے ہم خود سچ اور جھوٹ کا فرق کرسکتے ہیں۔دوسرا دورِ حکومت ہے کہ فوج نے واضح طور پر بعض سیاستدانوں اور چند شرپسند عناصر کو پیغام دے دیا ہے کہ فوج اب کبھی شب خون نہ مارے گی۔

عدلیہ کا کردار بھی سیاسی اور غیر سیاسی حلقوں میں موضوع بحث بنا ہوا ہے،ممکن ہے عدلیہ کے کردار سے متعلق دو سے بھی زیادہ نقطہ نظر ہوں لیکن کوئی بھی خواہ اس کا تعلق کسی بھی شعبہ سے ہو وہ قانون سے بالا نہیں ہے ،یہ سوچ ضرور پروان چڑھی ہے۔اس سے کسی حد تک کرپشن کو کم کرنے میں بھی مدد مل سکتی ہے۔نواز شریف کے بعد جہانگیر ترین کی نااہلی اسی سلسلے کی ایک کڑی بن سکتی ہے۔اگرچہ ہمارے یار لوگ ہر مسئلے کوشک کی نظر سے دیکھتے اور ہر کسی کے کردار کو متنازعہ بنا دیتے ہیں۔ان عدالتی مقدموں اور فیصلوں کے ذریعے اس گیدڑ سنگھی کا ضرور پتہ لگایا جاسکتا ہے ،جس کے ذریعے دولت اور وسائل ان کے گھر کی لونڈی بن جاتے ہیں۔نیب کا ادارہ بھی کچھ عرصہ سے کچھ زیادہ سرگرم دکھائی دیتا ہے اگرچہ اس پر بھی جانبداری کا الزام عمران خان صاحب لگا چکے ہیں۔مجموعی طور پر نیب کے سربراہ جاوید اقبال بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors

پاکستان میں سب اچھا نہیں تو سب بُرا بھی نہیں ہے۔ہمیں مایوسی اور خوش فہمی کا شکار ہونے کے بجائے حالات کی سچائی کا سامنا کرنے کا حوصلہ پیدا کرنا چاہیے۔اچھائی اور برائی میں جو بھی شریک ہے اس کا ذکر ہونا چاہیے۔ریاستی نظام کی بہتری اور کہتری کا ذمہ دار ایک حکومت یا ایک ادارہ نہیں ہوتا جب تک ہم اس حقیقت کو سمجھ کر بات نہیں کرتے ہم کبھی درست تجزیہ نہیں کر پائیں گے۔

Facebook Comments

صاحبزادہ امانت رسول
مصنف،کالم نگار، مدیراعلیٰ ماہنامہ روحِ بلند ، سربراہ ادارہ فکرِ جدید

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply