پرائیویٹ ادارے کے ملازم بھی انسان ہیں/ ڈاکٹر نویدؔخالد تارڑ

وہ ایک پرائیویٹ بینک تھا، مجھے وہاں نوکری سے متعلقہ اکاؤنٹ کھلوانے کے لیے جانا پڑا۔ وہاں جاتے ہوئے میرے کولیگز نے بڑی تفصیل سے سمجھایا تھا کہ سختی سے بات کرنا ورنہ بات ہی نہیں سنتے اور اکاؤنٹ کھولنے میں ہی مہینہ لگا دیں گے۔ ان کی باتوں سے ہوئی برین واشنگ کے بعد میں یہ ارادہ کر کے بینک گیا تھا کہ اپنے مزاج کے برخلاف نرمی سے پیش نہیں آؤں گا۔

کاؤنٹر سے آگے تین میز کرسیاں لگی ہوئی تھیں لیکن وہاں ایک ہی شخص بیٹھا ہوا تھا۔ اور وہ شخص دنیا و مافیہا سے بے خبر کاغذوں کے ایک پلندے پہ جھکا تیزی سے کام کر رہا تھا۔ کسی کو سر پہ کھڑا محسوس کیا تو اوپر دیکھا، اس پچیس چھبیس سالہ جوان بندے کی آنکھوں میں اور چہرے پہ شدید قسم کی تھکن تھی۔ بولا تو آواز بھی تھکی ہوئی تھی ، سختی سے بات کرنے کے میرے سارے ارادے وہیں ڈھے گئے اور میں نے نرم انداز میں سلام کیا۔ اپنے آنے کا مدعا بیان کیا اور اپنے کولیگز کی شکایات بھی بتا دیں۔ اس نے دراز کھولا اور کاغذوں کے ایک پلندے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے بولا
“یہ سارے فارم مجھے بھرنے ہیں، پھر ان کو کمپیوٹر میں انٹر کرنا ہے ، پھر ان کی مزید پراسسنگ کرنی ہے۔ یہ تین بندوں کا کام ہے لیکن بینک والے کوئی اضافی بندہ رکھنے پہ تیار ہی نہیں ہیں۔”

کام کا بوجھ اس کی پور پور سے چھلک رہا تھا۔ بولا “آپ کا اکاؤنٹ ایک ہفتے میں کھل جائے گا ، آپ فکر نہ کریں لیکن اگر آپ بینک انتظامیہ کو شکایت بھی کرنا چاہیں تو بلاجھجھک کریں ، انھیں بھی پتا ہے کہ تین بندوں کا کام ایک بندے سے لے رہے ہیں۔ وہ کچھ نہیں کریں گے۔”

میں کاغذی کارروائیاں مکمل کر کے رخصت ہو گیا لیکن اس کا کام کے بوجھ میں ڈوبا ہوا وجود ذہن سے چپکا رہا۔ آج ہفتے بعد دوبارہ وہاں گیا تو وہی میز تھا ، وہی کاغذوں کا پلندا اور اس میں پھنسا ہوا وہ۔۔۔

اس کے چہرے پہ اسی دن کی طرح آج بھی شدید تھکن تھی ، کام کا بوجھ تھا۔ مجھے دیکھا تو پہچان کر ہلکی سی مسکراہٹ دینے کی کوشش کی ،لیکن وہ مسکراہٹ بھی تھکن کے پیچھے ہی کہیں چھپی رہ گئی۔ میں نے پوچھا اتنا بوجھ کیوں لیتے ہو کام کا؟

کہنے لگا کام ہی اتنا زیادہ دے دیتے ہیں کہ ختم ہونے کا نام ہی نہیں لیتا۔ سارا دن اسی جنگ میں گزر جاتا ہے کہ یہ کام بھی مکمل کر دوں، وہ کام بھی مکمل کر دوں۔”

سوچ رہا ہوں اس کی عمر تو زندگی کو بھرپور طریقے سے جینے کی ہے لیکن وہ اپنی ضروریاتِ زندگی کو پورا کرنے کے لیے اس طرح کام میں لگا ہوا کہ کسی اور چیز کا ہوش ہی نہ رہے۔ ایسے ہی چلتا رہا تو کام کی آگ میں جلتا اس کا وجود وقت سے بہت پہلے تھک کر بوڑھا ہو جائے گا۔

یہ کوئی اکلوتا پرائیویٹ ادارہ نہیں جہاں کام کرنے والوں پہ اتنا بوجھ لاد دیا گیا ہے۔ ہم اپنے اردگرد جہاں بھی دیکھیں ہر پرائیویٹ ادارے نے یہی ذمہ داری سنبھالی ہوئی ہے کہ اپنے پاس کام کرنے والوں کو کام کی شدت سے نچوڑ کررکھ دیا جائے۔ جتنے کم سے کم لوگ رکھے جا سکیں، اتنے کم میں ہی سٹاف نمٹا دیا جائے۔ کسی کو اس بات کی پرواہ ہی نہیں کہ ہم ظلم کر رہے ہیں، اپنے ماتحت کام کرنے والوں کے ساتھ زیادتی کر رہے ہیں۔

اور کام کرنے والے بیچارے نوکریاں کم ہونے کی وجہ سے مجبور ہو کر اُف تک نہیں کر پاتے ، خاموشی سے یہ ظلم سہتے رہتے ہیں۔

Advertisements
julia rana solicitors london

آپ سب بھی اپنا محاسبہ کیجیے، اگر آپ کے ماتحت بھی کام کرنے والے ملازمین ہیں تو ان کے چہرے غور سے دیکھ لیا کریں کہ کہیں کام کی زیادتی ان سے زندگی کی مسرتیں تو نہیں چھین رہی۔ کہیں انجانے میں ان پہ اضافی کام کا بوجھ تو نہیں ڈال رکھا۔ ان کے حقوق کا خیال رکھیے ورنہ ان کے حقوق پہ بڑی سخت پکڑ ہو گی۔

Facebook Comments

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply