موروثی سیاست:دوسرا رُخ/دانش علی خان

اکتوبر 1984 میں اندرا گاندھی کے قتل کے بعد پیدا ہونے والے سیاسی خلا کو پُر کرنے کے لئے راجیو گاندھی کو وزیراعظم بنایا گیا ،راجیو کا کوئی سیاسی تجربہ نہیں تھا، ایسے وقت میں جب نرسمہا راؤ اور پرناب مکھرجی جیسے تجربہ  کار کانگریس میں موجود تھے ،راجیو کا کانگریس کی کمان سنبھالنا ایک مشکل کام تھا لیکن اسی سال دسمبر میں ہونے والے انتخابات میں وہ ہندوستان کی تاریخ کے طاقتور ترین وزیراعظم بن کر سامنے آۓ، 531 کے ایوان میں راجیو گاندھی کی کانگریس نے 414 نشستیں حاصل کیں تھیں۔

اکثر سنا کہا اور پڑھا گیا  کہ موروثی سیاست بہت بُری چیز ہے ،جو جماعتیں اپنے اندر جمہوری نظام نہیں لا سکیں وہ کس منہ سے جمہوریت کا دعویٰ کرتی ہیں۔

30 سال بعد 2014 کے الیکشن میں نریندر مودی کی کامیابی کی بڑی وجہ موروثیت کے خلاف آواز اٹھانا بھی تھی، وہ راہول گاندھی کو شہزادہ کہہ کر پکارتے رہے اور اپنی جماعت کو ایسے ادارے کے طور پر پیش کرتے جو مکمل طور پر جمہوری نظام پر یقین رکھتی ، اور جہاں موروثیت کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔

پاکستان میں سیاسی جماعتوں پر تنقید ہوتی ہے کہ والدین سے اولاد کی طرف سیاسی وراثت بھی منتقل ہوجاتی ہے اور تجربے کار افراد کو تمام تر محنت اور صلاحیت کے باوجود پارٹی سربراہ نہیں بنایا جاتا۔
یہ باتیں بظاہر سننے اور پڑھنے میں اچھی تو لگتی ہیں لیکن عملی سیاست میں اس کا کوئی حصّہ نہیں۔

برصغیر میں سیاست ہمیشہ ان لوگوں کے ہاتھ میں تھی جو زندگی میں ملک کی خدمت کرنا چاہتے تھے جو قوم پرست تھے آزادی کے بعد پاکستان میں ابتدائی دور میں تو ایسا ہی رہا،یہی وجہ تھی کہ ابتدائی گیارہ برسوں میں سیاسی اٹھا پٹخ میں سات وزراء اعظم تبدیل ہوئے  اور  کاروبار ِ ریاست بھی چلتا رہا، لیکن مارشل لاء نے حالات بدل دئیے مارشل لاء نے مصنوعی قیادت پیدا کی تاکہ اپنی کارستانیوں کو جمہوریت کا لبادہ پہنایا جا سکے، اس میں فوجی آمروں کی روایتی سیاست دانوں نے کوئی مدد نہیں کی، ایوب دور میں نشتر ناظم الدین سہروردی کھوڑو جیسے سیاست دانوں کو سیاست کے میدان سے باہر کردیا گیا ۔بی ڈی سسٹم سے ایک نئی قیادت پیش کی گئی جو جمہوری قوتوں کے بجائے فوجی امداد پر یقین رکھتی تھی۔ جن کے لئے آمریت کا حکم اوّل و آخر کا درجہ رکھتا تھا ،یہ قیادت آمریت کو سہارا دینے کی خاطر کام آئی۔

پہلی بار جب سیاست دانوں کو موقع ملا کہ وہ آمریت کو کُھل کر چیلنج کرسکیں تو انہوں نے فاطمہ جناح کو اپنی قیادت کے لئے چُنا ،قائد کی بہن ہونے کے ناطے فاطمہ جناح پاکستان کے عوام میں وہ عصبیت جگانے میں کامیاب رہیں جو جمہوریت کے کام آئی۔

پاکستان میں جمہوریت نامی پودا کبھی جڑ پکڑ ہی نہیں سکا، مارشل لاء اور ہائبرڈ تجربات نے مسلسل جمہوریت کو نقصان پہنچایا ہے۔
یہاں جو بھی جمہوری تحریکیں چلیں ،وہ افراد کے گرد گھومتی ہیں نا کہ جماعتوں کے گرد ،ہمارے سماج میں افراد کی اہمیت رہی ہے
پاکستان میں جمہوریت ایک نومولود بچے کی طرح ہے ،جسے مسلسل نگہداشت کی ضرورت ہے، اب تک کوئی جماعت ایسی تیار نہیں ہوسکی جو اس بچے کی پرورش کرسکے اور یہ کام افراد کو ہی کرنا پڑتا ہے،اب چونکہ جمہوریت کا پودا اس قدر مضبوط تھا ہی نہیں اس لئے عصبیت کا سہارا لینا پڑا، بعد میں آنیوالی آمریتوں نے بھی اپنے مفادات کی حفاظت کے لئے غیر جمہوری اور مصنوعی قوتیں پیدا کیں۔

یہاں ایم آر ڈی کی مثال لیں، بھٹو کی گرفتاری اور پھانسی پر پیپلز پارٹی کوئی غیر معمولی عوامی تحریک نہیں چلا سکی ،پارٹی لیڈر اعتماد کی کمی کا شکار تھے، نصرت بھٹو نے غیر معمولی قیادت کی اور بے مثال تحریک چلائی، ٹوٹی ہوئی پارٹی کو جوڑ کر مارشل لاء کو چیلنج کیا ،کلثوم نواز ایک غیر سیاسی خاتون تھیں لیکن مارشل لاء کا بے جگری سے مقابلہ کیا۔

پاکستان میں جمہوریت کی آبیاری اشخاص سے جڑی ہے یہی وجہ ہے کہ یہاں قربانیاں خاندانوں نے دیں، نہ کہ نظریاتی بنیادوں پر
اسٹیبلشمنٹ کا رویہ ہے کہ وہ مقبول قیادت کو برداشت نہیں کرتی سب سے پہلے ان کے ساتھیوں کو توڑا جاتا ہے چاہے خوف سے یا لالچ سے، ایسے میں موروثی سیاست ہی جمہوریت کو سنبھلنے میں مدد دیتی ہے ،بھٹو کے بعد ان کی سیاسی وارث بینظیر بنیں کیونکہ بطور بیٹی انہیں اپنے والد کے سیاسی ورثے سے محروم کرنا کسی لالچ یا خوف کے ذریعے ممکن نہ تھا۔

الطاف حسین اپنے کسی بھائی بہن کو سیاست میں نہ لانا، اپنا فخر مانا کرتے تھے ،وہ بھی پاکستان کے عصبیت سے جڑے سیاسی عمل کو سمجھنے میں ناکام رہے۔ کیا انہیں سیاسی میدان میں اس طرح خاموش کرنا ممکن ہوتا اگر ان کے سیاسی وارث ان کے اپنے گھر سے ہوتے؟

نواز شریف کے لئے سب سے پہلے نکلنے والی انکی اہلیہ تھیں
ہندوستان میں بھاجپہ نے موروثی سیاست کو کامیابی سے ناکام بنایا لیکن یہ سب راتوں رات نہیں ہُوا۔

سیاسی ورکر کی ایک ٹیم بنی جنہوں نے کئی ناکامیاں دیکھیں،1984 میں دو نشستوں والی جماعت 2014میں دو تہائی اکثریت  حاصل کرگئی۔
کیونکہ مسلسل لیڈرز نے اپنے کردار اور نظریات کو پالش کیا اور  عوام کی طاقت پر یقین رکھا۔
جب کہ ہمارے ہاں مصنوعی قوتیں اسٹیبلشمنٹ کی مداخلت پر یقین رکھتی ہیں، آپس میں اسٹیبلشمنٹ کی خوشنودی کے لئے لڑتی ہیں،
اگر پاکستان سے موروثی سیاست کا خاتمہ کرنا ہے تو عوام کو مسلسل جمہوریت کی تعلیم دینا ہوگی، اس صبر آزما رستے پر غیر متزلزل یقین سے چلنا ہوگا۔

موروثی سیاست کو ختم کرنا ممکن ہے اگر مسلسل جمہوریت ممکن ہو جب کہ مصنوعی قیادت پیدا نہ کی جائے، ایسے افراد ہوں جو جمہوریت کو ایمان کی حد تک مانتے ہوں۔

Advertisements
julia rana solicitors

ہم جمہوری نظام میں بلحاظ درجہ زمین پر ہیں موروثی سیاست کا خاتمہ کرنے کی خواہش کرنا درست ہے لیکن اس کا متبادل مصنوعی قیادت ہونا عوام دشمنی ہے موروثیت کا خاتمہ وہ قوتیں کریں جن کی جڑیں عوام میں ہوں نہ کہ وہ جو چور دروازوں سے حکومتی ایوانوں میں داخل ہوں۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply