جب ہم مل جُل کے رہتے تھے وہ دن تلاش کرتی ہوں (1)-عامر حسینی

کیوں کر بیاں ہو  مرتبہ اُس ذی وقار کا
محبوب بارگاہ ہو جو پروردگار کا
اداسی، ہجر و فراق اور ملال ویسے تو ہمارے ہاں دوامی موسم ہیں مگر اپنی شدت اور کم و کیف کے اعتبار سے ان میں نشیب و فراز ہوتے رہتے ہیں۔ آج کل یہ موسم فراز کے مرحلے میں ہے اور میں دو دن پہلے لکھا تھا کہ حالت اپنی ایسی ہے کہ نام تو بھائیوں کا لیتی ہوں لیکن روتی یار کے لیے ہوں۔ عجب کیفیت ہے کہ یہ تب بھی اپنی شدت میں کمی ہونے نہیں دیتی جب میں اپنے ذمہ لگے ضروری کاموں کو نمٹانے میں مصروف ہوتا ہوں۔ حد تو یہ ہے کہ اس کیفیت ہجر میں کارل مارکس کی سخت مادیاتی جدلیت سے سرشار نثر بھی کمی نہیں آنے دیتی( آج کل میں کارل مارکس کی شہرہ آفاق کتاب “داس کیپٹل/سرمایہ” اور “جرمن آئیڈیالوجی” کے تراجم پر کام کرنے کے لیے ان کتابوں کی قرآت ثانی کررہا ہوں اور نوٹس کی تیاری بھی جاری ہے اور ساتھ ساتھ اپنے لال مولانا بھاشانی پر پہلا باب بھی لکھ رہا ہوں اور اپنی کتاب “کوفہ: فوجی چھاؤنی سے سیاسی تحریکوں کا مرکز بننے تک” کے دوسرے توسیع شدہ ایڈیشن کے فائنل ڈرافٹ کی تیاری بھی جاری ہے۔) اس سارے کام کے دوران ستم گر مہینہ فروری آگیا ہے اور آگے اس سے بھی زیادہ ستم گر مہینہ مارچ سامنے کھڑا ہے اور لوگ جب موسم بہار کے مزے لوٹیں گے تو ہم ایک ظاہری موسم خزاں سے باطنی خزاں کے موسم میں داخل ہوجائیں گے۔ گریہ مسلسل ہوگا، نوحہ روز ہوگا اور ماتم قدم قدم پہ بپا ہوگا۔
تینڈے قتل دے بعد ہجوم دے وچ میکوں ماں دی چادر نئیں لبھدی
میکوں ٹردا ویکھ اے کوفے وچ بے بس ہاں کمر جھکائی ویندا
آگئی اے شام دی رت بابا بیمار ہاں کڑیاں پائی ویندا
باہر دا چاند اے وین کرے نئیں بھلنی اے محشر تائیں بابا
جیڑھی شام غریباں کربل وچ ماواں نال نبھائی ویندا
( یا حسین! تمہارے قتل کے بعد ہجوم (قاتلاں میں) مجھے ماں کی چادر نہیں ملتی – مجھے کوفہ میں چلتے دیکھو بے بس ہوں جھکی کمر کے ساتھ چلا جارہا ہوں – شام ہوگئی ہے بابا حسین ،بیمار ہوں اور پاؤں میں بیڑیاں ڈالے چل رہا ہوں۔ باہر کا چاند بین کرتا ہے بابا حسین یہ شام قیامت تک نہیں بھلائی جائے گی – یہ وہ شام غریباں ہے کربلا میں ماؤں کا ساتھ دیا جاتا ہوں)

ساری کو بہت شوق تھا سرائیکی سیکھنے کا اور یہ شوق اسے سرائیکی کے کئی ایک نوحوں کو سننے کے بعد پیدا ہوا تھا ,جو میں نے اسے کیسٹوں میں بھرواکے دیے تھے اور وہ گاہے بگاہے مجھے لیکر یا تو عبداللہ شاہ غازی کے مزار کے صحن میں    آتی اور ہم ٹیپ ریکاڈر پر آہستہ آواز میں ایک کونے میں بیٹھ کر سنتے اور پہلے وہ نوحہ سنتی اور اس دوران اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کی جھڑی رواں ہوتی اور پھر جب نوحہ ختم ہوجاتا تو دوبارہ سے اسے شروع کرتی اور میں اسے سرائیکی نوحے کے مصرعوں کا اردو مفہوم بتاتا اور بعض الفاظ خود میری سمجھ میں نہ آتے اور میں ان الفاظ کو (اکثر اوقات غلط) نوٹ بک میں لکھتا اور لیاری میں مقیم اپنے ایک سرائیکی دوست حسین رضا کھوسہ کے پاس چلا آتا اور اس سے پوچھتا تو وہ ذرا کنفیوز  ہوتا لیکن جب میں اسے نوحہ خواں  کا نام بتاتا اور نوحہ بتاتا تو وہ اکثر فی البدیہہ پورا پورا نوحہ پڑھ ڈالتا اور مجھے ازسر نو سارے نوحے کا اردو مفہوم لکھوا دیتا اور میں وہ سارے کا سارا لکھا ساری کے حوالے کردیتا اور وہ اپنی نوٹ بک میں اسے درج کرلیتی ۔ بستر مرگ آنے تک اسے اکثر سرائیکی نوحوں کی بخوبی سمجھ آگئی تھی اور سرائیکی نوحوں کا درد،سوگ،ملال،بین اس میں اپنی روح کے اندر اتار لیا تھا اور اپنے آخری دنوں میں اس نے ٹیپ ریکاڈر پر بار بار غلام حیدر فدا کے کچھ نوحے سنے، خاص طور پر یہ
ایڈا بھاری تیر حرمل بالاں کوں نئیں مریندا
اک قطرے نال ظالم دریا دا کم نئیں کریندا

اس نے نجانے کہاں سے سرائیکی دوہڑے اور مارو سے جنم لینے والے نوحے اور مرثیے کی سرائیکی روایت کے اجرا کی تاریخ بھی معلوم کرلی تھی اور میرے علم میں بھی بہت اضافہ کیا اور ایک دن مجھے اس نے بتایا کہ وہ کسی گردیزی نامی ایک دانشور کے اعزاز میں منعقد تقریب سے ہوکر آئی تھی اور اس نے سرائیکی نوحہ و مرثیہ بارے کچھ نئی دریافتوں بارے اور انکشافات کیے جو اس نے گردیزی سے سنے تھے۔ میں اس کے شوق اور وفور کو دیکھ کر ششدر رہ گیا تھا، میں اس دن حیدرآباد گیا ہوا تھا اور اس وجہ سے اس تقریب میں جانے سے محروم رہ گیا تھا۔ افسوس اس گردیزی صاحب کا پورا نام میرے ذہن سے نکل گیا اور کبھی مجھے شبہ پڑتا ہے وہ شاید مرحوم حیدرعباس گردیزی تھے جن سے ساری ملی ہوگی۔
ول آ وطن تے اکبر راہواں بھلیندی ہاں میں
تینڈے نقش پا چم کے اکھیاں وسیاندی ہاں میں
(لوٹ آؤ وطن (علی اکبر) میں راہوں کو دیکھتی پھرتی ہوں – تمہارے نقش پا کو چوم کر آنکھوں کو ٹھنڈا کرتی ہوں)
کوئی قافلہ جولنگھدا اے سمجھندی ہاں توں آگیا
زخمی پکھی دے وانگوں آ در تے ویندی ہاں میں
جیویں میں وچھڑ گئی آن ایویں بھین کوئی نہ وچھڑے
کلیسدی ہاں میں سڈ کے باہواں بدھیندی ہاں میں
ناں لے کے روز ونج کے ڈیویے بلیندی ہاں میں
جڈاں رل کے وسدے ہاں سے اوں دن گھولیندی ہاں میں
(کوئی قافلہ جو گزرے تو سمجھتی ہوں تو آگیا – زخمی پرندے کی طرح میں استقبال کرتی ہوں میں- جیسے میں بچھڑ گئی ایسے کوئی بہن نہ بچھڑے ۔۔۔۔۔۔۔)

مجھے کہتی کہ ویسے تو قریب قریب ہر زبان میں مرثیہ کی روایت نے نسائی آوازوں میں اس حادثے کی جو منظر کشی کی ہے وہ لاجواب ہے لیکن جیسے یہ روایت سرائیکی زبان میں مارو اور دوہڑے کے ذریعے سے آئی اس کا کوئی جواب نہیں ہے۔اس روایت نوحہ نے جیسے شام غریباں اور کوفے سے شام تک کے سفر اور ادھر مدینے میں موجود حسین کی بیٹی کے وچھوڑے کو پینٹ کیا ،ایسے کسی اور روایت نے پینٹ نہیں کیا۔ ٹریجڈی کو اس نے امر بنانے میں بڑا کردار ادا کیا اور اس میں جو سیاست، اقتدار سے ہٹ کر انسانی جذبے تھے اس کو کاسمولوجیکل جذبوں میں بدل دیا۔ ایک دن ہم یونہی صدر کراچی میں سڑک پہ چلتے جارہے تھے کہنے لگی کہ سرائیکی نوحوں نے واقعہ کربلا کی سینکڑوں تفسیریں اس کے سامنے کھول کر رکھ دی ہیں اور اس نے نہج البلاغہ کے متن کی تشریح کی نئی راہ سجھا دی ہےجس کے ذریعے خون حسین کو کوئی مُلاں بیچ نہیں سکتا۔ یہ مولائیت کی ایسی اپج ہے جس تک پہنچنے کے لیے تمہیں میری آنکھیں مستعار لینا ہوں گی۔ میں آج بھی دیکھ رہا ہوں کہ اس کا چہرہ خوب دمک رہا تھا(عربی میں اسے نضر کہتے ہیں اور امام زین العابدین کا ایک قول ہے کہ جو ذکر اہل بیت کرتا ہے اس کا چہرہ تروتازہ رہتا ہے اور مجھے اس کا چہرہ اس دن اسی قول کی تجسیم معلوم ہو رہا تھا-

مظلوم حسین دی مک گئی اے ، گل جانے ضرب قضا جانے ۔ لٹ جانے عون دی ماں جانے

( میں تو علاقہ ظہور فیضی کی شرح خصائص نسائی کا ریویو لکھنے بیٹھا ہوں اور شعور کی رو دیکھیں کہاں لے گئی ہے لیکن آگے چل کر آپ کو اس کا اور فیضی صاحب کی کتاب پر ریویو کا باہمی ربط معلوم ہوجائے گا)

Advertisements
julia rana solicitors london

جاری ہے

Facebook Comments

عامر حسینی
عامر حسینی قلم کو علم بنا کر قافلہ حسینیت کا حصہ ہیں۔

بذریعہ فیس بک تبصرہ تحریر کریں

Leave a Reply