• صفحہ اول
  • /
  • نگارشات
  • /
  • تفسیر ابنِ کثیر۔علامہ عماد الدین ابنِ کثیر۔پارہ”الم”سورۃ بقرہ

تفسیر ابنِ کثیر۔علامہ عماد الدین ابنِ کثیر۔پارہ”الم”سورۃ بقرہ

إِنَّا أَرْسَلْنَاكَ بِالْحَقِّ بَشِيرًا وَنَذِيرًا وَلَا تُسْأَلُ عَنْ أَصْحَابِ الْجَحِيمِ
ترجمہ:
آپ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نصیحت کی حد تک مسؤل ہیں
حدیث میں ہے خوشخبری جنت کی اور ڈراوا جہنم سے لا تسئل کی دسری قرأت ما تسئل بھی ہے اور ابن مسعود کی قرأت میں لن تسئل بھی ہے یعنی تجھ سے کفار کی بابت سوال نہیں کیا جائے گا جیسے فرمایا آیت (فانما علیک البلغ وعلینا الحلساب یعنی تجھ پر صرف پہنچا دینا ہے حساب تو ہمارے ذمہ ہے اور فرمایا آیت (فَذَكِّرْ ڜ اِنَّمَآ اَنْتَ مُذَكِّرٌ 21؀ۭ لَسْتَ عَلَيْهِمْ بِمُصَۜيْطِرٍ 22؀ۙ ) 88 ۔ الغاشیہ :21) تو نصیحت کرتا رہ تو صرف نصیحت کرنے والا ہے ان پر داروغہ نہیں اور جگہ فرمایا آیت (نحن اعلم بما یقولون) الخ ہم ان کی باتیں بخوبی جانتے ہیں تم ان پر جبر کرنے والے نہیں ہو تو قرآن کی نصیحتیں انہیں سنا دو جو قیامت سے ڈرتے ہوں اسی مضمون کی اور بھی بہت سی آیتیں ہیں ایک قرأت اس کی ولا تسائل بھی ہے یعنی ان جہنمیوں کے بارے میں اے نبی مجھ سے کچھ نہ پوچھو عبدالرزاق میں ہے کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے فرمایا کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا، کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا، کاش کہ میں اپنے ماں باپ کا حال جان لیتا۔ اس پر یہ فرمان نازل ہوا۔ پھر آخری دم تک آپ نے اپنے والدین کا ذکر نہ فرمایا ابن جریر نے بھی اسے بروایت موسیٰ بن عبیدہ وارد کیا ہے لیکن اس راوی پر کلام ہے قرطبی کہتے ہیں مطلب یہ ہے کہ جہنمیوں کا حال اتنا بد اور برا ہے کہ تم کچھ نہ پوچھو، تذکرہ میں قرطبی نے ایک روایت نقل کی ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے والدین زندہ کئے گئے اور ایمان لے آئے اور صحیح مسلم میں جو حدیث ہے جس میں آپ نے کسی کے سوال پر فرمایا ہے کہ میرا باپ اور تیرا باپ آگ میں ہیں ان کا جواب بھی وہاں ہے لیکن یاد رہے کہ آپ کے ماں باپ کے زندہ ہونے کی روایت کتب صحاح ستہ وغیرہ میں نہیں اور اس کی اسناد ضعیف ہے واللہ اعلم۔ ابن جریر کی ایک مرسل حدیث میں ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) نے ایک دن پوچھا کہ میرے باپ کہاں ہیں اس پر یہ آیت نازل ہوئی، ابن جریر نے اس کی تردید کی ہے اور فرمایا ہے کہ یہ محال ہے کہ حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) اپنے ماں باپ کے بارے میں شک کریں پہلی ہی قرأت ٹھیک ہے لیکن ہمیں امام ہمام پر تعجب آتا ہے کہ انہوں نے اسے محال کیسے کہ دیا ؟ ممکن ہے یہ واقعہ اس وقت کا ہو جب آپ اپنے ماں باپ کے لئے استفسار کرتے تھے اور انجام معلوم نہ تھا پھر جب ان دونوں کی حالت معلوم ہوگئی تو آپ اس سے ہٹ گئے اور بیزاری ظاہری فرمائی اور صاف بتادیا کہ وہ دونوں جہنمی ہیں جیسے کہ صحیح حدیث سے ثابت ہوچکا ہے اس کی اور بھی بہت سی مثالیں ہیں مسند احمد میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عمرو بن عاصی (رض) سے حضرت عطا بن یسار نے پوچھا کہ رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کی صفت و ثنا توراۃ میں کیا ہے تو آپ نے فرمایا ہاں اللہ کی قسم جو صفتیں آپ کی قرآن میں ہیں وہی توراۃ میں بھی ہیں، توراۃ میں بھی ہے اے نبی ہم نے تجھے گواہ اور خوشخبریاں دینے والا اور ڈرانے والا اور ان پڑھوں کا بچاؤ بنا کر بھیجا ہے تو میرا بندہ اور میرا رسول ہے میں نے تیرا نام متوکل رکھا ہے تو نہ بد زبان ہے نہ سخت گو نہ بدخلق نہ بازاروں میں شور غل کرنے والا ہے نہ تو برائی کے بدلے برائی کرنے والا ہے بلکہ معاف اور درگزر کرنے والا ہے اللہ تعالیٰ انہیں دنیا سے نہ اٹھائے گا جب تک کہ تیرے دین کو تیری وجہ سے بالکل ٹھیک اور درست نہ کر دے اور لوگ لا الہ الہ اللہ کا اقرار نہ کرلیں اور ان کی اندھی آنکھیں کھل نہ جائیں اور ان کے بہرے کان سننے نہ لگ جائیں اور ان کے زنگ آلود دل صاف نہ ہوجائیں بخاری کی کتاب الیسوع میں بھی یہ حدیث ہے اور کتاب التفسیر میں بھی ابن مردویہ میں اس روایت کے بعد مزید یہ ہے کہ میں نے پھر جا کر حضرت کعب سے یہی سوال کیا تو انہوں نے بھی ٹھیک یہی جواب دیا۔

Advertisements
julia rana solicitors

وَلَنْ تَرْضَى عَنْكَ الْيَهُودُ وَلَا النَّصَارَى حَتَّى تَتَّبِعَ مِلَّتَهُمْ قُلْ إِنَّ هُدَى اللَّهِ هُوَ الْهُدَى وَلَئِنِ اتَّبَعْتَ أَهْوَاءَهُمْ بَعْدَ الَّذِي جَاءَكَ مِنَ الْعِلْمِ مَا لَكَ مِنَ اللَّهِ مِنْ وَلِيٍّ وَلَا نَصِيرٍ
ترجمہ:
دین حق کا باطل سے سمجھوتہ جرم عظیم ہے
آیت بالا کا مطلب یہ ہے کہ یہ لوگ تجھ سے ہرگز راضی نہیں ہوں گے لہذا تو بھی انہیں چھوڑ اور رب کی رضا کے پیچھے لگ جا تو نے انہیں دعوت رسالت پہنچا دیں۔ دین حق وہی ہے جو اللہ نے تجھے دیا ہے تو اس پر جم جا۔ حدیث شریف میں ہے میری امت کی ایک جماعت حق پر جم کر دوسروں کے مقابلہ میں رہے گی اور غلبہ کے ساتھ رہے گی یہاں تک کہ قیامت آئے پھر اپنے نبی کو خطاب کر کے دھمکایا کہ ہرگز ان کی رضا مندی اور ان سے صلح جوئی کے لئے اپنے دین میں سست نہ ہونا ان کی طرف نہ جھکنا ان کی نہ ماننا فقہاء کرام نے اس آیت سے استدلال کیا ہے کہ کفر ایک ہی مذہب ہے خواہ وہ یہود ہوں نصرانی ہوں یا کوئی اور ہوں اس لئے کہ ملت کا لفظ یہاں مفرد ہی رکھا جیسے اور جگہ ہے آیت (لکم دینکم ولی دین) تمہارے لئے تمہارا دین ہے اور میرے لئے میرا دین ہے اس استدلال پر اس مسئلہ کی بنا ڈالی ہے کہ مسلمان اور کفار آپس میں وارث نہیں ہوسکتے اور کفر آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوسکتے ہیں گو وہ دونوں ایک ہی قسم کے کافر ہوں یا دو الگ الگ کفروں کے کافر ہوں، امام شافعی اور امام ابوحنیفہ کا یہی مذہب ہے اور امام احمد سے بھی ایک روایت میں یہی قول منقول ہے اور دوسری روایت میں امام احمد کا اور امام مالک کا یہ قول مروی ہے کہ دو مختلف مذہب والے آپس میں ایک دوسرے کے وارث نہ ہوں ایک صحیح حدیث میں بھی یہی مضمون ہے واللہ اعلم۔
حق تلاوت سے کیا مراد ہے ؟
پھر فرمایا کہ جنہیں ہم نے کتاب دی ہے وہ حق تلاوت ادا کرتے ہوئے پڑھتے ہیں، قتادہ کہتے ہیں اس سے مراد یہود نصاریٰ ہیں اور روایت میں ہے کہ اس سے مراد اصحاب رسول اللہ (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) حضرت عمر فرماتے ہیں حق تلاوت یہ ہے کہ جنت کے ذکر کے وقت جنت کا سوال کیا جائے اور جہنم کے ذکر کے وقت اس سے پناہ مانگی جائے ابن مسعود فرماتے ہیں حلال و حرام کو جاننا کلمات کو ان کی جگہ رکھنا تغیر و تبدل نہ کرنا وغیرہ یہی تلاوت کا حق ادا کرنا ہے حسن بصری فرماتے ہیں کھلی آیتوں پر عمل کرنا متشابہ آیتوں پر ایمان لانا مشکلات کو علماء کے سامنے پیش کرنا حق تلاوت کے ساتھ پڑھنا ہے ابن عباس سے اس کا مطلب حق اتباع بجا لانا بھی مروی ہے پس تلاوت بمعنی اتباع ہے جیسے آیت (وَالْقَمَرِ اِذَا تَلٰىهَا) 91 ۔ الشمس :2) میں ایک مرفوع حدیث میں بھی اس کے یہی معنی مروی ہیں لیکن اس کے بعض راوی مجہول ہیں گو معنی ٹھیک ہے حضرت ابو موسیٰ اشعری فرماتے ہیں قرآن کی اتباع کرنے والا جنت کے باغیچوں میں اترنے والا ہے، حضرت عمر کی تفسیر کے مطابق یہ بھی مروی ہے کہ آنحضرت (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) جب کوئی رحمت کے ذکر کی آیت پڑھتے تو ٹھہر جاتے اور اللہ سے رحمت طلب کرتے اور جب کبھی کسی عذاب کی آیت تلاوت فرماتے تو رک کر اللہ تعالیٰ سے پناہ طلب فرماتے۔ پھر فرمایا اس پر ایمان یہی لوگ رکھتے ہیں یعنی جو اہل کتاب اپنی کتاب کی سوچ سمجھ کر تلاوت کرتے ہیں وہ قرآن پر ایمان لانے پر مجبور ہوجاتے ہیں جیسے اور جگہ آیت (وَلَوْ اَنَّهُمْ اَقَامُوا التَّوْرٰىةَ وَالْاِنْجِيْلَ وَمَآ اُنْزِلَ اِلَيْهِمْ مِّنْ رَّبِّهِمْ لَاَكَلُوْا مِنْ فَوْقِهِمْ وَمِنْ تَحْتِ اَرْجُلِهِمْ ) 5 ۔ المائدہ :66) اگر یہ توراۃ انجیل پر اور اللہ کی ان کی طرف نازل کردہ چیز پر قائم رہتے تو ان کے اوپر سے اور پیروں تلے سے انہیں کھانا ملتا اور فرمایا اے اہل کتاب جب تک تم توراۃ و انجیل کو اور جو تمہاری طرف تمہارے رب کی طرف سے اترا اس کو قائم نہ کرلو تب تک تم کسی چیز پر نہیں ہو ان کا قائم کرنا مستلزم ہے کہ تم اس میں جو ہے اسے سچا جانو اور اس میں حضور (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) کے ذکر کی صفات آپ کی تابعداری کا حکم آپ کی اتباع کی رغبت سب کچھ موجود ہے اور جگہ فرمایا جو لوگ نبی (صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم) امی کی تابعداری کرتے ہیں جس رسول کا ذکر اور تصدیق اپنی کتاب توراۃ و انجیل میں بھی لکھا دیکھتے ہیں اور جگہ فرمایا آیت (اِنَّ الَّذِيْنَ اُوْتُوا الْعِلْمَ مِنْ قَبْلِهٖٓ اِذَا يُتْلٰى عَلَيْهِمْ يَخِرُّوْنَ لِلْاَذْقَانِ سُجَّدًا) 17 ۔ الاسرآء :107) یعنی تم ایمان لاؤ یا نہ لاؤ جنہیں اس سے پہلے علم دیا گیا ہے ان پر جب اللہ کی آیتیں پڑھی جاتی ہیں منہ کے بل سجدے میں گرپڑتے ہیں اور زبانی کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے ہمارے رب کا وعدہ بالکل سچا اور صحیح ہے اور جگہ ہے جنہیں ہم نے اس سے اگلی کتاب دی ہے وہ بھی اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان پر یہ پڑھی جاتی ہیں منہ کے بل سجدے میں گرپڑتے ہیں اور زبانی کہتے ہیں کہ ہمارا رب پاک ہے ہمارے رب کا وعدہ بالکل سچا اور صحیح ہے اور جگہ ہے جنہیں ہم نے اس سے اگلی کتاب دی ہے وہ بھی اس پر ایمان لاتے ہیں اور ان پر یہ پڑھی جاتی ہے تو اپنے ایمان کا اقرار کر کے کہتے ہیں ہم تو پہلے ہی سے ماننے والوں میں ہیں انہیں ان کے صبر کا دوہرا اجر دیا جائے گا یہ لوگ برائی کو بھلائی سے ہٹاتے ہیں اور ہمارے دیئے ہوئے میں سے دوسروں کو دیتے ہیں اور جگہ ارشاد ہے آیت (وَقُلْ لِّلَّذِيْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ وَالْاُمِّيّٖنَ ءَاَسْلَمْتُمْ ۭ فَاِنْ اَسْلَمُوْا فَقَدِ اھْتَدَوْا) 3 ۔ آل عمران :20) یعنی پڑھے لکھے اور بےپڑھے لوگوں سے کہ دو کہ کیا تم اسلام قبول کرتے ہو ؟ اگر مان لیں تو راہ پر ہیں اور اگر نہ مانیں تو تجھ پر صرف تبلیغ ہے اللہ تعالیٰ اپنے بندوں کو خوب دیکھ رہا ہے اسی لئے یہاں فرمایا کہ ساتھ کفر کرنے والے خسارے والے ہیں، جیسے فرمایا آیت (وَمَنْ يَّكْفُرْ بِهٖ مِنَ الْاَحْزَابِ فَالنَّارُ مَوْعِدُهٗ ) 11 ۔ ہود :17) جو بھی اس کے ساتھ کفر کرے اس کے وعدے کی جگہ آگ ہے صحیح حدیث میں اس کی قسم جس کے ہاتھ میں میری جان ہے اس امت میں سے جو بھی مجھے سنے خواہ یہودی ہو خواہ نصرانی ہو پھر مجھ پر ایمان نہ لائے وہ جہنم میں جائے گا۔

Facebook Comments

مکالمہ
مباحثوں، الزامات و دشنام، نفرت اور دوری کے اس ماحول میں ضرورت ہے کہ ہم ایک دوسرے سے بات کریں، ایک دوسرے کی سنیں، سمجھنے کی کوشش کریں، اختلاف کریں مگر احترام سے۔ بس اسی خواہش کا نام ”مکالمہ“ ہے۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply