مذہب/مبشر حسن

فلسفہ کے ساتھ ساتھ مذہب بھی نوع انسانی کی فکر پر غالب رہا ہے۔ مذہب کی تعریف کرنا بہت مشکل ہے کیونکہ یہ نمو پاتی ہوئی ، متحرک چیز بسیط ، ذاتی اور نفس مضمون میں وسیع ہے۔ درحقیقت مذہب خصوصی اعتبار سے ایسی چیز ہے جسے محسوس اور تجربہ کرنا پڑتا ہے، نہ کہ اس کی تعریف کی جاتی ہے۔ بایں ہمہ یہ درست ہے، لیکن لفظ مذہب کا کوئی نہ کوئی مفہوم ہے اور اس مفہوم کو جانا بہتر ہوگا۔ Religion (مذہب) کا ماخذ لاطینی لفظ religio یعنی “باندھنا ہے۔ حوالے سے بات کریں تو مذہب اتحاد اور ہم آہنگی کا قاعدہ ہے۔ کوئی بھی اصول‘ جو ہمیں بحیثیت مجموعی باہم باندھتا ہے وہ مذہب ہے۔ یہ محض عقیدہ ہی نہیں بلکہ طرز عمل بھی ہے، صرف یقین کلی ہی نہیں بلکہ شعار بھی صرف ایمان نہیں بلکہ وظائف کی ادائیگی بھی۔ مذہب میں ساری انسانی شخصیت ملوث ہے۔
ولیم جیمز نے مذہب کو یوں بیان کیا ہے کہ ”افراد کے اپنی تنہائی میں احساسات، افعال لفظی اور تجربات یہاں تک کہ وہ خود اپنے خیال کے مطابق الوہی چیز کے ساتھ تعلق کی تہہ تک پہنچ جائیں۔“ ہوفوڈنگ مذہب کو یوں بیان کرتا ہے، ’’اقدار کو محفوظ بنانا مذہب ہے۔“
سکندر کے مطابق ”دیوتا میں یقین مذہب ہے۔ پیٹرک کے خیال میں، ”مذہب ایک نظر نہ آنے والے روحانی نظم کے ساتھ عملی تعلق کا شعور ہے۔ وائٹ ہیڈ کہتا ہے‘ ’’مذہب کسی ایسی چیز کا نظارہ ہے جو موجودہ اشیاء کے گذرتے ہوئے بہاؤ سے پرے، پیچھے اور اندر کھڑی ہے۔“ ڈبلیو۔ ٹی یٹس نے مذہب کی تعریف ناممکن ناقابل حصول اور ناقابل فہم کے لئے روح کی بھوک کے طور پر کی۔ کانٹ نے کہا’مذہب ارادے کا معاملہ ہے۔ اسے عملی استدلال کے ساتھ سمجھا اور شناخت کیا جاتا ہے۔ یعنی یہ کہ مخصوص افعال کرنے چاہئیں یا مخصوص رویے اختیار کرنے چاہئیں۔“ ڈیورانٹ ڈریک نے مذہب کو ان الفاظ میں بیان کیا :
دل اور ارادے کی ترتیب، جس کے ذریعہ انسان اعلی ترین چیزوں پر غور و فکر تک آیا اور زندگی کے سطحی پہلوؤں اور حادثات سے بالاتر اندرونی طمانیت کے ساتھ زندگی گزارتا ہے۔ اس کی اندرونی نوعیت کے اعتبار سے ہم اسے روحانیت کہتے ہیں: جب یہ خارجی صورتوں اور بصیرتوں میں مجسم ہوتا اور ساری برادریوں کے درمیان پھیلتا ہے تو ہم اسے مذہب کہتے
سوامی ویو کانند کے خیال میں مذہب عقائد ، مسلکوں میں ہے نہ ذہنی استدلال میں: یہ ہونا اور بن جاتا ہے۔ یہ شعور و فہم ہے۔ چنانچہ موزوں عمل کے ذریعہ زندگی گزارنے کا فن مذہب ہے ۔۔۔۔ یعنی ہم اپنے آپ میں دوسروں کے ساتھ ہم آہنگی میں اپنی زندگی کیسے گزاریں اور زندگی میں
طمانیت اور مسرت کیسے حاصل کریں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply