میں تو چلی چین /ثقافتی انقلاب کی داستانیں (قسط18) -سلمیٰ اعوان

اور آج وہ مجھے لینے آئی تھی۔وہ جوتنگ شیاؤ تھی۔غیر معمولی پھولی گالوں والی جن میں پھنس کر اس کی آنکھیں بس سرمے کی سلائی جیسی نظر آتی تھیں۔اس کا جسم بھی کچھ زیادہ ہی بھرا بھرا تھا۔اصل میں میٹھی بہت تھی نا۔

سمجھ نہیں آتی تھی کہ تنگ کے پاؤں تلے ہاتھوں کا راستہ بناؤں یا آنکھیں بچھاؤں۔من کی مراد برآئے تو اس سے بڑی خوشی کیا ہوسکتی ہے؟بیٹی بھی خوش تھی کہ چلو ماں کسی ذمہ دار ہاتھ میں ہوگی۔اس کی آنے جانے والی کیچل بھی ختم ہوجائے گی۔اور ماں کا رانجھا بھی راضی رہے گا۔

گو یہاں دو نمبری والے تو کام تھے ہی نہیں۔بندے محفوظ اور کھانے پینے کی چیزیں بھی ٹھیک۔مگر ہوا یہ کہ وہ اس دن معذرت کرنے آئی تھی۔اس کی ماں کچھ ٹھیک نہیں تھی۔دو ایک دن کے بعد ہی پروگرام بنے گا۔وہ کہتی تھی۔

سچی بات ہے میں کچھ بجھ سی گئی تھی۔یقینا ًاُس نے میرے اترے ہوئے چہرے کو پڑھ لیا تھا۔ تسلی دیتے ہوئے بولی۔
‘‘گھبرائیں نہیں۔مجھے پرانا بیجنگ آپ کو ہر صورت دکھانا ہے۔Qianmenسٹریٹ کا حسن رات کو ہی دیکھنے والا ہوتا ہے۔ اور ہاں آپ نے میرے گھر آنا ہے۔’’پتہ اس نے سعدیہ کو لکھوا دیا تھا۔
‘‘چلو یہ اچھا ہوا۔ کل تو یوں بھی ہمیں فاربڈن سٹی جانا تھا۔’’سعدیہ شگفتگی سے بولی۔
اس نے جانے کی اجازت چاہی تو میں نے ممتا بھرے لہجے میں کہا تھا۔
‘‘ارے یونہی میری بچی کچھ کھائے پیے بغیر۔اور ہاں کچھ سُنا بھی دو۔ گھر تمہارا ہو یا میرا ایک ہی بات ہے۔’’
میں اُسے بانہوں کے ہالے میں سمیٹ کر ڈرائنگ روم میں لے آئی تھی۔چار بج رہے تھے۔ظاہر ہے ٹی ٹائم تھا۔
صوفے پر کھلے ڈلے انداز میں بیٹھتے ہوئے اس نے سعدیہ کو مخاطب کیا۔
‘‘چائے میں سموسے پکوڑے چلیں گے۔’’
میں نے ہکّا بکّا سی اُسے دیکھا۔
سعدیہ ہنس پڑی اور بولی ۔‘‘فکر نہ کریں شامی کباب بھی ساتھ ہوں گے۔’’

پتہ چلا کہ سعدیہ کے گھر میں چینیوں کی دعوتوں پر ہمیشہ پاکستانی کھانے ہی بنتے ہیں جنہیں وہ شوق اور مزے لے لے کر کھاتے ہیں۔اگر کبھی وہ کوئی چائنیز ڈش میز پر سجا بھی دے تو مجال ہے کوئی اُسے ہاتھ بھی لگا جائے۔

تنگ نے ہنستے ہوئے بتایا کہ وہ کبھی کبھی اتوار کی شام خان بابا ریسٹورنٹ پر مٹن کڑاھی اور چپلی کباب کھانے جاتی ہے۔جواب نہیں پاکستانی کھانوں کا۔
صدقے جاواں تیرے تنگ۔جی چاہا تھا آگے بڑھ کر منہ چوم لوں۔
اپنے ملک کی کِسی بھی انداز میں تعریف ہو۔بندہ پھولے نہیں سماتا۔کچھ ایسا ہی حال میرا تھا۔

بیجنگ میں خان بابا کا مشہور ریسٹورنٹ سان لی تون Sanlitunمیں ہے۔اسے آنے کے دوسرے دن ہی دیکھ بیٹھی تھی ۔ رات کے کوئی دوسرے پہر تینوں بچے مجھے زبردستی گھسیٹ کر وہاں لے گئے تھے۔ان کے ماں باپ سفارت خانے کی کسی تقریب میں مدعوتھے۔بیچارے پڑھتے پڑھتے تھک گئے تو خان بابا کے کباب کھانے نکل پڑے۔میں تو دم بخود تھی یہاں آکر۔یہ تو رنگوں کی، روشنیوں کی ،مختلف النوع عمارتوں،ان کے ڈیزائنوں،اُن کے ہار سنگاروں اور رنگ رنگیلے پیرھنوں کی دنیا تھی۔دنیا کا ہر برانڈ یہاں پیر پسارے ہوئے ہے۔ہر فرنچائز کمپنی ادھر ٹھسے سے بیٹھی ہے۔کھانے پینے کے کلب بارز سب موجود۔میکڈونلڈ بھی چمکتا دمکتا تھا۔

شکر ہے پانچویں فلور پر پاکستان کا خان بابا تھا۔جس کے اندر ایک رش کا عالم تھا۔پاکستانی ہی نہیں ۔مجتبیٰ بتاتا تھا انڈین ز بھی بہت ہیں۔چینی بھی دکھتے تھے۔اب اِن میں شمالی اور جنوبی کوریائی ہیں یا جاپانی بھی ہیں۔اس کا پتہ لگانا مشکل۔چہرے کی ٹھیکری ہی ایک جیسی نہیں خدوخال بھی ایک سے ہیں جیسے ہم برّصغیر کے لوگ۔ فاطمہ بتاتی تھی۔پاکستانی سفارت خانہ یہاں سے بس میل بھر کے فاصلے پر ہے۔ یہاں سفارت خانے بھی بہتیرے ہیں۔

سعدیہ چائے پانی کی تیاری میں جت گئی اور میں اُس کے ساتھ باتوں میں۔اندر کھاتے تو بہت کچھ جاننے کی تڑپ تھی۔یہ اور بات تھی کہ جب جاننے کا سوال ہونٹوں پر آیا تو اس نے گہری یاس بھری مسکراہٹ سے کہا تھا۔
‘‘دراصل اس دن میں بڑی جذباتی ہورہی تھی۔سوچتی ہوں اب اِس نانی ،اس کی سہیلی اور دیگر بے شمار لوگوں والے گڑھے مردے کب تک اکھیڑتی رہوں گی؟کچھ اور باتیں کرتے ہیں۔’’
‘‘ترقی کی شاہراہ پر چھلانگیں اور فلائنگ ککیں مارتی قوم یہاں تک کیسے پہنچی ہے؟ اب میں ہزاروں کوس دور سے پینڈے مارتی ایسے تو نہیں آئی ۔کچھ جاننے کی تڑپ ہی تو لائی ہے۔ اب یہ بھی نہ سُننے کو ملے تو پھر فائدہ؟’’
‘‘بڑی دردناک کہانیاں ہیں اس دور کی بھی۔سوچتی ہوں عروج و زوال کے المیوں میں یہی سب کچھ ہوتا ہے۔ہر دو صورتوں میں قومیں فتنہ و فساد کی نوک پر ہی رہتی ہیں۔
میری نانی وانگ نینگ رقص کی ماہر ہی نہ تھی۔شاعرہ بھی تھی۔ڈرامہ نگار بھی تھی اور تنقید کے لیے بھی شہرت رکھتی تھی۔
اس کے بچپن کی عزیز دوست چھانگ چھوان تھی۔چھانگ کی آواز میں جیسے سروں کا جہان بولتا تھا۔ایسا جہان جس کے لیے کہا جاتا ہے کہ ہواؤں میں اڑتے پرندوں کے کانوں میں اگر وہ سر چلے گئے تو پرندوں کا پھڑ پھڑاتے ہوئے زمین پر گرنا لازمی ہے۔

یہ موسم بہار کے دن تھے جب پیکنگ(بیجنگ کا پرانا نام) کے امریکی سفارت خانے کی ایک تقریب میں دونوں سہیلیوں کو اپنے اپنے فن کے مظاہرے کی دعوت دی گئی۔اس وقت چین ابھی اتحادیوں کا غلام تھا۔محفل کو دونوں نے لوٹا تھا۔دونوں کو امریکہ کی آرٹ اور میوزک یونیورسٹیوں میں تعلیم کے لیے وظیفے کی پیش کش ہوئی۔نانی نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا کہ میرے بڑے ماموں بہت چھوٹے تھے مگر ان کی دوست چھانگ چھوان نے اس سے فائدہ اٹھانے کا فیصلہ کیا۔دونوں بچے ساتھ تھے۔اور اجنبی ملک میں مسائل کا بھی سامنا تھا۔ہمت ،حوصلے سے اپنے اخراجات کو پوراکرنے کے لیے چھوٹے موٹے کام کیے ۔گریجوایشن پھر پوسٹ گریجوایشن کی۔
چین کی آزادی پر اس نے ہماری نانی کو جو خط لکھا وہ آج بھی ہمارے پاس محفوظ ہے۔یہ ایسٹ مین اسکول آف میوزک نیویارک سے لکھا گیا تھا۔ پیارو آداب کے بعد چھانگ لکھتی تھیں۔
تم یقین نہیں کرو گی کہ میں کتنی خوش ہوں ۔نیویارک ٹائمز کے پہلے صفحے پر اپنے محبوب لیڈر ماؤ کو ہاتھ میں پیپر پکڑے تھین آن من سکوائر کی شہ نشین سے چین کی آزادی کا اعلان کرتے دیکھ کر کسقدر خوش ہوں۔

وانگ میں نے واپسی کا فیصلہ کرلیا ہے۔یہاں میرے دوستوں اور خیرخواہوں کا کہنا ہے کہ میرا یہ احمقانہ فیصلہ ہے۔چین ابھی مسائل سے گھرا ہوا ملک ہے۔ابھی تیل دیکھو تیل کی دھار۔مگر وانگ میری تو روح پیاسی ہے جسے وطن کی فضائیں ہی سیراب کرسکتی ہیں۔اور یوں بھی دیکھو نا میں نے کتنا کچھ حاصل کیا ہے؟تو اب میرا فرض ہے کہ میں اِسے اپنے دیس کو واپس لوٹاؤں۔
میری نانی اور چھانگ چھوان کی یہ داستان میرے بچپن کی وہ اساطیری کہانی ہے جو میں بار بار اپنی ماں سے سُنتے نہ تھکتی تھی۔
یہ دن میری نانی کے لیے امیدوں اور امنگوں سے بھرے ہوئے تھے۔معاشی حالات گو بہت ابتر تھے مگر اُسے تو جیسے کسی بات کی پرواہ ہی نہ تھی۔اس کی جان و جگر وطن لوٹنے کا تہیہ جوکر بیٹھی تھی۔

ہاں ایک بات اُسے پریشان کرتی تھی۔حکمران پارٹی کے ممبران کی ایک تعداد طفلانہ اور بعض اوقات متعصبانہ رویے اپنائے بیٹھی تھی۔ یورپ بالخصوص امریکہ سے آنے والے چینیوں کی وفاداری پر مشکوک سے انداز،کِسی صحیح بات پر بھی ان پر دائیں بازو سے تعلق کا ٹھپہ لگانے اور اُنہیں ذلیل کرنے کے ہتھکنڈے اور کوشیش بہت خطرناک تھیں۔اس نے یہ سب کچھ ڈرتے،کچھجھجھکتے چھانگ کو لکھ بھی دیا تھا۔اور وہ
خوش تھی کہ چھانگ نے اپنا ارادہ نہیں بدلا تھا۔
اور پورے تین سال بعد وہ آگئی۔وہ آئی۔اس نے چین پر ایک نظر ڈالی۔ پیکنگ کو دیکھا اور وہ چھا گئی۔
سعدیہ کا ٹرالی گھیسٹتے ہوئے آنے کے شور نے ہماری گفتگو کا سلسلہ منقطع کردیا تھا۔
تنگ ہنسی۔‘ ‘پاکستانی خاطر مدارت مزہ آئے گا۔’’
شامی کبابوں کو اس نے رغبت سے دیکھتے ہوئے اپنی پلیٹ میں ایک نہیں دو ڈالے۔میں نے اس کے شوق کو دیکھتے ہوئے ایک اور رکھ دیا۔
‘‘ارے نہیں نہیں پہلے اِن سے تو نپٹ لوں۔’’

سعدیہ چینی مزاج آشنا تھی۔یقینا ً اسی لیے ٹرالی میں ایک بھی میٹھی چیز نہیں تھی۔ قہوہ ہماری پتی کا تھا۔ کڑوا کسیلا گھونٹ بھرتے ہوئے اُس نے بات کو وہیں سے جوڑاجہاں سے چھوڑا تھا۔
پہلا کنسرٹ جو بیجنگ میں ہوا وہ فیصلہ کن تھا۔لوگوں کی غیر معمولی تعداد جن میں نمایاں شخصیت وزیر اعظم چواین لائی کی تھی ہال میں موجود تھی۔ اس کی آواز کے جادو نے پورے ہال کو مسحور کردیا تھا۔وزیراعظم نے خوبصورت انداز میں اُسے خراج پیش کرتے ہوئے کہا۔

وہ بیرونی دنیا سے آنے والے سب فنی ماہرین ،دانشوروں،فن کاروں اور آرٹ لورز کو خوش آمدید کہنے اور ان کا شکریہ ادا کرنے میں بے پایاں خوشی محسوس کرتے ہیں۔چین کی تعمیر نو میں ہمیں ہر قدم پر ان کے تعاون کی ضرورت ہے۔چھانگ چین آپ جیسی فنکار پر نازاں ہے۔
دونوں دوستوں کا فن عروج پر تھا۔ جذبوں پر بھی شباب تھا۔چیزوں کو جانچنے ،پرکھنے اور انہیں میرٹ پر دیکھنے میں چھانگ کی نظر میں جو گہرائی تھی اس میں اس کا بیرونی دنیا کا تجربہ بولتا تھا۔ وہ پورا یورپ گھومے ہوئے تھی۔۔ان کے آرٹ میوزیم، کنسرٹ ہالز اور اوپیراہاؤسز کا فنی مطالعہ کیے ہوئے تھی۔اس کی وسعت نظری کو سرکاری اوپیراہاؤس میں بہت سی خامیاں نظر آتی تھیں۔وہ یہ سب باتیں میری نانی سے کرتی تھی۔
اکثر و بیشتر کہہ اٹھتی۔‘‘ وانگ تم لکھو تمہاری تحریر میں حسن بھی ہے اور کاٹ بھی۔احساس دلاؤ انہیں۔رجعت پسندسوچ اور رویے سے باہر آنے کی ضرورت ہے۔’’

میری نانی نے بھی کچھ نہ سوچا۔ بہت تفصیلی مضمون لکھا اور اُسے ادبی گزٹ میں چھپوا دیا۔مرکزی کمیٹی کے رجعت پسندوں کے لیے یہ سب ناقابل برداشت تھا ۔ایک ایسے اوپیرا ہاؤس پر تنقید کی بارش ہوئی تھی جو مرکزی کمیٹی کے عہدے داران کے تابع تھا۔جس کی قیادت ماؤ کی شیطان صفت بیوی چیانگ چھینگ کرتی تھی۔ بس تو میری نانی کو اٹھا کر جیل پھینکا اور چھانگ کو اس کے شہر میں نظر بند کردیا گیا۔

یہ کس قدر ستم کی بات تھی کہ چھانگ کا شوہر مُوکوئی شین جو ایک ماہر آرکسٹراکنڈکڑتھے میرے ناناجو ایک نامور شاعر تھے کو بھی سزا کے لیے چن لیا گیا۔دونوں کو شمال مشرق کے لیبر کیمپوں میں پھینک دیا گیا۔ مشقت ،خود کو تبدیل کرنے کا پریشر اور ناقص غذا جس نے بالآخر نہ صرف موکوئی کو بلکہ میرے نانا کو بھی اگلے جہاں پہنچا دیا۔
نانی جیل میں آنکھوں کی ایک ایسی بیماری میں مبتلا ہوئی جس نے انہیں اندھا کردیا۔اور یونہی ایک دن وہ بھی ختم ہوگئی۔

ایک دہائی گزر گئی تھی جب کہیں ایک دن چواین لائی کو چھانگ یاد آئی۔پتہ کروایا کیس کا مطالعہ کیا تو جاناکہ وہ ہیرا سی فنکارہ ظلم کی کِس چکی میں پس رہی ہے؟
خصوصی توجہ اور اختیارات کے استعمال سے اُس پر سے دائیں بازو کا لیبل ہٹایاگیا اور اُسے بیجنگ کنسرٹ میں آنے کی دعوت دی۔
چھانگ کی آنکھوں سے آنسو بہہ نکلے۔مقررہ دن وہ تقریب میں شامل ہوئی۔اس کے پرانے ساتھی، اس کے مداح اُسے دیکھ کر بہت خوش ہوئے۔اس کی مترنم آواز کے جادو نے آج بھی محفل کو اسی طرح سحر زدہ کیا تھا۔گیت اختتام پر تھا جب چواین لائی ہال میں داخل ہوئے۔سریلے سُر کا اُتار پورے ماحول کو گویا مٹھی میں جکڑ چکا تھا۔آواز خاموش ہوئی اور ہال میں تالیوں کی گونج میں چواین لائی بھی تالیاں بجاتے اسٹیج کی طرف بڑھے جہاں چھانگ سر کو نیم خم کیے حاضرین کا شکریہ ادا کرتی تھی۔چواین لائی نے اس کا ہاتھ تھاما اور میٹھی سی مسکراہٹ میں نہاتے چہرے سے اُسے دیکھتے ہوئے کہا۔
‘‘تمہاری آواز سدا بہار ہے۔یہ مسحور کرتی ،جادو جگاتی اور دل کی دنیا کو زیر و زبر’’ کرتی چلی جاتی ہے۔

چھانگ کی آنکھوں سے دو آنسو نکلے جواس کے صبیح رخساروں پر اک پل رکے اور پھر اس کی ٹھوڑی سے نیچے کہیں چپک گئے۔اور چواین لائی کی خواہش پر چھانگ نے ان کے ساتھ رقص کیا۔رقص کرتے ہوئے انہوں نے میری نانی،اس کے شوہر ،بچوں اور میرے نانا بارے پوچھا۔ جان کر وہ مہربان سا انسان دکھی ہوا۔اس کے تسلی آمیز لفظوں اور دوستانہ رویے نے چھانگ کی دلجوئی کی۔ اس کے زخموں پر پھاہے سے رکھے اور وہ اِس یقین سے رخصت ہوئی کہ ریاست اس کے دکھ کا ازالہ اور اپنی غلطی کا مداوا کرنے کی پوری کوشش کرے گی۔
اور اگلی بار ریاستی سطح پر اس کا اظہار بھی ہوا کہ جب ایسے ہی ایک پروگرام میں چواین لائی نے اُسے بھرپور خراج پیش کرتے ہوئے پارٹی اور حکومت کی جانب سے سراہا۔مگر یہ سب عارضی ثابت ہوا۔ کچھ ہی عرصے بعد ثقافتی انقلاب کے نام پر دائیں بازو سے تعلق، انقلاب دشمن،غدار،دشمن کے ایجنٹ جیسے ناموں والی زہریلی ہوائیں چلنا شروع ہو گئی تھیں۔

چھانگ ایک بار پھر ان ہواؤں کی لپیٹ میں تھی جنہوں نے ہر اس شخص کا گلا گھوٹنے کی کوشش کی جن کی روشن خیالی ،چین سے باہر کی تعلیم، اظہار رائے میں جھوٹ اور منافقت سے گریز شامل تھا۔
بھلا کونسا ذلت آمیز خطاب ایسا تھا جو اس پر لگایا نہ گیا۔وہ غیر ملکی جاسوس ہے۔اس الزام کو منوانے کے لیے ہی تشّدد کی انتہا کردی گئی۔دراصل ماؤ کی بیوی چیانگ چھینگ Jiang Qing اور اس کے ساتھیوں سے وہ برداشت نہیں ہوتی تھی۔پس منظر میں چواین لائی تھے جوچیانگ کے عزائم کی راہ میں سب سے بڑی رکاوٹ تھے۔

ماؤ کی وفات کے بعد اُسے تمام الزامات سے بری کیا گیا۔سٹیج کی دنیا میں واپسی کے بعد اُس نے مرحوم وزیر اعظم چواین لائی کو جو منظوم خراج پیش کیا وہ نغمگی ،موسیقیت اور احساسات کی گہرائی کے اعتبار سے شاہکار سمجھا گیا۔
جب ہم چھوٹی الایچی کا خوشبوئیں اڑاتا تازہ قہوہ جو سعدیہ ابھی ابھی ہمارے ہاتھوں میں تھما کر گئی تھی اور جسے ہم گھونٹ گھونٹ پیتی تھیں۔ہمارے درمیان خاموشی تھی۔مجھے نہیں پتہ تنگ کی سوچیں کیا تھیں؟ہاں البتہ میرے سامنے ملکوں کی قوموں کی تاریخ تھی۔ظلم و جبر کی کہانیاں اگرچہ چار دس ہاتھ پرے کی تھیں تو وہیں ہم مسلک نظریاتی ساتھی روس تو ہاتھ بھر کے فاصلے پر تھا۔ کیمونسٹوں کا دور، سٹالن کا The Great Purgeتو ابھی کل کی بات تھی۔مخالفین کے سروں کی کھوپڑیوں کے میناروں اور لیبر کیمپوں کی رونگٹے کھڑے کرنے کی داستانیں۔
‘‘ہائے میرے پروردگار یہ تیرا اشرف المخلوق بھی کیا شے ہے؟’’

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply