انسانوں کی بستی میں گدھوں کا راج/عبدالرؤف

میرے دوست نے کہا مجھے گدھے بہت پسند ہیں ۔ میں نے کہا بھلا گدھے بھی کسی کو پسند ہوتے ہیں ۔ گدھوں سے کیسا پیار ،گدھے تو گدھے ہوتے ہیں ۔ وہ کہنے لگا بس یار مجھے گدھے بہت اچھے لگتے ہیں اور میں نے تو باقاعدہ گدھے پالے ہوئے ہیں ۔ میری دلچسپی بڑھی اور مزید معلومات لی، کہ کیسے رکھتے ہو ان گدھوں کو؟
اس نے کہا کہ جیسے گدھوں کو رکھا جاتا ہے۔ فوراً سے میں نے دوسرا سوال کیا کہ گدھوں کو کھلاتے کیا ہو؟ اس کا جواب تھا گھاس،
میں سوچنے لگا کہ گدھوں سے کیسی  اُنسیت  ؟ ہاں! اگر کسی نے پالا ہے اور عرصے سے اس کے پاس ہے تو پھر چاہت بنتی ہے اور ویسے بھی محبت کا تعلق قربت سے ہے قربت جتنی پرانی ہوگی، اتنی ہی مضبوط ہوگی۔

دوست کی بات ہوئی ختم ہوگئی لیکن میں سوچنے لگا کہ کیا ہمارے حکمران بھی گدھے ہیں کہ ہم ان سے اتنا جنون کی حد  تک پیار کرتے ہیں۔ کیونکہ حکمران بھی تو خوبصورت نہیں ہوتے وہ بھی تو بڑی عمر کے لگڑ بھگے ہوتے ہیں اور ہم انھیں آخری حد تک چاہتے ہیں۔ گدھوں کو چاہنا ناممکن ہے لیکن میرے پاکستان میں یہ اک عام سی بات ہے۔

گدھے ہم ہیں یا حکمران یہ وقت ثابت کر رہا ہے ، یہاں حکمرانوں کو گدھوں سے تشبیہ اس لیے دی کہ ہم عوام ان حکمرانوں کو اتنا چاہتے ہیں اور یہ گدھوں کی طرح ٹس سے مس ہی نہیں ہوتے۔ اب اگر کوئی یہ سوچے کہ گدھے تو عوام ہیں کہ وہ ان حکمرانوں پر بھروسہ کیے بیٹھے ہیں۔

یہ بھی یاد رہے کہ گدھے بیوقوفی کے زمرے میں آتے ہیں اور ان کا نام ستعاری معنوں میں لیا جاتا ہے۔

ایک بار میرے دوست نے کہا تھا کہ ہم گدھوں کے دیس میں رہتے ہیں جس پر میں نے شدید احتجاج کیا تھا جواب میں دوست نے کہا تھا کہ گدھوں کے دیس میں دو انسان بھی بستے ہیں وہ ہیں میں اور آپ۔ اب سوچتا ہوں کہ میرے دوست کی بات درست تھی ۔ ہم گدھے ہیں ہم پر جتنا بھی وزن، بوجھ ڈال دو ہمیں جتنا بھی تھکا دو، ہلکان کردو۔  ہم نے چوں چراں نہیں کرنی، چپ کر کے سب کچھ سہنا ہے ،اگر دیکھا جائے تو یہ اضافی خاموشی گدھوں میں پائی جاتی ہے۔

سچ تو یہ ہے کہ ہم گدھوں سے بھی بد تر زندگی گزار رہے ہیں، انھیں  تو پھر بھی کھانے کے لئیے خالص گھاس دستیاب ہے اور اک ہم ہیں کہ گدھوں جتنا کام کر کے بھی ملاوٹ شدہ اشیاء کھانے کو ملتی ہے ۔ جس سے ہم کئی قسم کے امراض میں مبتلا ہوچکے ہیں۔
ہماری زندگی بھی گدھوں جیسی ہی گزر رہی ہے کوئی بدلاؤ نظر نہیں آ تا نسل در نسل گدھے ۔

انسان شعوری منازل طے کرتا ہے اور پھر اپنے فیصلوں میں خود مختار بنتا ہے وہ اچھے برے کی پہچان شعوری طور پر کرتا ہے۔ علم حاصل کرنے کا مقصد کیا ہے؟ خود کو دوسروں میں ممتاز کرنا۔ خود کو منوانا۔ علم انسان کو آگہی دیتا ہے اور یہ آپ میں اس بات کا شعور بھی اجاگر کرتا ہے کہ آپ کیا ہیں اور آپ کی اصل شناخت کیا ہے؟ لیکن افسوس ہم پڑھ لکھ تو گئے شعور بھی آگیا لیکن غلامی کی زنجیریں نہیں توڑ پائے۔ اس کی وجہ خوف کے وہ مہیب سائے ہیں جو ستر سال سے ہمارے پیچھے چلے آرہے ہیں اور ہم اب تک خوف کے ان سایوں کو سائباں فراہم نہ کرسکے۔

ہم خود کو گدھے کہہ لیں یا شیر، اصل ان خوف کے بتوں کو پاش پاش کرنا ہے جس نے خوف کو ہم پر مسلط کر رکھا ہے اور ہم میں اتنی بھی ہمت نہیں کہ ہم اگر خود کو شیر کہہ بھی دیں تو وہ ہمت نہیں آتی جو شیر جیسے جانور میں پائی جاتی ہے۔ خود کو کسی طاقتور جانور سے مشابہ دینے سے بہتر ہے خود کو بدلیں ۔
جس طرح خود کو گدھا کہنے سے ہم گدھے نہیں بن جاتے اسی طرح شیر کہنے سے بھی ہم شیر نہیں بن جاتے۔

Advertisements
julia rana solicitors

اک جگہ حکمرانوں کو بھی گدھے سے تشبیہ دی، اگر حقیقت کی نظر سے دیکھا جائے تو وہ گدھے نہیں گدھ ہیں گدھ ۔ جو ہماری موت پر بھی سوداگری کرتے ہیں۔
ہم نے آج تک گدھے کو انسان نہیں کہا کہ یہ انسان کی توہین ہے لیکن انسان کو ہمیشہ گدھے سے تشبیہہ دی ۔
لیکن گدھے کبھی برا نہیں مانتے کہ مہان لوگوں سے ملایا جارہا ہے۔
انسانوں کے اس جلو میں گدھے نما سر ، کیا عجب تماشا ہےکہ اب انساں بھی گدھے نظر آتے ہیں۔

Facebook Comments

عبدالرؤف خٹک
میٹرک پاس ۔اصل کام لوگوں کی خدمت کرنا اور خدمت پر یقین رکھنا اصل مقصد ہے

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply